بیگم کلثوم نواز کے خلاف بغاوت کی ایف آئی آر کا انکشاف

10 مارچ  2000 کو بیگم کلثوم نے حیدرآباد میں خطاب کیاجس کے بعد انکے خلاف مقدمہ بنا


Numainda Express August 16, 2017
مقدمے میں صدرممنون و دیگر کا نام بھی شامل، پولیس افسران نے ایف آئی آر پر مشاورت شروع کردی۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل کیے جانے کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف کی خالی ہونے والی نشست قومی اسمبلی حلقہ این اے 120 سے مسلم لیگ کی جانب سے نامزد امیدوار بیگم کلثوم نواز کے خلاف 17 سال قبل حیدرآباد میں بغاوت اور دیگر الزامات کے تحت درج ایف آئی آر منظرعام پر آگئی ہے۔

12 اکتوبر 1999 کو جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کو ہٹایا اور اس کے بعد انھیں جیل میں ڈال دیا گیا تو ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز نے مسلم لیگ ن کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے پرویز مشرف حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے پورے ملک کے دورے کیے۔ اس دوران 10 مارچ 2000 کو بیگم کلثوم نواز حیدرآباد بھی آئیں اور مرحوم رہنما اللہ بخش مگسی کے گھر کی چار دیواری میں ورکرز کنونشن میں مسلم لیگیوں کے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔

بعدازاں حکومت کی ہدایت پر اس وقت کے تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او انسپکٹر حامد علی تھیم نے سرکاری مدعیت میں حکومت اور پاک فوج کے خلاف عوام کو اکسانے اور دشمنی پیدا کرنے کی کوشش، عوام کو خود سوزی کے لیے تیار کرنے، ملک میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے پروپیگنڈا کرنے اور دیگر الزامات کے مقدمہ درج کیا تھا۔



مذکورہ مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ ,153 124(A),153(A)۔ 16ایم پی او،(A) 7 اور 7(B) انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت مقدمہ درج کیاگیا۔ اس مقدمے میں بیگم کلثوم نواز، رئیس اللہ بخش مگسی، افضل گجر، امداد چانڈیو، بیگم تہمینہ دولتانہ، شاہ محمد شاہ، ممنون حسین، حلیم صدیقی، اسماعیل راہو، اصغر گھمن، بیگم عشرت اشرف، سعود احمد فاروقی، کنور جعفر علی، رضوان چنڑ، علی بخش شاہ عرف پپو شاہ، روشن بلوچ اور چوہدری مظہرالحق کو نامزد کیا گیا تھا جبکہ اس مقدمے میں موجودہ صدر پاکستان ممنون حسین کا نام ساتویں نمبر پر بطور ملزم درج کیا گیا تھا، بعدازاں عرب ممالک کی مداخلت پر سابق صدر پرویز مشرف اور شریف برادران کے درمیان مبینہ معاہدہ ہوا تو اس کے نتیجے میں اسی سال کے ماہ دسمبر میں پوری شریف فیملی سعودی عرب جلا وطن کر دی گئی تو اعلی حکام کی ہدایت پر اس کیس کو بھی بند کر دیا گیا تاہم اب بیگم کلثوم نواز کی جانب سے اب این اے 120 کے کاغذات نامزدگی داخل کیے جانے کے بعد ایف آئی آر کا معاملہ پھر سامنے آ گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس معاملے سے حیدرآباد کے موجودہ پولیس افسران بھی مکمل طور پر لاعلم تھے اور جب میڈیا پر یہ معاملہ آیا تو پھر پولیس افسران نے اس کیس کے متعلق معلومات حاصل کیں اور اس متعلق تمام ریکارڈ بھی محفوظ کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایس ایس پی حیدرآباد امجد احمد شیخ نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اس کیس کو کھولنے یا نہ کھولنے کے حوالے سے اعلی پولیس حکام سے رابطہ کر لیا ہے جبکہ اس سے متعلق پولیس کے قانونی ماہرین سے بھی مشاورت کا فیصلہ کیاہے۔

واضح رہے کہ اس کیس کے مدعی انسپکٹر حامد تھہیم کے ساتھ بطور ملزم نامزد اللہ بخش مگسی، کنور جعفر علی بھی انتقال کر چکے ہیں جبکہ ایف آئی آر میں بیگم کلثوم نواز کے ہمراہ بطور ملزم کے طور پر نامزد افضل گجر، اسماعیل راہو اور علی بخش شاہ عرف پپو شاہ پاکستان پیپلز پارٹی جوائن کر چکے ہیں جبکہ چوہدری مظہر الحق مسلم لیگ قاف کے مرکزی عہدیدار ہیں۔

مقبول خبریں