ڈالر لو گھر جاؤ۔۔۔۔!

غزالہ عامر  جمعرات 5 اکتوبر 2017
آسٹریلیا، روہنگیا مسلمانوں کو  وطن واپسی کے لیے فی کس پچیس ہزار دینے پر تیار

آسٹریلیا، روہنگیا مسلمانوں کو  وطن واپسی کے لیے فی کس پچیس ہزار دینے پر تیار

میانمار میں بودھوں کی بربریت کا شکار کئی لاکھ روہنگیا مسلمان ہجرت کرکے بنگلادیش پہنچ چکے ہیں۔ امن کی نوبیل انعام یافتہ آؤ سان سوچی کی حکومت میں، ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ خبروں کے مطابق ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان کے گاؤں کے گاؤں نذرآتش کردیے گئے۔ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف وحشت و بربریت کا سلسلہ جاری ہے مگر آسٹریلیا روہنگیا مسلمانوں کو واپس ان کے آبائی وطن بھیجنے پر تُلا ہوا ہے!

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آسٹریلیا میں روہنگیا کیسے پہنچے۔ دراصل روہنگیا پناہ کی تلاش میں وہاں پہنچے تھے، مگر آسٹریلوی حکومت نے انھیں پکڑ کر حراستی مرکز میں ڈال دیا۔یہ حراستی مرکز پاپا نیوگنی کے جزیرہ مانوس پر قائم ہے۔ ایک معاہدے کے تحت اس کا انتظام و انصرام آسٹریلوی چلارہی ہے۔ 2001ء میں قائم کیے گئے اس حراستی مرکز میں آٹھ سو افراد قید ہیں۔ ان میں نمایاں تعداد روہنگیا مسلمانوں کی ہے جنھیں آسٹریلوی حکومت واپس میانمار بھیجنا چاہتی ہے۔

پاپانیوگنی میں آسٹریلیا کے زیرانتظام دو حراستی مراکز ہیں۔ دونوں مراکز میں آسٹریلوی سرزمین پر غیرقانونی طور پر قدم رکھنے والے قید ہیں۔ پاپانیوگنی کے عوام اور انسانی حقوق کے ادارے ان مراکز کے حوالے سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیںکہ ان کے قیام کی اجازت دے کر حکمرانوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ برطانوی روزنامے میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ان حراستی مراکز میں روہنگیا مسلمانوں اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہاں محافظوں کے ہاتھوں قیدیوں کی ہلاکت کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ طبی سہولتوں کی عدم دستیابی کے سبب بھی کئی قیدی ہلاک ہوچکے ہیں۔ قیدیوں کو جسمانی تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔

پاپانیوگنی میں انسانی حقوق کے اداروں نے ان حراستی مراکز کی بندش کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے حراستی مراکز ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آسٹریلیا پر حراستی مراکز کو بند کرنا لازم ہوگیا ہے۔ اس لیے آسٹریلوی حکومت چاہتی ہے کہ یہاں قید روہنگیا واپس میانمار چلے جائیں۔ وطن لوٹنے والوں کو پچیس ہزار ڈالر فی کس دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

روزنامے کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں جاری مسلمانوں کا صفایا کرنے کی چنگیزی مہم کے باوجود آسٹریلیا روہنگیا قیدیوں کو واپس بھیجنا چاہتا ہے اور حیران کُن بات یہ ہے کہ کئی روہنگیا واپس جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان میں سے ایک یحیٰ تابانی ہے۔ بتیس سالہ یحییٰ چار سال پہلے آسٹریلیا پہنچا تھا جسے سیکیورٹی فورسز نے پکڑ لیا اور بعدازاں اسے جزیرہ مانوس بھیج دیا گیا۔ تابانی کا کہنا تھا کہ اس کے پاس واپسی کے سوا کوئی راستہ نہیں، کیوں کہ یہاں بھی اس کے ساتھ بدترین سلوک کیا جارہا ہے۔ اسے کسی قسم کے کوئی حقوق حاصل نہیں اور جسمانی و نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تابانی کے مطابق واپسی کے لیے حراستی مرکز کی انتظامیہ سے رابطہ کیے کئی روز ہوگئے ہیں، مگر اب تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی حکومت کے اعلان کردہ پچیس ہزار ڈالر اسے مل سکے ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دونوں ممالک حراستی مرکز کو ماہ رواں کے اختتام تک بند کردینے پر متفق ہوگئے ہیں۔ آسٹریلوی حکومت کے روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار بھیجنے کے فیصلے کو ملک کے اندر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آسٹریلیا میں ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر ایلینے پیئرسن نے اس بارے میں کہا کہ روہنگیا کو واپس میانمار بھیجنے کا فیصلہ ناقابل تصور ہے۔ اس کا مطلب ان لوگوں کو موت کی سزا دینا ہے۔ مختلف حلقوںکی جانب سے تنقید کے باوجود آسٹریلوی حکومت روہنگیا کو میانمار بھیجنے پر مُصر ہے اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔