خان صاحب آپ بھی مجھے پرانے لگے

آپ نے انقلاب زدہ نئے پاکستان کا جو نقشہ عوام کے سامنے کھینچا تھا آپ کا دورہ پشاور اس کی مکمل نفی کرتا ہوا نظر آیا۔


رضا ہاشمی January 15, 2015
خان صاحب آپ کے پروٹوکول اور آپ کے خلاف ہونے والے احتجاج پر آپ کے تاثرات کو دیکھ کر یہ ثابت ہوگیا کہ بدقسمتی سے نئے پاکستان اور پرانے پاکستان میں کوئی فرق نہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

یہ کل ہی کی بات ہے جب متوقع نئے پاکستان کے کپتان چیئرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان اپنی اہلیہ کے ہمراہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کا دورہ کرنے پہنچے جس کا مقصد بدترین دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اسکول کے بچوں کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا۔

اس موقع پر شہید بچوں کے والدین کی طرف سے عمران خان کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ اس موقع پر عمران خان کی سیکورٹی پر معمور اہلکاروں نے انہیں روکا جس پر والدین اور مشتعل ہوگئے اور انہوں نے 'گوعمران گو' کے نعرے تک لگادیے۔

بھاری پروٹوکول میں آنے والے عمران خان ایک بار گاڑی سے اترے مگر شاید صورتحال کو قابو سے باہر دیکھتےہوئے وہ واپس چلے گئے۔ جس ناخوشگوار صورتحال کا عمران خان کوسامنا کرنا پڑا اس نے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کو سیاست چمکانے کا موقع فراہم کیا وہیں کئی سنجیدہ سوالات کو بھی جنم دیا ہے اور سچ پوچھیئے تومجھے نیا پاکستان اورعمران خان دونوں ہی پرانے لگے۔

اول تو یہ کہ عمران خان نے سیاست اور پھر احتجاجی سیاست میں جس شدید انداز کی بنیاد رکھی کیا اسکو برداشت کرنے کا حوصلہ ان میں ہے؟ کئی تجزیہ نگاروں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا، حتٰی کہ متنبہ بھی کیا جاتا رہا کہ عمران خان کا یہ انداز ایک دن انکے لیے خود مصیبت بن جائے گا اور کل شاید اِسی انداز کا جواب دیکھا گیا کہ مخالفین کو اس صورتحال میں ڈالنے کا کریڈٹ لینے والے عمران خان خود مشکل میں نظر آئے۔

اچھا تو یہ ہوتا کہ جس طرح 126 دن انہوں نے بپھرے ہوئے انداز میں احتجاج ریکارڈ کروایا اسی طرح خود کے خلاف ہونے والے احتجاج کو بھی قبول کرتے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ آپ کو کبھی احتجاج کا سامنا ہو ہی نہیں سکتا ورنہ اس پر بھی آپ کچھ کام کرتے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑے گا کہ نئے پاکستان میں شاید احتجاج کا جواب انہیں روائتی طریقوں سے دیا جائے گا جس میں پولیس کے دھکے، حکام کی مبینہ گالم گلوچ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

دوسرا یہ کہ آپ خود کو انقلابی لیڈر قرار دے چکے ہیں۔ آپ نے متعدد بار انقلاب زدہ نئے پاکستان کا جو نقشہ عوام کے سامنے کھینچا ہے۔ آپ کا دورہ پشاور اس کی مکمل نفی کرتا ہوا نظر آیا۔

آپ ڈیڑھ درجن گاڑیوں کے پروٹوکول میں تشریف لائے۔ پولیس کے درجنوں اہلکارعالی جاہ کی راہ میں رکاوٹ بننے والے احتجاجیوں کو دفع دور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے ۔ جناب ! آپ نے ہمیں یہ سب تو نہیں بتایا تھا؟ آپ نے تو ہمیں بتایا تھا کہ نیا پاکستان پروٹوکول کلچرسے پاک ہوگا، وہاں سادگی کا دوردورہ ہوگا، عوام اورحکمران میں فاصلہ نہیں ہوگا؟ مگر افسوس کہ پرانے پاکستان اور نئے پاکستان میں شاید کوئی فرق نہیں ہوگا۔

تیسرا یہ کہ اپنی تقریروں میں زبان کو پھسلنے نہ دیں۔ آپ اپنےبارے میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ آپ جس کام کو کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو پھر پیچھے نہیں ہٹتے۔ لیکن شاید آپ یہ بھول گئے کہ کہنا جتنا آسان ہوتا ہے اُس پر عمل کرنا اُتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ اور اب خدشہ بھی یہی ہے کہ شاید آپ اپنے کہے پرعمل نہ کر پائیں۔ آپ نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر کئی بار کہا کہ اگر مجھے 'گوعمران گو' کہہ دیا جاتا تو میں چپ کرکے چلا جاتا۔ تو جناب اب یہ کہہ دیا گیا ہے اور اِس بار یہاں کسی گلو بٹ کا ہاتھ نہیں کہ یہ واقعہ تو آپ کے اپنے صوبے میں ہوا ہے۔ کیا آپ اب جائیں گے؟ امید تو یہی ہے کہ پرانے پاکستان کا فارمولہ استعمال کرتے ہوئے اس پر کان نہیں دھریں۔ افسوس کہ نئے پاکستان میں پہلے کی طرح کہا کچھ اور کیا کچھ جائے گا۔

چوتھا یہ کہ شہید طلباء کےوالدین کے احتجاج کے بعد آپ کی پارٹی کی حکومت کے نمائندوں نے اسے سیاسی سازش قرار دے دیا۔ ہمارے لیے تو یہ ہرگز نئی بات نہیں کہ پرانے پاکستان میں بھی حکومت اپنے خلاف ہونے والے تمام احتجاجوں کو سازش قرار دیتی تھی۔ لیکن اب تو نئے پاکستان میں بھی احتجاج کرنے والے سازشی بنا دیئے گئے اور پھر سب سے آخر میں آپ نے پریس کانفرنس کے دوران جس معصومیت کے ساتھ کہا کہ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ میرے خلاف احتجاج کیوں ہورہا ہے۔ بالکل اسی طرح جب آپ حکومت کے احتجاج کرتے تھے تو حکومت معصوم سا منہ نکال کر یہی پوچھتی تھی کہ ان کے خلاف احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟ افسوس کہ نئے پاکستان میں بھی احتجاج سے لاتعلقی کا اظہار اسی معصومیت سے کیا جارہا ہے۔

آخر میں بس یہی کہنا ہے کہ افسوس کہ خان صاحب، آپ بھی مجھے پرانے لگے !!

 


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں.

مقبول خبریں