عارف عزیز

  • کوچۂ سخن

    میں تازہ خون کی بڑھتی طلب سے واقف ہوں  نگارِ شوق ترے چشم و لب سے واقف ہوں

  • کوچۂ سخن

    اوڑھے ہوئے ہے آج جو گردو غبار شخص ہوتا تھا اپنی ذات میں باغ و بہار شخص 

  • کوچۂ سخن

    چلنے لگیں پھر سرد ہوائیں  ہم دل کو اب کیا سمجھائیں 

  • کوچۂ سخن

    آتے جاتے سلام کرتے ہیں  اس کا جینا حرام کرتے ہیں 

  • کوچۂ سخن

    جہاں سے بات چلی تھی وہاں تک آیا ہوں  مرا نہیں ہوں میں اپنے مکاں تک آیا ہوں 

  • کوچۂ سخن

    دام میں حسنِ جنوں خیز کے آئے ہوئے لوگ مسکراتے رہیں اشکوں میں نہائے ہوئے لوگ

  • کوچۂ سخن

    اک سراب ِآرزو، دلدار سا تھا سامنے زہر میں ڈوبا وہ خنجر، پیار سا تھا سامنے

  • کوچۂ سخن

    کچھ بھی دنیا میں کہاں دوستو، حسرت سے ملا عیش تو عیش مجھے رنج بھی محنت سے ملا

  • کوچۂ سخن

    بھلے مثبت ہویا منفی کبھی اچھی نہیں ہوتی فراوانی کسی بھی چیز کی اچھی نہیں ہوتی

  • کوچۂ سخن

    سرسری خواب کی تکمیل اٹھا لائے ہیں  دشت والے ہیں مگر نیل اٹھا لائے ہیں