کراچی کی سیاست میں ہلچل

فرح ناز  ہفتہ 18 نومبر 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

ایک دفعہ پھر کراچی کی سیاست پورے پاکستان میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے، کیونکہ کراچی کے حالات پورے ملک کو متاثر کرتے ہیں۔ 2013 سے رینجرز نے دھیرے دھیرے جس طرح کراچی کا امن واپس کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم بلاشرکت غیرے کراچی و حیدر آباد پر حکومت کرتی رہی ہے اور یہاں تک اس کا بول بالا رہا کہ جب چاہا اس نے شہر کراچی کو منٹوں میں بند کروادیا۔

وہی لاجواب ایم کیو ایم آج اندرونی اور بیرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتی ہے 22 اگست 2016 میں الطاف حسین کی نفرت انگیز تقریر کے بعد رینجرز نے سخت ایکشن لیا اور اس وقت کے ڈی جی رینجرز جنرل بلال اکبر کی ہدایت پر اس تقریر میں موجود اور اس تقریر کے بعد ٹی وی چینلز پر حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا۔ فاروق ستار بھی گرفتار ہوئے اور پوری رات رینجرز کے حوالے رہے، دوسرے دن رہا ہونے کے بعد انھوں نے ایک پریس کانفرنس کی اور ایم کیو ایم پاکستان کا وجود لے کر آئے۔

ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا کیونکہ نائن زیرو اور دیگر دفاتر سیل کردیے گئے لہٰذا فاروق ستار نے پی آئی بی کالونی میں واقع اپنے گھر سے تمام پارٹی معاملات چلانے کا بھی عندیہ دیا گویا اس طرح 23 اگست 2016 سے ایم کیو ایم پاکستان وجود میں آگئی جس میں بقول فاروق ستار کے الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور آج کی تاریخ تک ان کا یہی کہنا ہے، پی ایس پی مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی سربراہی میں وجود میں آئی یہ بھی 13 مارچ2016 کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے ہونے کا اعلان کرتے ہیں دونوں حضرات دبئی سے تشریف لاتے ہیں اور سخت ترین الفاظ میں الطاف حسین کو ’’را‘‘ کا ایجنٹ، قاتل، ملک دشمن کے الزامات لگاتے ہیں جوکہ بعد میں رینجرز آپریشن پر ثابت بھی ہوتے ہیں، اب پی ایس پی اپنے آپ کو الیکشن سیل میں رجسٹرڈ بھی کرواچکی ہے۔

پرانی ایم کیو ایم سے کئی ایم این اے، ایم پی اے نے پی ایس پی جوائن کی، رضاہارون، انیس ایڈووکیٹ، ڈاکٹر صغیر، افتخار عالم، وسیم آفتاب، اشفاق منگی اور حال ہی میں ڈپٹی میئر ارشد وہرہ صاحب نے بھی ایم کیو ایم پر کرپشن کے الزامات لگائے اور مصطفیٰ کمال کے ساتھ جا ملے۔ وسیم اختر بحیثیت میئر کراچی بار بار اپنی ناکامی کا اعتراف کرچکے ہیں۔ پی ایس پی کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس جماعت کو ان دیکھی قوتیں سپورٹ کر رہی ہیں۔ اور ایم کیو ایم نے اس کو ’’لانڈری‘‘ کا نام بھی دیا جو افراد اور ایم این اے، ایم پی اے ہمارے پاس گندے ہیں وہ پی ایس پی میں جاکر اچھے کیسے ہوجاتے ہیں؟

مصطفیٰ کمال شروع دن سے ابھی تک ایک agressive اور ناراض پارٹی چیئرمین نظر آتے ہیں جو ایم کیو ایم کے سخت خلاف ہیں۔ وہ تشدد کے خلاف ہیں، وہ ملک سے غداری کے خلاف ہیں، وہ الطاف حسین کے خلاف ہیں وہ کرپشن کے خلاف ہیں، وہ اور ان کی پارٹی کے تمام ممبرز ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں، انیس قائم خانی پی ایس پی کے صدر ہیں اور افہام و تفہیم سے بات کرنے پر زور دیتے ہیں، انیس قائم خانی کا کہنا ہے کہ گندگی کو دھونے میں اور اس کے اچھا ہونے میں کوئی حرج نہیں پی ایس پی اگر گندے افراد کو اچھا بنا رہی ہے تو کیا حرج ہے۔

ایم کیو ایم ایک نظریاتی پارٹی ہے جو 1978 سے اپنا وجود رکھتی ہے، کہتے ہیں کہ اس پارٹی کو بنانے میں مرحوم جنرل ضیا الحق کی مرضی شامل تھی ۔ مہاجر قومی موومنٹ نے مہاجروں کے حقوق کی بات کی، کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی بات کی اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی و حیدرآباد کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ آفاق احمد، عامر خان، سلیم شہزاد، عظیم طارق، ڈاکٹر عمران فاروق، فاروق ستار اور بہت سے ایسے نام جو اب الگ الگ نظر آتے ہیں پہلے الطاف حسین کے سائے تلے رہے۔

اچانک عامر خان اور آفاق احمد بغاوت کرتے ہیں اور الطاف حسین کے خلاف نعرہ بلند کرتے ہیں اور ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے ایک پارٹی بناتے ہیں۔ دو پارٹیوں کے چاہنے والے آمنے سامنے آتے ہیں خون خرابہ ہوتا ہے اور کئی سالوں تک کئی ہزار مہاجر جماعت کے نام پر بننے والی جماعتوں کے ہزاروں لڑکے قتل ہوجاتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار کئی سالوں تک گرم رہتا ہے۔کراچی بوری بند لاشوں کا شہر کہلاتا ہے۔

92 کے آپریشن نے بھی ایم کیو ایم کے خلاف بہت سا مواد اکٹھا کر کے ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا اور یہ جماعت شدید ترین بحران کا شکار ہوگئی، بہت سے سرکردہ افراد ملک سے باہر چلے گئے 500 کے قریب دہشت گرد لڑکے پکڑ کر جیلوں میں بند کیے گئے۔ یونٹ اور سیکٹرز کو مکمل بند کردیا گیا اور ایک سخت ترین آپریشن کیا گیا، انڈین فنڈنگ، ’’را‘‘ سے تعلقات 92 میں بھی زیر بحث رہے۔

بہرحال الطاف حسین لندن کے ہوکر رہ گئے اور ایک مہاجر کے نام پر بنائی جانے والی پارٹی لندن سے چلائی جانے لگی۔ لندن سیکریٹریٹ اور 90 کراچی پھر متحد ہوکر متحدہ قومی موومنٹ کے پرچم تلے کام کرنے لگے۔ زبردست بات یہ ہے کہ نہ کوٹہ سسٹم ختم ہوا اور نہ مہاجروں کو حقوق ملے بلکہ کئی ہزاروں مہاجر گھر اجڑ ضرور گئے۔ مڈل کلاس کی جماعت اسمبلیوں میں آئی اور پھر ان کے رابطہ کمیٹی کے ارکان کے دن ہی پھر گئے۔

غریب گھرانوں سے آنے والے ایسے ارب پتی ہوئے کہ اب لینڈ کروزر سے کم کی بات ہی نہیں ہوتی اور کراچی آج بھی صاف پانی، بجلی، صفائی سے محروم، کوئی ایسے تعلیمی ادارے نہیں جو اس جماعت نے بنائے، کوئی ایسے لاجواب اسپتال نہیں جو اس جماعت نے مہاجروں کے لیے بنائے، کوئی ایسے اسکلز انسٹیٹیوٹ نہیں جو اس جماعت نے اپنے مہاجر بچوں کے لیے بنائے، کوئی بھی ایسے خواتین کے گرومنگ کے ادارے نہیں جو اس جماعت نے مہاجر نام کی عورت کو سیکولر کرنے کے لیے بنائے۔ ہاں قتل و غارت گری، بھتہ اور دل کو ہلا دینے والی بلدیہ فیکٹری میں آگ اور تقریباً 300 لوگوں کو زندہ جلانے کا ایسا داغ تاحیات زندہ رہے گا جس کو کوئی بھی لانڈری نہیں دھو سکتی۔

مصطفیٰ کمال کو بھی الطاف حسین نے چنا اور ان کو کراچی کا میئر بنایا اور مصطفیٰ کمال نے بھی اپنے چناؤ کو بہترین انتخاب ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ان کے کہنے کے مطابق جب حقیقت ان پر آشکار ہوئی اور ان کی آنکھیں کھلیں اور دبئی میں ایم کیو ایم کی میٹنگز میں موجودگی اور تلخ حقائق نے انھیں اس جماعت سے الگ ہونے پر مجبور کیا۔ وہ چپ چاپ امریکا چلے گئے اور پھر دبئی نوکری کرتے رہے، انیس قائم خانی نے بھی انھیں دبئی میں جوائن کرلیا اور دونوں نے واپس آکر عدم تشدد پر مبنی جماعت پی ایس پی بنائی، جب کہ ایم کیو ایم پاکستان آج بھی فاروق ستار کی سربراہی میں الطاف حسین سے لاتعلقی تو ظاہر کرتے ہیں مگر ان کو صاف الفاظ میں غدار پاکستان کہنے کو تیار نہیں۔کیونکہ فاروق ستار پرانی ایم کیو ایم کے نئے نام کے ساتھ سربراہ ہیں اس لیے ان کی اپنی ہی پارٹی کے لوگ ان کی سربراہی کو قبول نہیں کر پا رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی 8-6 مہینے سے جاری ملاقاتوں کے نتیجے میں جو ایک پریس کانفرنس ہوئی، وہ چند گھنٹوں کے بعد ہی سبوتاژ ہوگئی۔

کراچی کا ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے تو دونوں رہنماؤں کو تحمل اور سمجھداری سے بات آگے بڑھانی ہوگی، فاروق ستار کی چیخ و پکار کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی ان کی سپورٹ کے لیے آگے آئی ہیں اور اپنی بھرپور سپورٹ کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے سربراہان کس سمجھداری سے عدم تشدد کی سیاست سے عوام میں اپنی جڑیں دوبارہ مضبوط کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔