نظریاتی شناخت

عبدالقادر حسن  منگل 16 جنوری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

جنرل الیکشن کی آمد کا اعلان سیاسی پارٹیوں کے جلسوں کی صورت میں ہو چکا ہے، حکومتی اور اپوزیشن پارٹیاں اپنے ابتدائی جلسوں میں صرف اپنے کارکنوںکو متحرک کرتے ہی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ ابھی تک کسی بھی پارٹی نے آیندہ الیکشن کے لیے اپنی پارٹی کے منشور کا اعلان نہیں کیااور نہ ہی حکومتی پارٹی نے اپنے سابقہ منشور کو پورا کرنے کے بارے میں ابھی تک کوئی دعویٰ کیا ہے سوائے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔

جس کے بارے میں شکوک و شبہات ہی پائے جا رہے ہیں کیونکہ حقیقی صورتحال کچھ مختلف ہے، بہر حال اس کے بارے میںاصل پتہ تو آیندہ گرمیوںمیں چلے گا جب گرمی بھی ہو گی الیکشن کی مہم بھی چل رہی ہو گی اور حکومت عوام کے روبرو ہو گی اس لیے بجلی کے متعلق تبصرے کو فی الحال چند ماہ کے لیے موخر کرتے ہیں اور ذکر ان سیاسی کارکنوں کا جن کے دم قدم سے سیاست کی رونقیں ہیں اور جن کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کے دفاتر آباد رہتے ہیں ۔سیاسی لیڈروں ار سیاسی کارکنوں سے میرا عمر بھر کا رابطہ رہاہے، اچھے وقتوں میں سیاسی کارکنوںکی ایک بڑی تعداد ہوا کرتی تھی، وہ مالی قربانیوں کے علاوہ جانی قربانیاں بھی دیا کرتے تھے، اپنے لہو کی گرمائش سے سیاست کے بازار میں گرمی کو برقرار رکھتے تھے۔

سیاست کی چمک دمک اور رنگینی ان کے ہی دم سے قائم تھی لیکن یہ اس زمانے کی بات ہے جب سیاست وڈیروں کے عمل دخل میں تھی اور سیاست وڈیرہ شاہی کا ہی دوسرا نام سمجھی جاتی تھی۔ سیاسی لیڈر صرف وڈیرے ہوا کرتے تھے جن کی نظر میں سیاسی کارکنوں کا درجہ ان کے مزارعین سے ذرا بڑا ہوا کرتا تھالیکن سیاسی کارکن کسی ستائش سے بے نیاز ہو کر لیڈر اور جماعت سے سیاسی نظریاتی وابستگی قائم رکھا کرتے تھے ۔ان لیڈروں کی سیاست انھی سیاسی کارکنوں کی مرہون منت رہتی اور سیاستدان اپنے کارکنوں کی وجہ سے زندہ رہتے۔ ملک میں سیاست کا عرصہ اتنا نہیں رہا جتنا عرصہ فوج نے اس ملک پر حکمرانی کی جس کو سیاسی کار کنوں کی نہیں ان کے لیڈروں کی ضرورت رہتی تھی۔ غیر سیاسی ماحول میں سیاسی کارکن مرجھا جاتے ہیں کیونکہ ان کے لیڈر یا تو فوج کی بیعت کر لیتے ہیں یا پھر سیاست سے عارضی کنارہ کشی اختیارکر لیتے ہیں ۔

مجھے یاد ہے ایوب خان کے زمانے میں کئی سیاسی لیڈر سیاست چھوڑ گئے یا ان سے چھڑوا دی گئی اور ان مستند لیڈروں اور کارکنوں کی جگہ سرکاری مراعات کے طالب آگئے اور ان اصلی سیاستدانوں کا خلاء پُر کرنے کی کوشش کی لیکن لیڈر اور کارکن کے لیے عوام کے دلوں میںجو احترام ہوا کرتا تھا وہ انھیں نصیب نہ ہوسکا۔ بددل سیاسی کارکنوں کو دیکھ کریوں لگتا تھا کہ یہ جنس اب نایاب ہو جائے گی لیکن لاہور میں حالات کا شکوہ کرتے ہوئے کچھ کارکن دکھائی دیتے تھے جن میں خواجہ رفیق اور حکیم اللہ دتہ جیسے کارکن بھی شامل تھے، خواجہ صاحب نے تو اسی سیاسی جدو جہد میں اپنی جان بھی پیش کر دی۔

ایوب خان کے آخری دور میں قومی سیاست میں بھٹو نے ہل چل مچا دی اور اپنی ذہانت اور اس سے کہیں زیادہ اپنی محنت سے مردہ سیاست کو زندہ کر دیا۔ اس زمانے میں نئے سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے ارد گرد اکٹھے ہو گئی، ان کے دور میں سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی کھیپ قومی سیاست میں شامل ہوئی، ان کارکنوں نے بھٹو کی شعبدہ بازیوں کے جال میں آکر سیاست کے میدان میں ہل چل مچا دی اور جیالے کہلائے۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ان جیالے کارکنوں میں سے کئی ایک وزیر اور پھر رئیس بھی بن گئے لیکن اس کے باوجود اتنی تعداد بچ گئی کہ پیپلز پارٹی اور اس کا جیالا آج بھی جیئے بھٹو کا نعرہ لگانے کے لیے زندہ ہے۔گزشتہ الیکشن میں پارٹی قیادت کی مبینہ کرپشن کی وجہ سے پارٹی اور جیالے کارکنوںمیں ناراضی ہوگئی تو پنجاب جہاں سے پیپلز پارٹی نے جنم لیا تھا اس کا صفایا ہوگیا۔یہ صوبہ کبھی پارٹی کا مرکز ہوا کرتا تھا، کوئی بھی سیاسی جماعت ہو اس کی اصل طاقت کارکن ہوتے ہیں۔

بدقسمت ہیں وہ لیڈر جو کارکنوں کی قدر نہیں کرتے۔نظریاتی کارکن اپنی پارٹی کے ساتھ اس قدر وابستہ ہوجاتے ہیں کہ لیڈر تو بعض اوقات پارٹی بدل لیتے ہیں مگر یہ کارکن اپنی پارٹی سے جڑے رہتے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ کے پاس کارکنوں کی ایک بڑی تعدا ہو اکرتی تھی جو مسلم لیگوں کی کئی گروپوں میں تقسیم کے باوجود لیگی کہلاتی تھی جب مسلم لیگ نواز وجود میں آئی تو یہ کارکن لیگی سے زیادہ متوالے کہلانے لگے ۔

مسلم لیگوں کی گروپوں میں بٹنے کے بعد یہ سیاسی کارکن ادھر ادھر لڑھکتے رہے ،کبھی ایک لیگی گروہ کے لیڈروں کے پیچھے تو کبھی دوسرے گروپ کے پیچھے۔ مسلم لیگ میں ایک خرابی یہ رہی کہ یہ اپنے سیاسی کارکنوں کو اس طرح سنبھال نہیں سکی جس طرح پیپلز پارٹی اپنے جیالوں کی قدر کرتی تھی۔ سیاسی میدان میں نئی سیاسی جماعت تحریک انصاف نے سر اُٹھایاتو سیاسی کارکنوں کی ایک نئی کھیپ نوجوان کارکنوں کی صورت میں اس کو میسر آگئی جس نے پرانے وقتوں کے جیالوں کی یاد تازہ کرادی۔ یہ نوجوان کارکن اپنے ’نوجوان‘ لیڈر کی سیاسی غلطیوں کے خلاف الزامات کا جواب دیتے نظر آئے ہیں اور مر مٹنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں لیکن ان کی ابھی سیاسی تربیت نہیں ہو سکی اور یہ کارکن نظریاتی سے جذباتی زیادہ ہیں۔

ان کی سیاسی پختگی میں ابھی دیر لگے گی۔ بہر کیف انھی سیاسی کارکنوں کے دم قدم سے رونقیں لگی رہتی ہیں، وہ ہر طرح کے حالات میں اپنی اپنی پارٹیوں کو زندہ رکھتے ہیں، ایک اصلی سیاسی کارکن کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو نہیں چھوڑتا اور اسے اپنی زندگی بنا لیتا ہے یہاں تک کہ وہ اسی پارٹی کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اپنی پارٹی کے لیے ہر قربانی پر آمادہ رہتا ہے ۔یہ پارٹی اس کے ایمان کا حصہ بن جاتی ہے ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پارٹیاں نظریاتی ہوا کرتی تھیں اور ان نظریات کے لیے ہر قربانی پر تیار رہتی تھیںبلکہ اس نظریاتی وابستگی کو وہ فخر سمجھتی تھیں، وہ اپنی اس شناخت کو اپنے سیاسی عمل کی طرح اپنی زندگی سمجھتی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔