غسان کنفانی عربی زبان کا عظیم کہانی کار

جس کے قلم کو خاموش کرانے کے لیے موساد کو بم دھماکے کا سہارا لینا پڑا۔


حسن ہمدانی February 04, 2018
غسان اپنی بہن فائزہ سے بہت محبت کرتا تھا اور ہمیشہ اپنی کامیابیوں میں اس کی ہمت افزائی کو اہم قرار دیتا تھا۔ فوٹو : فائل

8 جولائی 1972ء کی صبح وہ اپنی سترہ برس کی بھانجی لمیس نجم کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھا، جیسے ہی اس نے کار سٹارٹ کی ایک زوردار دھماکہ ہوا، موساد کا فٹ کیا ہوا پلاسٹک بم پھٹا اورعربی زبان کا عظیم کہانی کار، صحافی، قائد، مزاحمت کار، مصور اورعاشق غسان کنفانی اپنی بھانجی کے ہمراہ ایک پرشور انداز میں اپنی ہی دھج کے ساتھ جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔

اگر آج وہ زندہ ہوتا تو 81 برس کا ہوتا۔ مگر کیا وہ واقعتاً مر ہی گیا؟ آئیے ذرا دیکھتے ہیں۔ غسان فائز کنفانی8 اپریل1936ء کو فلسطین کے شہر عکّا میں ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے والد فائز عبدالرزاق کنفانی ایک وکیل تھے۔ فائز شروع سے ہی سیاسی طور پر متحرک شخص تھے اور انھیں با قاعدگی سے ڈائری لکھنے کی عادت تھی۔ وہ کبھی کبھی سارے گھر والوں کو اکٹھا کر کے اپنی زندگی کے اہم واقعات کی روداد اس ڈائری میں سے پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔

کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی جدّوجہد اور لفظ کی تاثیر کے حوالے سے غسان کی ابتدائی تربیت اس طرح ہوئی۔ اس کی عمر 12 برس تھی جب اسرائیل کا قیام ہوا اور بپھرے ہوئے یہودی قابضین نے اردگرد کی عرب آبادیوں پر حملے کر کے پہلے ہی روز اپنی توسیعی کارروائیاں شروع کر دیں۔

فلسطینی اسرائیل کے قیام کو ''النکبہ'' (رسوائی)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں کے بعد اس نے اپنے بیٹے کے نام لکھے ہوئے خط میں ان دنوں کو بہت یاد کیا۔ اس کے الفاظ میں: ''میں رسوائی کو اپنے دل کے اندر اترتے ہوئے محسوس کرتا تھا، ہر روز میراکوئی نہ کوئی جاننے والااپنے ہتھیار ان قابضین کے حوالے کر کے ان سے اپنی جان کی امان حاصل کر کے فلسطین سے فرار اختیار کرتا اور مجھے لگتا جیسے میری عزّت کی ایک اور دھجی بکھر گئی ہے۔''

جب اپریل 1948ء میں عکّا پر باضابطہ اسرائیلی حملہ ہوا تو آخرِکار غسان کے خاندان کو بھی جان بچا کر بھاگنا پڑا، وہ پہلے پہل لبنان کے تاریخی شہر صیدا میں مقیم ہوئے، وہاں سے غازیہ، حلب اور زبدانی سے ہوتے ہوئے پھر دمشق (شام) میں رہائش پذیر ہوئے۔

اس کے والد نے ہجرت سے ذرا ہی پہلے اپنی زندگی بھر کی بچت فلسطین میں نئے گھر کی تعمیر میں لگا دی تھی (جس کی تکمیل سے پہلے ہی انھیں وہاں سے نکلنا پڑا)۔ چنانچہ جب وہ دمشق پہنچے تو چند صلاحیتوں، کچھ احساس شکست، بے تحاشا غم اور معمولی سی نقدی کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ غسان نے جو عرصہ خیمہ بستیوں میں اور اس کے بعد انتہائی فقر کے عالم میں گزارا وہ اسے کبھی نہیں بھولا۔ اس نے اپنے خاندان کی آمدنی میں اضافے کے لیے کم عمری میں ہی لفافے بنانے اور عدالتوں کے باہر عرضی نویسی سے لے کر ریڈیو کے پروگراموں، اخبار میں پروف ریڈنگ اور نیوز ایڈیٹنگ جیسے کئی کام شروع کر دیے تھے۔ صحافت کا پیشہ تو اسے بہت راس آیا، چنانچہ آئندہ زندگی میں اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح صحافت سے ہمیشہ جڑا رہا۔

1952ء میں جب اسے سکول سے فراغت کا سرٹیفکیٹ ملا تو وہ فلسطینی مہاجرین کی خیمہ بستیوں میں واقع اقوامِ متحدہ کے ایک سکول میں ڈرائنگ ماسٹر کے طور پر بھرتی ہو گئے۔ یہیں پر اس نے سہمے ہوئے دربدر فلسطینی بچوں کی زندگی کو کسی قدر آسان کرنے کے لیے انھیں باقاعدگی سے اپنی گھڑی ہوئی کہانیاں سنانا شروع کیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے سکول میں تقریباً 1200 طالب علم پڑھتے تھے اور اس کے فیض تعلیم کا اثر یہ تھا کہ ان میں سے ستر فیصد طالب علموں نے بڑے ہو کر مزاحمت کے راستے کو اختیار کیا۔

یہی وہ زمانہ ہے جب اس کی ملاقات عرب قوم پرستی کے فلسفے کے اولین بنیاد کاروں میں سے ایک ''جارج حبش'' سے ہوئی اور اس کے افکار سے متاثر ہو کر غسان نے اس کی جماعت ''حرکۃ القومیین العرب'' )موومنٹ آف دا عرب نیشنلسٹس (M.A.N. میں شمولیت اختیار کر لی۔ انھی دنوں اس نے دمشق یونیورسٹی کے شعبہ عربی ادب میں داخلہ لیا اور ''العرق والدیانۃ فی الأدب الصہیونی'' (صہیونی ادب میں نسل پرستی اور مذہبیت کا مطالعہ) کے عنوان پر مقالہ لکھ کر اپنی ڈگری مکمل کی۔1956ء میں وہ ایک سرکاری سکول میں مصوری کے استاد کے طور پر بھرتی ہوکر کویت چلا گیا، جہاں اس کی بہن فائزہ اور ایک بھائی پہلے سے رہائش پذیر تھے۔

غسان اپنی بہن فائزہ سے بہت محبت کرتا تھا اور ہمیشہ اپنی کامیابیوں میں اس کی ہمت افزائی کو اہم قرار دیتا تھا۔ 1957ء میں جب غسان نے پہلی بار ایک بین الاقوامی اخبار ''الرائی'' (رائے)کی ادارت سنبھالی تو اس کی عمر صرف21 برس تھی۔ 1960ء میں وہ بیروت آگیا اور M.A.Nکے ترجمان ہفت روزہ ''الحرّیۃ'' (آزادی) کی ادبی ادارت کے فرائض سنبھال لیے۔ 1963ء میں وہ ''المحرّر'' کا مدیرِ اعلیٰ بن گیا۔ وہ مختلف اوقات میں ''الانوار'' اور ''الحوادث'' کی ادارت اور کالم نگاری کے فرائض بھی سر انجام دیتا رہا۔

بحیثیت مزاحمت کار وہ ایک عجیب انقلابی تھا جس نے کبھی ایک گولی بھی نہیں چلائی، بلکہ اس کا اسلحہ اس کا قلم تھا اور اس کا میدانِ جنگ اس کے اخبار کا دفتر۔ شروع شروع میں وہ قوم پرست سیاست پر یقین رکھتا تھا، چنانچہ جمال عبد الناصر کے فلسفۂ متحدہ عرب قومیت میں اس نے خاصی کشش محسوس کی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے خیالات کا ارتقا ہوتا گیا اور وہ عرب قومیت اور ناصرازم سے ہوتا ہوا پکا مارکسی لیننسٹ بن گیا۔ اس کے دوست اور سیاسی مرشد جارج حبش نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ''الجبھۃ الشعبیۃ لتحریر فلسطین'' )عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین(PFLP کا ڈول ڈالا تو اسے اس نئی تنظیم کا ترجمان اور سیکرٹری انفارمیشن مقرر کیا گیا۔ تبھی اس نے الہدف نامی روزنامہ اخبار کا اجرا کیا اور موت تک اس کا مدیرِ اعلیٰ رہا۔

غسان نے PFLPکے ترجمان کی حیثیت سے1968ء میں آسٹریلوی صحافی رچرڈ کارلٹن کوجو انٹرویو دیا اس کی چند منٹ کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے۔ انٹرویو اس کے شہرہ آفاق داستانی نوعیت کے دفتر میں دیا گیا تھا، دیواروں پر فلسطین کے بڑے سے نقشوں کے پہلو میں ماؤ، کارل مارکس، لینن اور ہوچی منھ کی تصویریں لگی ہوئی ہیں، نیچے جمال عبد الناصر کی ایک تصویر بھی ہے مگر سب سے بڑا پوسٹر چی گویرا کی تصویر کا ہے۔ جب انٹرویو کرنے والے نے پوچھا کہ آپ مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ غسان نے پوچھا، کس کے ساتھ مذاکرات؟ رچرڈ کارلٹن نے کہا اسرائیل کے ساتھ، غسان بے ساختہ بولا: یعنی آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ گردن اب تلوار سے مکالمہ کرے؟

اس کی زندگی کے آخری برسوں میں اس کی سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں۔ اس کی تنظیم PFLPکے کارپرداز نئے نئے کمیونسٹوں والے نشہ انقلاب کی ترنگ میں اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسطینی مزاحمت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک پڑوس کے ملکوں میں مارکسزم کا راج قائم نہیں ہو جاتا، اس لیے انھوں نے پڑوسی عرب حکومتوں (بالخصوص اردن کے شاہ حسین کی حکومت) کو ری ایکشنری اور سامراجی اتحادی قرار دے کر ان کے خلاف مسلّح جدّوجہد شروع کر دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عالم عرب میں فلسطینی مزاحمت کے ہمدرد کم اور مخالف زیادہ ہونے لگے۔ اپنے موقف کی وضاحت اور اسے عرب و غیر عرب سامعین کے لیے معقول بنانے کا سارا بوجھ اکیلے غسان کے کاندھوں پر آ پڑا تھا۔ چنانچہ آخری تین برسوں میں وہ کچھ زیادہ ادبی تخلیقات مرتب طور پر شائع نہیں کرا سکا۔

غسان کی زندگی کا ایک بہت دلچسپ پہلو شامی ادیبہ غادۃ السمان کے ساتھ اس کا افلاطونی قسم کا شدید والہانہ عشق ہے۔ غسان اس وقت کینیڈین نژاد خاتون این (Anne)کے ساتھ شادی کے بندھن میں بیروت میں قیام پذیر تھا اور غادۃ لندن میں مقیم تھی، غسان نے غادۃ کے نام جو خطوط لکھے ان کا مجموعہ 1992ء میں شائع ہوا، وہ ایک الگ ہی دنیا ہے۔ روشنیوں کا شہر اور مشرقِ وسطیٰ کا قلب، بیروت، غسان کا پسندیدہ شہر تھا۔

غسان نے اپنی باقی ماندہ زندگی (زیرِ زمین روپوشی اور چند بیرونی دوروں کے سوا) اسی شہر میں گزاری اور یہیں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے قاتلانہ حملے میں اس نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی۔ لمیس اس کی پسندیدہ بھانجی تھی، وہ ہر برس اس کی سالگرہ پر بطور خاص اس کے لیے اس کی عمر کے مطابق کہانیاں لکھ کر تحفے کے طور پر پیش کرتا تھا۔ اس کے قتل کے روز لمیس اس کے ساتھ تھی اور پھر وہ دونوں اگلی دنیا کے سفر پر بھی ساتھ ساتھ ہی چلے گئے۔

غسان کنفانی 36 برس کی عمر میں جب اس دنیا سے گیا تو اس کے کریڈٹ پر چھ ناول، پانچ افسانوی مجموعے، تین ڈرامے اور تین تحقیقی مقالے مطبوعہ شکل میں موجود تھے۔ اس کی سیاسی سرگرمیاں، اخباروں کی ادارت، کالم نگاری، مصوری و پوسٹر سازی اس کے علاوہ ہیں۔ اس کے مسودات میں سے ملنے والی کل تصنیفات جو اب تک چھپ چکی ہیں ان کی تعداد28 تک جا پہنچی ہے۔ غسان اتنا کثیر الجہات اور زندگی سے بھرپور تھا کہ لگتا ہے وہ اس تھوڑی سی مہلت میں بہت سارے کام کر گزرنا چاہتا تھا۔ اس کے دوست اور ماضی قریب میں عربی زبان کے عظیم شاعر محمود درویش نے اس کی یاد میں جو مضمون لکھا اس کا عنوان تھا: ''محاولۃ رثاء برکان'' (ایک آتش فشاں کا مرثیہ لکھنے کی کوشش)۔

غسان کی یاد میں ایک ایوارڈ کا اجرا کیا گیا ہے جو ہر برس عربی زبان میں فکشن کی سب سے اچھی کتاب کودیا جاتا ہے۔ اس کے چاہنے والوں نے غسان کنفانی فاؤنڈیشن کے نام سے ایک تعلیمی این جی اوقائم کر رکھی ہے جو مہاجرین کے بچوں کے لیے تقریباً 150 سے زائد سکولوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ انٹرنیٹ پر ایک ایسے سکول کی تصویر بھی موجود ہے جس کے لوگو میں قرآن مجید بنا ہوا ہے اور نیچے سکول کا نام لکھا ہے: ''مدرسۃ الشہید غسان کنفانی الإسلامیۃ'' شہید غسان کنفانی اسلامی سکول۔ وہ غسان جو عیسائی بھی تھا اور کمیونسٹ بھی اپنی زندگی کی بے محابا قربانی کے ذریعے مذہبوں اور ادیان سے معرا محبوبیت حاصل کر چکا ہے۔

ادبی خدمات پر ایک نظر
عربی ادب تشبیہات سے ہمیشہ لدا پھندا ہوتا ہے، غسان کے ہاں بھی تشبیہات کی کثرت ہے۔ اس کی تشبیہات اچھوتی ہونے کے ساتھ ساتھ معنی خیز بھی ہوتی ہیں، مگر وہ اصل میں تکنیک کا بادشاہ ہے۔ اس کے افسانے ایسے استادانہ انداز میں کرافٹ ہوتے ہیں کہ انسان مبہوت رہ جاتا ہے۔ منٹو جو شاید اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے، اگر آپ کو یاد ہو کہ آپ نے جب پہلی بار اس کے کسی شاندار افسانے کوپڑھا تھا تو آپ کی کیا حالت ہوئی تھی، یقیناً جب افسانہ ختم ہوا ہو گا تو کچھ لمحوں کے لیے آپ مفلوج سے ہو کر رہ گئے ہوں گے، کسی زیادہ پرتاثیر افسانے کی قرات کے بعد شاید آپ کو ذرا پسینہ بھی آ گیا ہو۔



منٹو کی شدّتِ تاثیر عام طور پر اس کے افسانوں کے اختتام پر ظاہر ہوتی ہے، یوں لگتا ہے جیسے تاثرات کا ایک ریلا کسی بند کے پیچھے چھپا کھڑا تھا اور اچانک سیلاب کی مانند آ ٹکرایا ہے، مگر غسان کے افسانوں میں تاثیر کی ایسی ہی شدت (کرافٹ اور تکنیک کے فرق کے ساتھ) صرف اختتام میں نہیں بلکہ پورے افسانے پر مساوی طور پر تقسیم ہوتی ہے، قاری کے سینے پر ایک ایک چھٹانک کر کے بوجھ پڑتا رہتا ہے یہاں تک کہ احوال کے ارتکاز سے سانس رکنے لگتا ہے۔

1961ء میں 25 برس کی عمر میں اس کا پہلا افسانوی مجموعہ ''موتُ سریر رقم 12'' (بیڈ نمبر 12 کی موت) شائع ہوا۔ جس کی ایک کہانی(بیڈ نمبر 12 کی موت) کو آج بھی عربی افسانے کی تاریخ کی چند بہترین کہانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس افسانے کو مشہور انگریز مترجم و ادیب ڈینس جانسن ڈیویز (جسے مصری پیار سے عبد الودود بھی کہتے ہیں) نے انگریزی میں ترجمہ کر کے آکسفورڈ یونیورسٹی سے نمائندہ عربی کہانیوں کے ایک مجموعے میں شائع کیا (جس پر پروفیسر آربری نے مقدمہ لکھا)۔ اس کہانی میں اس نے ہسپتال اور مریضوں کے اندرونی احوال و محسوسات کی ایسی شاندار منظر کشی کی ہے کہ یہ افسانہ اس وقت نیویارک یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کے نصاب میں شامل ہے۔



غسان کی فنی خصوصیات کے بارے میں ایک بات یہ ہے کہ فلسطین اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے اور سب سے بڑی طاقت بھی۔ طاقت اس طرح کہ اگر وہ فلسطین میں ہونے والے سنگین تجربات سے نہ گزرتا تو اتنی سی عمر میں وہ ایسا گہرا اور گمبھیر بیانیہ بھی تشکیل نہ دے سکتا، اور کمزوری اس معنی میں کہ اس کا نام آتے ہی اس کی سیاسی سرگرمیاں اور قضیۂ فلسطین سے اس کا تعلق ناقدین کے جذبات اور پسند نا پسند میں حائل ہو جاتا ہے اور اس کے فن کو معروضی نظر نصیب نہیں ہوتی۔ ہمارے ذاتی تجربے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ غسان کے ایک بہت ہولناک افسانے کا ترجمہ (جو فلسطین کے موضوع پر نہیں تھا) جب ہم نے ایک ادبی نشست میں پیش کیا تو سب شرکائے مجلس فلسطین کے قضیے کے بارے میں ہی گفتگو کرنے لگے یہاں تک کہ ایک سینئر استادِ ادب نے اس افسانے کے فنی پہلوؤں کی جانب حاضرین کو متوجہ کیا۔



1963ء میں اس کا ناول رجال فی الشمس (دھوپ میں کچھ آدمی) شائع ہوا، کہا جاتا ہے کہ اگر پوری فلسطینی مزاحمت کے انسانی پہلو کی خوبیاں اور خامیاں یکجا دیکھنی ہوں تو یہ ایک ناول پڑھنا کافی ہے۔ ناول کا کلائمکس یہ ہے کہ تین فلسطینی اپنا وطن ترک کر کے غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کر نا چاہ رہے ہیں، چنانچہ وہ ایک آئل ٹینکر کے ڈرائیور کو کچھ دے دلا کر اس کی خالی ٹینکی میں چھپ جاتے ہیں اور وہ انھیں گرمی سے پگھلتے ہوئے صحرا میں لیے جا رہا ہے۔



وہ لوگ موسم کی شدید تمازت کے ہاتھوں ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں مگر پکڑے جانے کے خوف سے واویلا تک نہیں کرتے۔ ناول اس جملے پر ختم ہوتا ہے: لماذا لم یدقّوا جدران الخزان؟ (آخر ایسا بھی کیا ہوا کہ انھوں نے ٹینکی کی دیواروں کو پیٹا تک نہیں؟) یہ جملہ فلسطینی مہاجرین کے خوف اور خود پر ہونے والے مظالم پر ان کی خاموشی کے حوالے سے ایسا بلیغ و حزین تبصرہ ہے کہ جواب نہیں۔ آج جب کہ غسان کے قتل کو 45 برس ہو گئے ہیں، آج بھی یہ جملہ فلسطین اور اسرائیل کی آبادی کو تقسیم کرنے والی ناجائز دیوار سمیت اکثر فلسطینی رہائشی بستیوں میں دیواروں پر لکھا ہوا نظر آتا ہے۔



1966ء میں اس کا ناول ما تبقیٰ لکم (جو تمھارے پاس بچا ہے) شائع ہوا، یہ ناول رجال فی الشمس کا دوسرا حصہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ پوری عرب دنیا نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس ناول میں ایسے انوکھے تھیمز اور تکنیک کے تجربات کیے گئے جن کی پیچیدگی اور تہہ داری عربی فکشن میں بالکل نئی تھی (بلکہ معذرت کے ساتھ اردو فکشن کے لیے بھی وہ ایک بہت انوکھی اور اونچی چیز ہے)۔ اس ناول کو احسن قصۃ فی العالم العربی (عرب دنیا کی بہترین کہانی) کا ایوارڈ دیا گیا ۔

اس کے آخری دو ناول ''امّ سعد'' (سعد کی ماں) ، اور ''عائد إلیٰ حیفا'' (حیفا کو پلٹنے والے) بھی پہلے ناولوں اور افسانوں کی طرح عرب دنیا اور غیر از عرب قارئین کے لیے توشہ خاص ثابت ہوئے اور نقادوں نے اس کے فن کو سراہا۔خاص طور پر عائد إلیٰ حیفا تاثیر کے اعتبار سے ایسا شدید اور ہولناک تھا کہ اسرائیلی غاصب حکومت کو اس کا تاثر زائل کرنے کے لیے جوابی ناول لکھوانے پڑے۔ رجال فی الشمس، ما تبقیٰ لکم پر فلمیں بن چکی ہیں، اور ام سعد کو ڈرامائی تشکیل دی جا چکی ہے۔ اس کی صحافتی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں اس کو پس از مرگ 1973ء میں انٹر نیشنل آرگنائزیشن آف جرنلسٹس ایوارڈ (I.O.J) اور 1975ء میں افریشیائی ادیبوں کی کانفرنس کی طرف سے لوٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

غسان نے کہا.....

٭ آزادی کا کوئی متبادل نہیں ہے، آزادی بذات خود ہی متبادل ہے۔

٭ ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگوں کو مرنا ہی پڑتا ہے تبھی باقی لوگ جی سکتے ہیں۔

٭ اہم یہ نہیں ہے کہ ہم میں سے کوئی ضرور اپنی جان کی قربانی ہی دے، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ کوئی تب تک نہ رکے، یہاں تک کہ گر جائے۔

٭ جب کوئی لڑکا مادرِ وطن کے دفاع کی وردی پہن لے تو پھر اس کو اپنی ماں کی دعاؤں کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں رہتی۔

٭ شاید کچھ جری مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں صرف ان کے اندر سے ہی قتل کیا جا سکتا ہے۔

٭دنیا کے سارے آنسو مل کر ایسی کسی چھوٹی سی کشتی کو نہیں سہار سکتے جس میں ان والدین کو اٹھانے کی ہمت ہو جو اپنا کھویا ہوا بچہ ڈھونڈنے نکلے ہوں۔

٭ میرے الفاظ کی اوقات کا اندازہ مجھے اچھی طرح سے ہے، میری ہر تحریر اسلحہ کی عدم موجودگی کا ایک گھٹیا سا متبادل ہے۔ ایک مدّعاکہ میں جس کا احترام کرتا ہوں لوگ، حقیقی مردانِ کار اس کے سامنے یومیہ اپنی جان دے کر روشن ہوتے رہتے ہیں اور میرے مقدر میں بس لفظوں کی سیاہی ہے۔

٭ فلسطین کی سب سے بڑی مصیبت بھلا کیا ہے؟ لوگ فلسطین اور جنگ فلسطین کے بارے میں مقالہ در مقالہ لکھتے ہیں، ایسے لوگ بھی جنھوں نے زندگی بھر ایک گولی چلنے کی آواز تک نہیں سنی۔

٭ اگر ہم ایسی فوج ہیں جو ایک مدعا کا دفاع کرنے میں ناکام ہو چکی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم سپاہی بدلیں نہ کہ مدّعا۔

٭ وہ انسان جو ضرورت سے زیادہ محسوس کرنے کا عادی ہو ایسے انسان سے بہر طور بہتر ہے جو کچھ محسوس ہی نہ کر سکتا ہو۔

٭ آخربدشگونی بہادری کیوں نہیں؟ مجھے تو لگتا ہے ہر چیز سے نیک فال لینا سب سے بڑا جھوٹ، فرار اور بزدلی ہے۔ تم جانتے ہو کہ زندگی بد صورت اورتاریک ہے، پھر امیدوں کو برقرار رکھنے کا جواز آخر کیا ہے؟

٭ انسان نے ارتقاء کے سارے تکلیف دہ سفر میں سب سے اچھی دوا جو ایجاد کی ہے وہ بھول سکنے کی صلاحیت ہے۔

٭ میں نہیں چاہتا کہ مجھے کسی سے نفرت نہ ہو، اگر میں چاہتا بھی تو یہ میرے بس میں تھا ہی نہیں۔

٭ دشمن مجھے ہار ماننے پر بھی مجبور کر سکتا ہے مگر میرے مسکرانے پر اس کا اختیار نہیں چلتا۔

٭ مجھے توقع تو نہیں کہ تم کبھی واپس آؤ گی، چڑیاں اپنے گھونسلے چھوڑ دیں تو کب واپس آتی ہیں۔

٭ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اپنے ساتھ رہنے دو، میں تمھیں دیکھ سکوں اس کی اجازت دے دو، تم میرے لیے اس سے کہیں زیادہ اہم ہو جتنا میں تمھارے لیے اہم ہوں، یہ بات مجھے پتہ ہے، مگر میں کر بھی کیا سکتا ہوں؟مجھے پتہ ہے کہ دنیا ہمارے ساتھ ہونے کے مخالف ہے مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ ہم دونوں کی برابر برابر مخالف ہے، ہم دونوں اس مخالفت کے سامنے اکٹھے کیوں نہ کھڑے ہوں؟ میرے کاندھے پر کائنات کی اٹلس بھی دھر دی جائے تو میں تمھارے پیچھے اور تمھارے ہی ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔

٭ میں گندھک کی بند کان کی طرح اپنے اندر ہی اندر بھڑک رہا ہوں اور عورتیں میری نظروں سے یوں اترتی جاتی ہیں جیسے تمھاری ابرؤوں کی کٹاروں سے کٹ کٹ کر گرتی جا رہی ہوں۔



٭ میں ہر بات تمھیں کہے جا رہا ہوں کیوں کہ تمھاری کمی مجھے بہت محسوس ہو رہی ہے، بلکہ ...اس سے بڑھ کر کہوں... اب میں تمھارے نہ ہونے سے تھک گیا ہوں۔ مجھے تمھاری موجودگی درکار ہے، بہت زیادہ، اتنی زیادہ جتنی میں سنبھال بھی نہ سکوں۔میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں تمھیں خط لکھوں گا اور تم دور بھی ہوا کرو گی؟

٭ ہم نے تو طے کیا تھا کہ ''میں'' ہونے کا مطلب ہی ہم دونوں ہیں، پر مجھے تمھاری ضرورت اتنی شدت سے کیوں محسوس ہوئے جا رہی ہے۔

٭ زندگی ایک دھوکہ ہے، ورنہ وہ وقت جو میں نے تمھارے ساتھ گزارا اور وہ جو تمھارے بغیر وہ دونوں زندگی کہلانے میں برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟

٭ اگر تم مجھے نہ ملی تو میرے وجود کا ایک بہت بڑا حصہ منہدم ہو جائے گا۔

٭ تم جتنا ڈھونڈوگی تمھیں بند کمرے میں دھوپ نہیں ملے گی۔

٭ لو! یہ ہوں میں، پلیٹ فارم پر بھولے ہوئے سامان کے مانند، میرے بدن کی گہرائیوں میں اشتیاق اور ندامت بیک وقت دھڑک رہے ہیں، اشتیاق کہ تمھیں دیکھوں گا، اور ندامت کہ تم میرے سامنے چلی گئیں اور میں تمھیں روک بھی نہ سکا۔

٭ میں تمھیں بھولا ہوں؟ ہرگز نہیں، سیدھے لفظوں میں کہوں تو میں نے کبھی کسی کو ایسے جانا ہی نہیں جیسے تم سے واقف ہوا ہوں، میں کبھی کسی کے اتنے نزدیک ہوا ہی نہیں جتنی تم میرے ساتھ ہو، اس لیے میں تمھیں کبھی نہیں بھولوں گا، تم میری زندگی کی سب سے نادر چیز ہو، میں تمھارے ساتھ ہی شروع ہوا تھا اور اب بظاہر یونہی لگتا ہے کہ تمھارے ساتھ ہی ختم ہوسکوں گا۔

مقبول خبریں