بنگلہ دیش میں بیگمات کی جنگ

سید عاصم محمود  اتوار 18 فروری 2018
بیگم خالدہ ضیا پر کرپشن اور دیگر الزامات کے سلسلے میں کل 37 کیس بنائے گئے۔ فوٹو: فائل

بیگم خالدہ ضیا پر کرپشن اور دیگر الزامات کے سلسلے میں کل 37 کیس بنائے گئے۔ فوٹو: فائل

8 فروری کی دوپہر بنگلہ دیش کے دارالحکومت، ڈھاکہ میں ایک خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم بیگم خالدہ ضیا کو کرپشن کے جرم میں پانچ سال کے لیے جیل بھجوا دیا۔ یوں اس مملکت میں سیاسی بیگمات کی لڑائی نے نیا موڑ لے لیا جو پچھلے تیس پینتیس برس سے جاری و ساری ہے۔

یہ دونوں خواتین بانیان ِ مملکت کی وارث ہونے کی دعویٰ دار ہیں۔ایک بیگم اور موجودہ وزیراعظم، ستر سالہ حسینہ واجد تو ’’بابائے قوم‘‘ شیخ مجیب الرحمن کی دختر ہیں جو بنگلہ دیش کے پہلے صدر رہے۔ دوسری بیگم، خالدہ ضیا ایک فوجی افسر، ضیاء الرحمن کی بیوہ ہیں۔ یہ ضیاء الرحمن ہی ہیں جنہوں نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔

خیال ہے کہ ضیاء الرحمن ان باغی بنگلہ دیشی افسروں میں شامل تھے جنہوں نے 1975ء میں شیخ مجیب کا خاتمہ کر ڈالا تھا۔ بعدازاں حالات نے کروٹ لی اور 1977ء میں ضیاء الرحمن بنگلہ دیشی صدر بن گئے۔ تاہم 1981ء میں ناراض فوجی افسروں نے انہیں بھی مار ڈالا۔غرض مشرقی پاکستان جب بنگلہ دیش بنا، تو وہ جلد ہی کرپٹ حکمران طبقے کے باعث انتشار کا شکار ہوگیا۔ شیخ مجیب اقتدار سنبھال کر آمر بن بیٹھے اور غرور و تکبر کا مرقع بن گئے۔ انہوں نے اقربا پروری کی انتہا کردی اور کئی اہم سرکاری عہدوں پر رشتے دار اور دوست احباب لا بٹھائے۔ ان لوگوں نے دل کھول کر کرپشن کی اور عام لوگوں نے آزاد مملکت میں ترقی و خوشحالی کے جو خواب دیکھے تھے، وہ سارے ملیامیٹ ہوگئے۔

1977ء میں اقتدار سنبھال کر ضیاء الرحمن نے ملک میں امن و امان لانے کی کوششیں کیں۔ وہ ایک سخت گیر حکمران تھے۔ انہوں نے مملکت میں دین اسلام کوپھیلانے  کی خاطر اقدامات کیے۔ نیز عوامی فلاح و بہبود کے لیے مختلف سرکاری منصوبوں کا آغاز کیا۔ وہ عوام میں مقبول تھے مگر سیکولر عناصر کو ایک آنکھ نہ بھاتے۔1981ء میں فوجی افسروں کے ایک گروہ نے انہیں قتل کردیا۔ یوں ضیاء الرحمن کے دور میں ترقی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ رک گیا۔ مرحوم نے 1978ء میں ایک نئی سیاسی جماعت، بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اب اس کی کمان مرحوم کی بیگم، خالدہ ضیا نے سنبھال لی۔ 1981ء ہی میں شیخ مجیب الرحمن کی جماعت، عوامی لیگ نے ان کی بیٹی، بیگم حسینہ واجد کو اپنا قائد چن لیا۔

اس طر ح بنگلہ دیش کے میدان سیاست میں دو نمایاں بیگمات نے قدم رکھ دیا۔ یہ دونوں خواتین نظریاتی و سیاسی طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ حسینہ واجد سیکولر مزاج کی خاتون ہیں اور بھارت کی جانب جھکاؤ رکھتی ہیں۔ بیگم خالدہ ضیاء اعتدال پسند اسلام کی نمائندہ ہیں اور عوامی لیگیوں کے برعکس بھارت کو اولیت نہیں دیتیں۔ یہی وجہ ہے، ان کے دور حکومت میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات خوشگوار رہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً دس سال تک دونوں بیگمات باہم شیرو شکر رہ کر جنرل حسین محمد ارشاد سے نبرد آزما رہیں۔ موصوف نے 1983ء میں حکومت سنبھالی تھی اور پھر 1990ء تک اقتدار سے چمٹے رہے۔ ان پر بھی آمر اور کرپٹ حکمران ہونے کا الزام ہے۔ ان کے دور حکومت میں دو عام الیکشن ہوئے اور بیگمات نے دونوں کا بائیکاٹ کیا۔آخر 1991ء کے الیکشن میں بیگمات کی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اس میں بیگم خالدہ ضیاء 300 نشستوں میں سے 140 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہیں۔ حسینہ واجد 88 جبکہ صدر ارشاد کی سیاسی جماعت صرف 35 سیٹیں جیت سکیں۔ یوں مارچ 1991ء میں بیگم خالدہ وزیراعظم بن گئیں اور مارچ 1996ء تک اس عہدے پر فائز رہیں۔

اب حسینہ واجد مرکزی اپوزیشن رہنما بن کر خالدہ ضیاء حکومت پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگیں۔ گویا دونوں بیگمات کے مابین دوستی و اتحاد کا دور اختتام کو پہنچا اور وہ ایک دوسرے کی کٹر دشمن بن گئیں۔ فروری 1996ء میں نئے الیکشن ہوئے۔ بیگم خالدہ کی پارٹی نے حیرت انگیز طور پر ساری 300 نشستیں جیت لیں مگر حزب اختلاف نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور ملک میں ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس صورتحال نے پورا ملک مفلوج کر ڈالا۔ فوج کے دباؤ پر جون 1996ء میں نئے الیکشن ہوئے۔ اس میں عوامی لیگ نے 146 نشستیں جیت لیں۔ بیگم خالدہ کی پارٹی 116 سیٹیں جیت پائی۔

یوں جون 1996ء میں حسینہ واجد پہلی بار بنگلہ دیش کی وزیراعظم بن گئیں۔ وہ جولائی 2001ء تک اس عہدے پر فائز رہیں۔ اسی سال ماہ اکتوبر میں الیکشن ہوئے۔ اب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی 193 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ حسینہ واجد کی جماعت 62 سیٹیں جیت سکی۔ اس طرح بیگم خالدہ ضیاء دوسری بار وزیراعظم بنگلہ دیش مقرر ہوئیں۔

قانون کے مطابق اکتوبر 2006ء میں بیگم خالدہ نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا تاکہ نگران حکمران قائم ہوسکے۔ اس حکومت کو اگلے تین ماہ میں نئے الیکشن کرانے تھے۔ مگر جلد ہی یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ نگران حکومت کون سنبھالے گا۔ دراصل دونوں بیگمات چاہتی تھیں کہ ان کے حامی نگران حکومت میں شامل کیے جائیں تاکہ الیکشن جیتنے میں مدد مل سکے۔ اسی لیے وہ ایک دوسرے کے طرف داروں کی تقرری مسترد کرتی رہیں۔ اس غیر جمہوری اور اقتدار کے لالچ پر مبنی عمل نے بنگلہ دیش میں سنگین سیاسی بحران کھڑا کردیا۔

دونوں سیاسی جماعتوں کے حامی جلسے جلوس نکالتے رہتے۔ ان کی وجہ سے روزمرہ معاشی و معاشرتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئیں۔ سیاست دانوں کی باہمی لڑائیاں روکنے کی خاطر آخر جنوری 2007ء میں فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ یہی نہیں، فوج نے شمشیر براں ہاتھ میں لیے سیاست دانوں پر یلغار کردی۔اپنے اپنے دور حکومت میں کرپشن اور سرکاری خزانے میں خرد برد کرنے کے الزامات میں دونوں بیگمات دھرلی گئیں۔ فوج کی شہ پاکر بنگلہ دیش میں عدلیہ اور محکمہ اینٹی کرپشن، دونوں بہت فعال ہوگئے۔ دراصل یہ حقیقت تھی کہ دونوں بیگمات کا دور حکومت کئی کرپشن سیکنڈلوں سے آلودہ تھا۔ یہ تو ممکن ہے کہ بیگم خالدہ ضیاء اور بیگم حسینہ واجد خود کرپشن سے مبرا رہیں مگر ان کے وزیر، مشیر، رشتے دار اور دوست احباب سرکاری ٹھیکوں میں رشوت، کک بکس، کمیشن وغیرہ لے کر راتوں رات دولت مند بن گئے۔ ادھر غریب بنگلہ دیشی عوام کی حالت سدھر نہ سکی۔ غربت بدستور ان کا لہو پیتی رہی۔

بیگم خالدہ ضیا پر کرپشن اور دیگر الزامات کے سلسلے میں کل 37 کیس بنائے گئے۔ بیگم حسینہ واجد پر بھی 15 کیس قائم ہوئے۔ دونوں بیگمات نے فوج و عدلیہ پر الزام لگایا کہ وہ مقدمات میں پھنسا کر انہیں اور ان کے خاندانوں کو میدان سیاست سے بے دخل کرنا چاہتی ہے۔ فوج اور عدلیہ نے بیگمات کے الزامات مسترد کردیئے اور واضح کیا کہ ان کی مہم کا مقصد یہ ہے کہ بنگلہ دیش کرپشن کے عفریت سے نجات پاکر ترقی و خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز کرسکے۔

فوج و عدلیہ کی زیر نگرانی دسمبر 2008ء میں الیکشن ہوئے جو عوامی لیگ نے جیت لیے۔ اس نے 230 نشستیں حاصل کیں۔ بیگم خالدہ کی جماعت صرف 30 نشستیں جیت سکی۔ یوں عوام نے اپنی ناراضی کا اظہار کردیا۔ وہ خالدہ ضیا حکومت میں پھیلی کرپشن سے ناخوش تھے۔ یہ بیگم خالدہ کی کمزوری اور نااہلی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں سمیت وزیروں مشیروں کو کرپشن کرنے سے نہیں روک سکیں۔ یہی کمزوری آخر ان کے زوال کا پیش خیمہ بن گئی۔ بنگلہ دیشی عوام اب سابق حکمران طبقے کو ہر گز اقتدار نہیں سونپنا چاہتے تھے۔

جنوری 2009ء میں بیگم حسینہ واجد دوسری بار وزیراعظم بنگلہ دیش بن گئیں۔ تب سے وہ اپنے ملک کی حکمران چلی آرہی ہیں۔ ان کا دور حکومت کئی خامیاں رکھتا ہے اور کچھ خوبیاں بھی! سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پچھلے نو برس میں بنگلہ دیش خاطر خواہ معاشی ترقی کرچکا اور وہاں پہلے سے زیادہ خوشحالی ہے۔ 2009ء میں ایک بنگلہ دیشی کی فی کس آمدن 710 ڈالر تھی جو اب 2018ء میں بڑھ کر 1650 تک پہنچ چکی۔ بنگلہ دیش آج 34 ارب ڈالر کا سامان برآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان کی برآمدات صرف 21 ارب ڈالر کے آس پاس گھوم رہی ہیں۔

لیکن معاشی ترقی حسینہ واجد کے دور حکومت کا صرف ایک رخ ہے، بقیہ پہلو خاصے خوفناک ہیں۔ پہلا پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم بنتے ہی حسینہ واجد کے خلاف سبھی کیس ایک ایک کرکے ختم ہوتے چلے گئے۔ اس چلن سے سازش کی بدبو آتی ہے۔ یہ یقینی ہے کہ حسینہ واجد نے اپنے عہدے اور عوامی مقبولیت سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ججوں کو مجبور کیا کہ وہ ان کے خلاف مقدمے ختم کردیں۔ مزید براں حسینہ واجد کی بڑھتی طاقت نے سبھی گواہوں کو بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ یوں بیگم حسینہ دھونس و ترغیبات سے اپنے پر چلتے تمام کیس ختم کرانے میں کامیاب رہیں۔جس جج نے بیگم صاحبہ کی بات نہیں مانی،اسے زبردستی گھر بھجوا دیا گیا۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیشی فوج کے بیشتر جرنیل روایتی طور پر بھارت کی سمت جھکاؤ رکھتے ہیں۔ وجہ یہی کہ بھارتی فوج ہی نے انہیں بنگلہ دیش کا تحفہ عطا کیا۔ اگر بھارتی فوج مکتی باہنی کھڑی نہ کرتی، تو مشرقی پاکستان کبھی بنگلہ دیش کی صورت اختیار نہ کرتا۔ اسی لیے اکثر بنگلہ دیشی جرنیل بیگم خالدہ کی نسبت بھارت کی حمایتی بیگم حسینہ سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ چناں چہ بیگم حسینہ ہمدرد جرنیلوں کی وساطت سے بھی عدلیہ کو زیر اثر کرنے اور مطیع بنانے میں کامیاب رہیں۔

جب اقتدار مستحکم ہوگیا،حسینہ واجد فوج اور عدلیہ کو اپنے دام میں گرفتار کرنے میں کامیاب رہیں، تو پھر وہ لٹھ لے کر اپنے مخالفین پر پل پڑیں۔ انہوں نے بیگم خالدہ ضیا کے کئی اہم حمایتی جھوٹے سچے الزامات لگا کر جیل میں ڈال دیئے جہاں ان پر تشدد کیا گیا۔پولیس اور سیکورٹی ادارے حزب اختلاف کی پارٹیوں کے حمایتیوں پہ ظلم و ستم کرنے لگے۔ خوف و دہشت کی اس فضا میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کئی رہنما اور کارکن زیر زمین چلے گئے۔ ان کی عدم موجودگی سے پارٹی کی مقبولیت میں بہت کمی آگئی۔

حسینہ واجد نے پھر نام نہاد بین الاقوامی ٹریبونل بنایا جہاں جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر مقدمے چلنے لگے۔ ان پر الزام تھا کہ 1971ء میں انہوں نے پاک افواج کی مدد کی تھی۔ ٹربیونل کے متنازع فیصلوں کی وجہ سے جماعت اسلامی کے کئی رہنما پھانسی چڑھ گئے اور بہ حیثیت سیاسی پارٹی اسے بہت نقصان پہنچا۔بیگم خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے حامیوں نے حکومتی ظلم و ستم پر احتجاج کرنا چاہا، تو پولیس نہایت سختی کے ساتھ ان سے پیش آئی۔ دراصل حسینہ واجد نے پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کو ہدایت کردی تھی کہ مظاہرین کو مزا چکھا دو۔ چناں چہ سکیورٹی اداروں نے اپنے ہی عوام پر ظلم و تشدد کی انتہا کردی۔ یوں ملک بھر میں خوف و دہشت کے ایسے ماحول نے جنم لیا کہ اس میں گھر سے باہر احتجاج کرنا زندگی اور موت کا کھیل بن گیا۔

حسینہ واجد اس طرح ظالمانہ و آمرانہ اقدامات سے اپنے مخالفین کو خاموش اور پسپا کرنے میں کامیاب رہی۔ آج یہ عالم ہے کہ بنگلہ دیش میں صرف بہادر و دلیر لوگ ہی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کرتے ہیں۔ حکومت نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے۔ اخبار یا ٹی وی چینل سرکاری پالیسیوں پر تنقید کرے، اسے مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے تاکہ وہ خاموش ہونے پر مجبور ہوجائے۔حسینہ واجد کے حالیہ دور میں بھی کرپشن کے اسکینڈل سامنے آ چکے مگر میڈیا انھیں نمایاں کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔

بیگم خالدہ ضیا کی حالیہ سزا بھی حسینہ واجد کے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ دراصل اسی سال کے آخر میں نئے الیکشن متوقع ہیں۔ لہٰذا وہ بیگم خالدہ کو عدالتوں سے سزا یافتہ قرار دلوانا چاہتی ہیں۔ مدعا یہی ہے کہ اس کی اہم ترین حریف اگلے الیکشن میں کھڑی نہ ہوسکے۔ممکن ہے کہ ہائی کورٹ بیگم خالدہ ضیا کی ضمانت منظور کر لے مگر اب سزا یافتہ بن کر ان کے لیے الیکشن میں کھڑا ہونا محال ہو گا۔

حالات اور واقعات سے عیاں ہے کہ بیگم حسینہ واجد اور ان کے چیلے چانٹوں نے بڑی عیاری و مکاری سے ریاست کے چاروں ستونوں (مقنہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا) پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے، حسینہ واجد حکومت کو اب کسی مضبوط و طاقتور اپوزیشن سے خطرہ نہیں۔ مزید براں بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی کی صورت انہیں ایک قوی ہمدرد بھی مل چکا جو اگلے الیکشن میں حسینہ واجد کو کامیاب کرانے کی خاطر ہر ممکن اقدامات کرے گا۔درج بالا صورتحال واضح کرتی ہے کہ اگلا الیکشن انہی کی پارٹی ہی جیتے گی۔ کوئی کرشمہ ہی بیگم خالدہ کو اقتدار میں لاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔