سمادھ بھائی وستی رام

مدثر بشیر  اتوار 22 اپريل 2018
تاریخی ورثہ جو انتظامیہ کی غفلت سے زمانے کی دست برد کی نذر ہو گیا۔ فوٹو: فائل

تاریخی ورثہ جو انتظامیہ کی غفلت سے زمانے کی دست برد کی نذر ہو گیا۔ فوٹو: فائل

پنجاب میں مغلوں کی گرتی ہوئی سرکار اور سکھوں کی بڑھتی ہوئے طاقت کے وقت میں بھائی وستی رام اور ان کا خاندان شہر لاہور میں انتہائی معتبر اور عزت دار مانا جاتا تھا۔ ان کے خاندان کی عزت کا یہ سلسلہ سکھ عہد کے بعد انگریز عہد میں بھی جاری رہا۔

’’وستی‘‘ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بستی کے ہیں۔ کوئی بھی ایسی جگہ یا مقام جہاں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہو وہ علاقہ بستی ہی کہلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کی کتب میں ان کا نام ’’بستی رام‘‘ تحریر کیا گیا ہے۔ سکھ دھرم میں لفظ ’’بھائی‘‘ اس شخص کے لئے ا ستعمال کیا جاتا تھا جو مذہبی اور روحانی درجات کے خاص مقام پر فائز ہو۔ اس شخص کی سکھوں میں اتنی ہی عزت ہوتی ہے جتنی کہ کسی بھی د وسرے مذہب کے بڑے روحانی پیشوا کی ہو ۔

بھائی وستی رام کے خاندان کی تکریم کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انگریز عہد میں سر لیپل ہنری گریفن نے ایک کتاب ’’The chiefs and families of punjab‘‘ تحریر کی تو اس خاندان کا بھی مفصل احوال درج کیا ۔ اس وقت یہ خاندان بھائی گوردت سنگھ رئیس لاہور کے نام سے معروف تھا۔ خاندان کا احوال بیان کرتے ہوئے انہوں نے بھائی وستی رام کی زندگی کے بارے میں کچھ یوں تحریر کیا۔

’’سکھوں کے نظم ونسق میں مذہب اور سلطنت کے درمیان قریبی اتحاد ہے اور اس وقت سے جب سے کہ سکھ لوگ قوم بن گئے ان کے مشوروں میں فقیروں، باؤوں اور بھائیوں کی بہت مانی جاتی تھی۔ اس قسم کے دربار لاہور کے مقتدر مذہبی خاندانوں میں سے بھائی گوردت سنگھ کا خاندان بھی ہے۔

اس خاندان میں پہلا شخص جس نے بھائی کا خطاب حاصل کیا، سری گورو گوبند سنگھ جی کا ایک چیلا مسمی بلاقا سنگھ تھا جب گورو مذکورہ 1707ء میں ابچالہ انگر واقع دکھن کی طرف چلے گئے تو انہوں نے بلاقا سنگھ سے کہا کہ تو لاہور چلا جا جہاں تیری شادی ہو جائے گی۔

بلاقا سنگھ کی عمر اس وقت پچاس سال سے زیادہ تھی اور یہ ا پنے آپ کو شادی کے قابل نہ سمجھتا تھا مگر اس نے گورو جی کے حکم کی تعمیل کی اور لاہور میں ایک سکھ نے یہ کہہ کر اپنی لڑکی شادی کی غرض سے بلاقا سنگھ کی خدمت میں پیش کی کہ گورو جی نے اسے خواب میں ایسا ہی کرنے کی ہدایت کی ہے۔

بلاقا سنگھ انکار نہیں کر سکتا تھا اور اس نے اس عورت سے شادی کر لی جس کے بطن سے تین لڑکے امولک رام‘ سہائی رام اور بستی رام ہوئے ۔ بستی رام 1708ء میں پیدا ہوا اس نے اوائل عمر ہی سے اپنے آپ کو علم طب کے مطالعہ کے لئے وقف کر دیا اور جلد ہی کچھ طبی قابلیت اور کچھ اپنی پاک بازی کی وجہ سے مشہور ہو گیا۔ بھنگی رؤساء جو اٹھارویں صدی کے پچھلے حصہ میں لاہور پر قابض تھے اس سے بہت مشورے لیا کرتے تھے اور رنجیت سنگھ بھی جس نے بھائی کی وفات کے تین سال پہلے یعنی 1802ء میں شہر فتح کیا تھا اس کی بڑی عزت کرتا تھا ۔

مشہور تھا کہ اس کی پیشن گوئیاں ہمیشہ پوری اور دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور اس کے پاس ایک کیسہ اس طرح کا تھا کہ خود بخود بھر جاتا تھا اور اس کا خالی ہونا ناممکن تھا مگر ان قصوں(’’بھائی بستی رام شہر کی شہر پناہ سے باہر ثمن برج کے نیچے رہا کرتا تھا دریائے راہ سی کی ایک بڑی شاخ اس زمانہ میں شہر پناہ کے نیچے بہا کرتی تھی اور ہر سال اس وقت تک شہر کا بہت نقصان کرتی رہی حتیٰ کہ بھائی مذکورہ نے دریا کے روکنے کا ارادہ کر کے اپنا ڈیرہ شہر پناہ کے متصل باہر کی طرف بنا لی،ا اس دن سے دریا کے پانی نے شہر پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی بھائی کے ڈیرے کے پاس سے ہو کر گزرا جب وہ فوت ہوا تو اس کی مڑھی سفید سنگ مرمر سے اسی ڈیرے کے مقام پر بنائی گئی۔ دریا ابھی تک اس مقام کی عزت کرتا ہے۔ مگر شہر کے بچاؤ کا سبب اس گہرے گڑھے کے علاوہ جس میں زائد پانی منتقل ہو جاتا ہے، دریا کے بہاؤ کا رخ بدل جانا بھی قرار پا سکتا ہے۔)

بھائی وستی رام اور ان کے خاندان کا احوال تین ہندی کتابوں کے علاوہ تاریخ کی کئی دیگر کتب میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا روزنامچہ تحریر کرنے والے سوہن لال نے ایک کتاب فارسی زبان میں ’’عمدۃ التواریخ‘‘ تحریر کی تھی۔ اسی طرح ان کا احوال رنجیت سنگھ کے ایک وزیر دینا ناتھ کے بیٹے امر ناتھ نے فارسی میں تحریر کیا۔ اس کتاب کا نام ’’ظفر نامہ رنجیت سنگھ‘‘ تھا۔ ان کی زندگی پر ایک مفصل کتاب گر مکھی میں کرپال سنگھ نے تحریر کی جس کا عنوان تھا ’’بھائی وستی رام‘‘ یہ کتاب خالصہ امرتسر کالج نے شائح کی۔ قیام پاکستان کے بعد خان محمود ولی اللہ خان نے ا یک کتاب ’’Sikh Shrines in West Pakistan‘‘ کے عنوان سے تحریر کی جس میں ایک بھرپور مضمون بھائی وستی رام کی حیات پر تحریر کیا ۔

کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ (ص۔89) پر ان کے خاندان کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔

’’خاندان بھائی صاحبان : یہ خاندان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت سے معزز چلا آتا ہے۔ مورث اعلیٰ اس کا بھائی بلاقا سنگھ تھا جس نے گرو گوبند سنگھ کے ہاتھ سے پاہسل لی۔ اس کے تین بیٹے تھے۔ ایک بھائی بستی رام‘ دوسرا بھائی سہائی‘ تیسرا بھائی مولک رام ۔ یہ تینوں خدا پرست‘ عابد و زاہد تھے۔ پھر بستی رام کے دو بیٹے بھائی ہرنام و بھائی ہربھج رائے ہوئے۔ پھر بھائی (صفحہ ۹۶) ہر بھج رائے کے تین بیٹے ایک بھائی کانہہ سنگھ جو 1837ء میں مر گیا ۔ دوسرا بھائی رام سنگھ جو 1846ء میں فوت ہوا۔ تیسرا گوبند را م جو 1845میں مرا۔‘‘

کنہیا لال ہندی کے بعد کرنل بھولاناتھ وارث نے اپنی پنجابی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ (ص-20) پر ان الفاظ میں ذکر کیا ہے۔

’’مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت لاہور کے قلعے کے ساتھ دریا کا پانی دباؤ بڑھا تا رہتا تھا جس سے ہر وقت اس بات کا دھڑکا لگا رہتا تھا کہ قلعہ آج گرا‘ کل گرا ۔کہا جاتا ہے کہ قلعہ لاہور کو بچانے کی خاطر بھگت وستی رام نے دریا کے کنارے ڈیرے لگائے۔ بھگت جناب کے ڈر سے دریا پیچھے کو ہٹ گیا ۔ بھگت وستی رام کی سمادھی اسی مقام پر تعمیر کی گئی۔‘‘

تقسیم کے بعد بھائی وستی رام کا خاندان ہندوستان جا بسا۔ ان کی اولادیں آج بھی امرتسر میں دیکھی جا سکتیں ہیں۔ درج بالا حوالہ جات سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا خاندان سکھ، انگریز عہد کے ساتھ ساتھ تقسیم کے بعد بھی کتنا عزت و تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس عزت دار بندے کی سمادھی کو کبھی تاریخی حیثیت سے دیکھا گیا اور نہ اس کے شایان شان اس کی حفاظت کے اقدامات کئے گئے۔ ذات پات‘ مذہب ‘ زبان اور تاریخ کے علم سے نابلدی نے کتنی عظیم عمارات کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ۔ فنون لطیفہ سے مزین یہ عمارات ہماری نظروں کے سامنے تباہ ہوئیں۔ تقسیم سے قبل قلعہ لاہور کے ساتھ بھائی وستی رام کی سمادہ اور جھینگرشاہ ستھرا کی سمادہ دیکھنے کے لائق تھیں۔ چند برس قبل تک یہ دونوں سمادھیاں محض کھنڈر اور ڈھانچہ دکھائی دیتی تھیں۔ عصر حاضر میں گریٹر اقبال پارک کی تعمیرات کے ساتھ ان عمارات کی بھی مرمتیں لگ رہی ہیں۔

بھائی وستی رام کی سمادھ کے بعد کچھ دیگر سمادھیاں بھی تعمیر ہوئیں جس کے باعث ایک عرصہ تک یہ سمادھیاں‘ دھرم شالہ بھائی وستی رام کے نام سے مشہور رہیں۔ سوہن لال نے بھی اس جگہ کو دھرم شالہ ہی تحریر کیا ہے۔ تقسیم سے قبل یہ عظیم ا لشان خوبصورت سمادھیاں قلعے کی فصیل کے ساتھ کسی خوبصورت پھول کی مانند دکھائی دیتی تھیں۔ اس سمادھ کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص213) پر یوں تحریر کیا ہے۔

’’یہ عالی شان مکان قلعہ ‘ لاہور کی شمالی دیوار کے ساتھ ملا ہوا ہے اور عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ مکان کا بیرونی دروازہ بہ جانب شمال ہے۔(صفحہ 205) جب اس سے اندر جائیں تو ایک وسیع میدان آتا ہے۔ اس کے وسط میں مبادہ خاص کا مکان بنا ہوا ہے۔ خاص سمادھ کے مکان کا دروازہ بہ جانب شمال کے رکھا گیا ہے اور دروازے کے آگے چبوترے کے نیچے مکان حوض کے طور پر بنا کر اس میں فوارے لگائے گئے ہیں۔ باہر کی دیواروں کی عمارت سب سنگ مرمر کی ہے جس پر طرح طرح کے بیل بیوٹے بنے ہوئے ہیں۔ اندر سے مکان کی صورت‘ دربار امرتسر کی صورت پر بنی ہے۔ چار درجے چار اطراف میں بانٹے گئے ہیں جن کو دو منزلہ کیا گیا ہے اور اوپر کی منزل پر چاروں طرف چارنشست گاہیں سنگین ستون کی‘ تین تین در والی بنائی گئی ہیں ۔ دہن سب کے مرغولی ہیں۔ نیچے اور اوپر کی چھتیں ان کی بھی محرابی قالبوتی نہایت عمدہ منقش بہ نقوش طلا بنی ہیں۔

وسط کا درجہ بلند ہے۔ اس پر قالبوتی سقف خوش نما ہے۔ اسی درجے میں بھائی وستی رام کی سمادھ سنگین و منقش چبوترے پر ہے۔ اس چبوترے و سمادہ پر سنگ مرمر کے اندر قیمتی پتھروں کے بیل بوٹے ایسی خوبصورتی کے ساتھ بنائے گئے ہیں کہ جس کو دیکھنے سے روح کو راحت نصیب ہوتی ہے۔

مکان اندر باہر سے سنگ مرمر کا نہایت مقطع و خوبصورت بنا ہے جس کی تیاری میں بے شمار روپیہ صرف کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دواور سمادھیں گنبد دار سنگ مرمر کی ہیں ۔ یہ عورتوں کی سمادھیں ہیں۔ ان میں سے جو سمادھ بھائی وستی رام کی والدہ کی ہے وہ تمام سرتا پا سنگ مرمر کی ہے اور سمادھیں پختہ چونہ گچ بھی ہیں۔ سمادھ کلاں سے بہ جانب مشرق ایک مکان بارہ دری پختہ و مکلف بنا ہے اور گوشۂ ککی میں چاہ ہے۔ چبوترے سے الگ ایک خرد چبوترہ ہے جس پر جھنڈا نصب ہے۔ اور جنوب کی طرف محاذی بڑی سمادھ کے ایک نشت گاہ مکلف بنی ہے۔ اس احاطے کے چند درخت بہی‘ آم وغیرہ کے ہیں۔ ایک باغ بھی دیوار بہ ودیوار احاطہ میں سمادھ کے ہے جو اسی سمادھ کے متعلق ہے۔‘‘

عہد حاضر میں لاہور ریلوے اسٹیشن سے سرکلر روڈ ہوتے قلعہ لاہور کی جانب بڑھیں تو قلعے کی فصیل کے ساتھ شمال سیدھ میں ایک باغ یا سر سبز میدان گوردوارہ ڈیرہ صاحب تک جاتا ہے جس کے ساتھ کبھی کرکٹ کا ایک اسٹیڈیم ’’عتیق اسٹیڈیم‘‘ ہوا کرتا تھا۔

اس باغ کے ابتدا میں شمال مشرق سیدھ میں جھینگر شاہ ستھرا کی سمادھ ہے اور اس سے کچھ گز کے فاصلے پر شمال مغرب سیدھ میں بھائی وستی رام کی سمادھ کا چبوترہ ہے جس پر آج کل مرمتیں آخری مراحل میں ہیں۔ اس سمادھ کا احاطہ جھینگر شاہ ستھرا کی سمادھ کے مقابلے میں کافی وسیع و عریض ہے۔ سمادہ کے ڈھانچے میں چاروں جانب سے داخلی دروازے آج بھی اپنے پرانے رنگوں کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔ سمادھ کی دیواروں اور پہلی منزل میں موجود جھروکے ، چھجے اور دالان اپنی تعمیر میں خاص مغل اور ہندوانہ طرز سے مزین ہیں۔ عمارت کی کچھ جگہوں پر آج بھی کاشی اور پچی کاری کے ساتھ پھول بوٹے نظر آتے ہیں جو اس کی شان کی گواہی بھی د یتے ہیں۔

داخلی دروازے سے اندر داخل ہوں تو اندرونی دیواریں جگہ جگہ سے جلی ہوئی‘ کالے نشانوں سے بھری دکھائی دیتی ہیں۔ دروازے کی دائیں جانب میں کاشی کاری کا ایک انتہائی خوبصورت نمونہ دکھائی دیتا ہے جس میں ایک خاتون کی شبیہہ واضح دیکھی جا سکتی ہے۔ سمادھ کی اندرونی عمارت میں ہندوانہ طرز تعمیر کے ساتھ خاص سکھی طرز تعمیر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ دیواروں کی تعمیر میں پالکی کا طرز تعمیر نمایاں ہے۔ اندر کی غلام گردشوں میں کاشی کا اونچے درجے کا کام دیکھنے کو ملتا ہے جو کہ انتہائی خستہ حالی میں ہے۔ چھت کی نچلی سطح پر شیشے کا خوبصورت کام آج بھی دل کو لبھاتا ہے۔ چھت کی نچلی سطح پر ایک پچی کاری کے پھول میں ایک حیران کن چیز دیکھنے کو ملتی ہے۔

اس کے ایک شیشے میں تعویذ کا نقش تحریر ہے جس سے ہم اس وقت ہونے والے تعویذ دھاگے کے کام کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سمادھ کی جنوب مغرب سیدھ میں تین دیگر سمادھیاں اپنی بنیادوں اور چبوتروں کے ساتھ موجود ہیں ۔ بدقسمتی سے ان کے اوپر کوئی گبند، مکان اور باہر کی جانب کوئی حوض دکھائی نہیں دیتا۔ حوالہ جاتی کتب میں درج دھرم شالہ مکان کی گواہی ان تمام سمادھیوں کی بنیادوں کو دیکھ کر ملتی ہے۔ اگر آرکیالوجی کے جدید طریقوں کو استعمال کر کے اس کے ار دگرد کی جگہوں کی کھدائی کی جائے تو عین ممکن ہے کہ کچھ دیگر قدیم مکانات کے نشان بھی مل جائیں۔ اپنے آپ میں کئی کہانیاں سنبھالے یہ سمادھ بربادیوں کی داستان بھی سناتی ہے۔

خاص بھائی وستی رام کی سمادھ کے علاوہ دیگر نشانات کے احوال کچھ اتنے بہتر نہیں ہیں۔ دیگر سمادھیوں کے بچے کھچے نشانات سانحہ بابری مسجد کے بعد مکمل طور پر ختم کر دیے گئے۔ بھائی وستی رام کی سمادھ کا چبوترہ بنیادوں سے اکھاڑ دیا گیا ۔ اندرونی دیواروں کو جلا دیا گیا ۔ سمادھی کے چبوترے کی بنیادوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی از سر نو مرمتوں کا کام جاری ہے۔ لیکن جب تک ہم کلی طور پر تاریخ‘ ثقافت‘ زبان کو دل سے نہیں قبول کریں گے اس وقت تک ترقی کے نام پر جاری ثقافتی وتاریخی بربادی جاری رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔