ٹارگٹ کلنگ سمیت اہم مقدمات کے ملزم قانون کی گرفت سے دور

کاشف ہاشمی  اتوار 22 اپريل 2018
 مراعات یافتہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ متاثر کن کارکردگی دکھانے میں ناکام۔ فوٹو: فائل

 مراعات یافتہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ متاثر کن کارکردگی دکھانے میں ناکام۔ فوٹو: فائل

کراچی: محکمہ سندھ پولیس کا سب سے اہم ترین شعبہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) تمام تر مراعات وصول کرنے کے باوجود وہ متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا جس کی اس سے امیدیں وابستہ تھیں۔

سی ٹی ڈی پولیس رواں سال کے دوران چائنیز کمپنی کے ایم ڈی اور پولیس اہلکار کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگا سکی بلکہ اب تک اس بات کا بھی تعین نہیں کر سکی کہ ٹارگٹ کلنگ کی ان وارداتوں کے پیچھے کونسا گروپ ملوث ہے۔ اس کے علاوہ انویسٹی گیشن پولیس کی جانب سے بھی تسلی بخش کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا، جس کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ کی اہم وارداتوں میں ملوث ملزمان تاحال قانون کی گرفتار سے آزاد ہیں۔

رواں سال کے دوران شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور دیگر اہم واقعات میں تفتیش کرنے والے سی ٹی ڈی اور انویسٹی گیشن پولیس ایک بھی کیس حل کرنے میں ناکام رہے۔ پولیس اہلکار، شیپنگ کمپنی کے چائنیز ایم ڈی ، سیاسی تنظیم کے اہم رہنما سمیت دیگر افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، جس میں پولیس اہلکار اور چائنیز کمپنی کے ایم ڈی کی سر عام ٹارگٹ کلنگ کی تحقیقات سی ٹی ڈی کو سونپی گئی جبکہ قتل کی دیگر وارداتوں کی تحقیقات انویسٹی گیشن پولیس کر رہی ہے تاہم پولیس تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک ان واقعات میں ملوث ملزمان اور ان کے اسباب کا حتمی تعین نہیں کرسکی۔

رواں سال گلبرگ کے علاقے میں 12جنوری کو نامعلوم دہشتگردوں نے پولیس اہلکار شاکر علی کو اس وقت ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جب وہ موٹر سائیکل پر ڈیوٹی دینے ایس ایس پی سینٹرل کے آفس جا رہا تھا۔ اس واقعے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانے میں درج کیا گیا اور تحقیقات بھی سی ٹی ڈی کے پاس ہے۔ اس کیس کی اہم بات یہ ہے کہ پولیس اہلکار کو ٹارگٹ کرنے کی باقاعدہ وڈیو بنائی گئی۔ بعدازاں یہ وڈیو منظر پر آئی اور پولیس صرف فوٹیج ہی دیکھتی رہی لیکن اس واردات میں ملوث دہشت گرد تاحال قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔

اسی طرح 14 جنوری کو ابراہیم حیدری کے علاقے سے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی کار سے لاش ملی تھی اور اس پراسرار قتل کا بھی انویسٹی گیشن پولیس تاحال سراغ نہیں لگا سکی۔

اس حوالے سے انویسٹی گیشن افسر ارشد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے قتل کا معمہ حل نہیں ہو سکا میڈیکل رپورٹ میں تعین ہوا تھا کہ ان کی موت طبعی واقع ہوئی تھی جس کی وجہ سے پولیس نے واقعے کا مقدمہ بھی درج نہیں کیا جبکہ سچل کے علاقے میں کار پر فائرنگ کر کے امیر علی کو قتل کیا گیا، جسے پولیس فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ قرار دے رہی ہے تاہم اس واردات میں ملوث ملزمان کا بھی انویسٹی گیشن پولیس سراغ لگانے میں ناکام رہی۔

5 فروری کو بوٹ بیسن کے علاقے میں نجی شپنگ کمپنی کے چائنیز ایم ڈی کو نامعلوم ملزمان نے سر راہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ واقعے کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جا نب سے مذکورہ واقعے کی تحقیقات سی ٹی ڈی کے انسپکٹر راجہ عمر خطاب کو سونپی گئی اور انھوں نے تحقیقات کے دوران یہ دعویٰ کیا کہ مذکورہ معاملہ ٹارگٹ کلنگ نہیں بلکہ شیپنگ کمپنی کا اندرونی معاملہ تھا، تاہم اس کے باجود وہ اب تک یہ بتانے سے قاصر ہیں ہے کہ چائنیز ایم ڈی کے قتل میں ملوث ملزم کون ہیں اور ان کے مقاصد کیا تھے؟

انسپکٹر راجہ عمر خطاب تاحال اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں اور وہ اب تک چینی باشندے کی ٹارگٹ کلنگ کی تفتیش میں کوئی اہم کامیابی حاصل کرنے سے قاصر رہے۔ 23 مارچ کو اورنگی ٹاؤن کے علاقے اقبال مارکیٹ میں ایم کیو ایم پاکستان کے کونسلر انیس صدیقی کو نامعلوم ملزمان نے ان کی بیٹھک میں گھس کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور موقع سے فرار ہوگئے۔ اس مقدمے کا ملزمان کا بھی آج تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

سوال یہ ہے کہ سی ٹی ڈی یا انویسٹی گیشن پولیس دیگر ادارے قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام مراعات کے باوجود اپنا حقیقی کام کب شروع کریں یا پھر ان کی ناقص کارکردگی پر باز پرس کون اور کب کرے گا؟

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔