مدیحہ گوہر کی کمٹمنٹ

زمانہ طالب عملی میں تھیٹر ڈراموں میں شروع ہونے والی ان کی وابستگی مرتے دم تک برقرار رہی۔


Editorial April 27, 2018
زمانہ طالب عملی میں تھیٹر ڈراموں میں شروع ہونے والی ان کی وابستگی مرتے دم تک برقرار رہی۔ فوٹو: فائل

اس دارفانی میں کسی کا مستقل ٹھکانہ نہیں، ہر ایک کوکُوچ کر جانا ہے، مدیحہ گوہر بھی چلی گئیں، لیکن فن و ثقافت کی دنیا میں ان کا نام اور کام امر ہو گیا، جس شان سے وہ زندہ رہیں، وہ شان ہی نرالی تھی۔ فن اورنظریے سے وابستگی ان کو اپنی والدہ ممتاز قلمکارہ خدیجہ گوہر سے وراثت میں ملی۔ زمانہ طالب علمی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی ڈرامیٹک سوسائٹی جی سی ڈی سی اورکنئیرڈ کالج کی خواجہ ناظم الدین ڈرامیٹک سوسائٹی کی صدر رہیں۔

یونیورسٹی آف لندن سے تھیٹر ڈائریکشن میں ماسٹرزکی ڈگری بھی حاصل کی اور 1984ء میں اپنے شوہر ڈرامہ نگار شاہد محمود ندیم کے ساتھ مل کر اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی، تین درجن سے زائد اسٹیج ڈرامے پروڈیوس اینڈ ڈائریکٹ کیے۔ اپنے گروپ کے ساتھ بھارت، امریکا، برطانیہ، ایران اور بنگلادیش سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پاکستان کی نمایندگی کی۔

شاندار ثقافتی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں 2003ء میں ستارہ امتیاز جب کہ نیدر لینڈز کی حکومت نے انھیں 2006ء میں پرنس کلاس ایوارڈ سے نوازا۔ 2014ء میں حکومت پاکستان نے انھیں فاطمہ جناح ایوارڈ بھی عطا کیا۔

زمانہ طالب عملی میں تھیٹر ڈراموں میں شروع ہونے والی ان کی وابستگی مرتے دم تک برقرار رہی۔ بطور سماجی کارکن انھوں نے ویمن ایکشن فورم کے پلیٹ فارم سے حنا جیلانی، عاصمہ جہانگیر، روبینہ سہگل سمیت دیگر کے ہمراہ صنفی امتیاز کے خلاف پوری توانائی سے آواز بلند کی۔

سماج میں تبدیلی لانے کے لیے انھوں نے تھیٹر کے طاقتور میڈیم کو چنا، ان کے ڈراموں میں برابری، انصاف، برداشت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ صنفی مساوات کے خاتمے کی جدوجہد بھی مثالی تھی۔ ایک ذہین، محنتی فنکارہ کی موت المیہ ہے، آہ! فن و ثقافت کا روشن ستارہ ڈوب گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں