رزق میں برکت کے اسباب

’’دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرایع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں۔‘‘ (الزخرف)


April 27, 2018
’’دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرایع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں۔‘‘ (الزخرف)۔ فوٹو: فائل

رزق اللہ تعالٰی کی ایسی نعمت ہے، جس کی تقسیم کا اختیار اللہ تعالٰی نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد کا مفہوم ہے : '' اللہ تعالٰی تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔'' (الذاریات)

اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو کشادہ اور وسیع رزق عطا کرتا ہے، اور بعض لوگوں کے رزق میں تنگی فرما دیتا ہے۔ ایک منظم ضابطے کے مطابق اللہ تعالٰی تمام مخلوقات کو اپنے وقت پر رزق پہنچاتا ہے، چاہے وہ زمین پر چلنے اور رینگنے والے جان دار ہوں، یا ہوا میں اْڑنے والے پرندے ہوں۔ نہ سمندر کی تاریکیوں میں بسنے والے جان دار اللہ تعالٰی کی نگاہ سے اوجھل ہیں، اور نہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسیرا کرنے والوں کو اللہ تعالٰی بھول جاتے ہیں۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے، مفہوم : '' اور زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے، جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔'' (ھود)

ہم لوگ رزق صرف کھانے کی چیزوں کو کہتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، بل کہ رزق اللہ تعالٰی کی دی ہوئی ہر نعمت کو کہتے ہیں، چاہے وہ صحت ہو، علم ہو، اخلاق ہو، عمل ہو، نیک بیوی اور اولاد ہو، مال ہو، دلی اطمینان ہو، یا پھر امن کی نعمت ہو۔ اللہ تعالٰی کی بے شمار نعمتوں میں سے ہر نعمت پر رزق کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو، تو اْنہیں شمار نہیں کرسکتے۔'' (النحل)

یہ اللہ تعالٰی کی حکمت ہے، کہ رزق کی تقسیم میں لوگ مختلف ہیں۔ بعض کو وہ اپنی حکمتِ بالغہ کی وجہ سے زیادہ اور بعض کو کم دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: '' اور اللہ تعالٰی نے تم میں سے کچھ لوگوں کو رزق کے معاملے میں دوسروں پر برتری دے رکھی ہے۔'' (النحل)

''دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرایع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں۔'' (الزخرف)

اِس حقیقت کو سمجھنے کے بعد بہت سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں، نہ کسی سے حسد ہوتا، نہ دشمنی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، نہ اپنے آپ کو حد سے زیادہ مشقت میں مبتلا کرنا پڑتا ہے، اور نہ رزق کو تلاش کرنے کے لیے غلط راستوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔

حلال طریقے سے رزق طلب کرنا بھی اللہ تعالٰی کی اطاعت ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، یہاں عقائد بھی دین ہیں، شعائرِ تعبدیہ (نماز، روزہ، زکوہ اور حج) بھی دین ہیں، معاملات بھی دین کا حصہ ہیں، معاشرت بھی دین میں شامل ہے اور اخلاقیات بھی دین کا ایک اہم جز ہے۔ لہذا رزق ِ حلال کمانا بھی دین ہے۔ حلال رزق کمانا تقدیر کے خلاف نہیں ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے، کہ ایک حسین نوجوان وہاں سے گزرے۔ ہم نے آپس میں کہا: کہ کاش! یہ اپنی جوانی کو اللہ کے راستے میں لگاتے۔ اللہ تعالٰی کے رسولؐ نے جب ہماری بات سنی، تو فرمانے لگے: ''جو اپنے والدین کی خدمت میں لگا ہوا ہے، وہ اللہ تعالٰی کے راستے میں ہے، جو اپنے اہل و عیال کے لیے کمانے کی کوشش کر رہا ہو، وہ اللہ تعالٰی کے راستے میں ہے، اور جو اپنے اوپر خرچ کرنے کے لیے محنت کر رہا ہو، وہ بھی اللہ تعالٰی کے راستے میں ہے۔'' ( السنن الکبری للبیہقی)

لہذا جو روزی کمانے کے لیے اپنے گھر سے کسی عمل، ڈیوٹی یا تجارت کی غرض سے نکلا، وہ اللہ کے راستے میں ہے۔ اللہ تعالٰی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روزی کمانے کے لیے بکریاں چرائیں، کھیتی باڑی اور تجارت کی ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا، مفہوم : '' جبرئیل علیہ السلام نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی، کہ کسی کو اْس وقت تک موت نہیں آسکتی، جب تک وہ اپنا رزق پورا نہ کرلے، اگرچہ کبھی رزق ملنے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ لہذا اللہ سے ڈرتے ہوئے اچھے طریقے سے رزق طلب کرو۔ رزق کی تاخیر تمہیں گناہ پر آمادہ نہ کرے، اِس لیے اللہ تعالٰی کے پاس جو رزق ہے، اْسے صرف اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔'' (مسند البزار)

رزق میں برکت کے اسباب: دنیا میں ہر انسان کشادہ رزق کے لیے کوشاں رہتا ہے، لیکن بسا اوقات اْسے پوری طرح کام یابی نہیں ملتی۔ قرآن اور حدیث میں بعض اعمال کو رزق کی ترقی کے لیے بہترین سبب قرار دیا گیا ہے۔ اْن اعمال میں بعض کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔تقوی اختیار کرنا: انسان کو جب دولت کی فکر لاحق ہوتی ہے، تو بعض اوقات وہ حلال اور حرام کی تمیز کیے بغیر ہر قسم کے مال اور رزق کو جمع کرنے اور اْسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چناں چہ وہ سود، جوا، رشوت، ناپ تول میں کمی اور اجتماعی اموال کو ہڑپ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ لیکن وہ اِس ساری تگ و دو میں یہ بات بھول جاتا ہے، کہ اللہ تعالٰی نے مال اور رزق میں برکت کو تقوی کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ یہی وجہ ہے، کہ بہت ساری غلط کوششوں کے باوجود بھی بعض لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔

اللہ تعالٰی کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ تعالٰی اْس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرے گا، اور اْسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا، جہاں سے اْسے گمان بھی نہیں ہوگا۔'' (الطلاق)

شکر ادا کرنا: شکر کی توفیق کی ایسی نعمت ہے، کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالٰی دیگر نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' اور وہ وقت بھی یاد کرو، جب تمہارے پروردگار نے اعلان فرما دیا تھا، کہ اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا، تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔ (ابراہیم) یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے، کہ اللہ تعالٰی نے شکر کو حلال مال کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ چناں چہ فرماتا ہے: '' اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں رزق کے طور پر عطا کی ہیں، اْن میں سے (جو چاہو) کھائو۔ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔'' (البقرۃ)

صلۂ رحمی: رزق میں برکت اور پْرسکون زندگی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب صلۂ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتائو کرنا بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: '' جو چاہتا ہے کہ اْس کا رزق کشادہ ہوجائے، اور اْس کی عمر لمبی ہوجائے، تو اْسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔ (متفق علیہ) صلۂ رحمی ایسی عظیم صفت ہے جس کی وجہ سے آدمی پر رزق کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں، اور اْس میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ (شرح مسلم للنووی)

صدقہ کرنا: اسلام میں صدقہ کرنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے، اِس کی وجہ سے رزق میں برکت ہوتی ہے، اور صدقہ اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو صدقہ کرنے والے کی طرف کھینچتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: '' اللہ تعالٰی فرماتا ہے، خرچ کرو، تم پر خرچ کیا جائے گا۔'' (متفق علیہ)

عمل صالح: مسلمان کا ہر نیک عمل اْس کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا ذریعہ ہے۔ نیک عمل سے آدمی کی آخرت تو بنتی ہے، اْس کے ساتھ دنیا بھی سنور جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' پھر جو لوگ ایمان لائے ہوں گے، اور انہوں نے نیک عمل کیے ہوں گے، اْن کو ان کا پورا پورا ثواب دے گا، اور اپنے فضل سے اسے زیادہ بھی دے گا۔ (النساء)

محمد کامران ہوتی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں