گھٹیا پن کا بڑا پن

اگر یہی جماعتیں الیکشن لڑکر وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بنالیتی ہیں تو ملک و قوم کا اللہ ہی حافظ ہے!


پورے ملک کے چپے چپے پر کرپٹ حکمرانوں، سیاستدانوں اور اِن کے چیلے چانٹوں نے اپنے شکنجے گاڑ رکھے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج جہاں پچھلے کئی ماہ سے سابق وزیراعظم نوازشریف کی زبان سے ''مجھے کیوں نکالا؟'' کی گردان سُنتے سُنتے قوم کے کان پک گئے ہیں، وہیں ارضِ مقدس پاکستان میں عام انتخابات ہونے میں بھی صرف چند ماہ رہ گئے ہیں اور الیکشن سے قبل بہت سے فتنہ نما نئے ایشوز بھی پھن پھیلائے اور سر اُٹھائے سامنے آرہے ہیں جن کی بے وقت کی راگنی اپنے آپ میں بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔

ایسے میں غالب گمان یہی ہے کہ جیسے اِن فتنوں کے پیچھے جیت کی اُمید لگائے ایک بڑا سیاسی گروہ ہے جو اِس مرتبہ کئی سیاسی فتنوں کو ہوا دینے کے ساتھ مُلک میں نئے صوبے بنانے کا نعرہ لگا کر اپنی جیت کو یقینی بنانے کا پروگرام لیے، الیکشن کے اکھاڑے میں اُترنا چاہ رہا ہے۔ چلیے تھوڑی دیر کو مان بھی لیا جائے کہ مُلک میں نئے صوبے کا قیام اتنا آسان نہیں جتنا کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں، مگر وہیں یہ بھی تو ٹھیک ہے کہ جب مُلک میں چار صوبوں کے ساتھ ایک اکائی ستر سال سے قائم ہے تو پھر یہی اکائی چار کی جگہ پانچ، چھ اور سات صوبوں کے ساتھ بھی قائم رہ سکتی ہے۔ اَب اِس بنا پر بہت ضروری ہوگیا ہے کہ مُلک میں جنوبی صوبہ پنجاب کی طرح صوبہ سندھ میں بھی کراچی کو صوبے کا درجہ دے کر خیبر پختونخواہ میں بھی کئی نئے صوبے بنائے جائیں تاکہ انتظامی اُمور بہتر انداز سے چلائے جاسکیں۔

اِس سے اِنکار نہیں کہ آج مُلک کی دوبڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی، عوام الناس میں اپنا وقار اور اعتماد ختم کرچکی ہیں جبکہ پی ٹی آئی اپنے بچگانے پن کی وجہ سے خود کو ابھی تک عوام الناس میں اُس طرح متعارف نہیں کراسکی ہے جس طرح 21 کروڑ آبادی والے مُلک کے سنجیدہ اور سیاسی شعور رکھنے والے شہری پی ٹی آئی سے اُمید لگائے ہوئے ہیں؛ کیوں کہ (ن) لیگ اور پی پی پی کو تو عوام الناس نے متوقع الیکشن سے پہلے ہی اِن کے ظاہری و پوشیدہ سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے رد کردیا ہے تو وہیں عوام پی ٹی آئی سے بھی اِس کے غیرسنجیدہ سیاسی رویوں کی بناء پر کچھ بہتری کی اُمید نہیں رکھتے۔

سوچیے کہ اگر یہی تینوں جماعتیں پھر الیکشن لڑتی ہیں اور یہی تینوں مل کر وفاق اور صوبوں میں اپنی حکومتیں بنالیتی ہیں تو پھر مُلک اور قوم کا تو اللہ ہی حافظ ہے!

تاہم اِس میں شک نہیں کہ آج سندھ اپنی تاریخ کے بدحال ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اِسے اِس حال تک پہنچانے والا کوئی اور نہیں... جان لیجیے کہ صوبہ سندھ کی تباہی کے ذمہ دار صرف اور صرف زرداری اور پی پی پی والے ہیں جنہوں نے گزشتہ دس سال کے دوران سوائے اپنی خوشحالی کے صوبے کے گاؤں دیہاتوں اور کراچی سمیت دیگر شہروں کی ترقی کےلیے رتی بھر کام بھی نہیں کیا، جس سے عوام کا زرداری اور پی پی پی پر سے اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ اِس کے بہت سے محرکات ہیں، جیسے کہ صوبے کے بجٹ اور اِس کے وسائل پر پی پی پی اور زرداری نے پنجے گاڑ رکھے ہیں تو دوسری جانب وفاق نے بھی صوبہ سندھ اور شہر کراچی کو کھنڈر بنانے میں اپنا حصہ ثوابِ دارین سمجھ کر، بڑھ چڑھ کر ڈالاہے۔

کیا آپ اِسے سیاسی گھٹیا پن کا بڑاپن نہیں کہیں گے؟

غرضیکہ آج وفاق اور سندھ کی صوبائی حکومت نے مل کر صوبے کو بدحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وفاق اور صوبائی انتظامیہ کی سیاسی چپقلش میں صوبہ سندھ کے، بنیادی ضرورتوں سے محروم، عوام پس رہے ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ دونوں کو اپنی سیاست چمکانے اور اگلے متوقع انتخابات میں اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے اپنی جیت کی پڑی ہے۔ یعنی دو بڑی سیاسی بھینسوں کی لڑائی میں مینڈک کچلے جارہے ہیں۔

بہرکیف، یہاں راقم الحروف کو کہہ لینے دیجیے کہ پہلے ہی سیاست دانوں نے مُلک اور قوم کا کیا کم ستیاناس کیا ہے جو آج کل مُلک میں نادیدہ و طلسماتی قوتوں اور خلائی مخلوق کا بھی تذکرہ زور پکڑ گیا ہے۔ ارضِ مقدس کو کرپٹ حکمران اورسیاستدان چھوڑیں گے توکو ئی دوسرا مُلک و قوم کا بیڑاغرق کرنے کا بیڑا اٹھائے گا۔

سوچیے، ایسے میں کہ جب پورے مُلک کے چپے چپے پر کرپٹ حکمرانوں، سیاستدانوں اور اِن کے چیلے چانٹوں نے اپنے شکنجے گاڑ رکھے ہیں تو بھلا اِس صورتِ حال میں کسی اور کا بس کیسے چل سکتا ہے کہ کہیں سے کوئی نادیدہ و طلسماتی قوت اور خلائی مخلوق مداخلت کرے؟ قومی خزانے کو لُوٹ کھانے اور مُلک و قوم کو پستی میں دھکیلنے والے ہمارے سِول جمہوری حکمران اور سیاستدان ہیں۔ اِن کے ہوتے ہوئے کوئی آمر نما نادیدہ اور طلسماتی قوت یا خلائی مخلوق کچھ نہیں کرسکتی۔ اگر بالفرض کسی نادیدہ قوت کو کچھ کرنا بھی پڑا تو اِس کا ہاتھ اِن ہی کرپٹ حکمرانوں، سیاستدانوں اور اِن کے چیلوں چانٹوں کے گریبانوں تک ہی جائے گا۔

آج کل نااہل قرار دیئے گئے سابق وزیراعظم اور (ن) لیگ کے سربراہ محمد نواز شریف اور اِن کے اہلِ خاندان، سیاست میں گھٹیا پن کے جس بڑے پن کا جیسا مظاہرہ کررہے ہیں، اِس کی بھی مثال پچھلے سترسال میں نہیں ملتی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ تین بار وزیراعظم کے منصبِ خاص پر فائز رہنے والے اپنی نااہلی کے فیصلے کے بعد اِس درجے نیچے بھی گرسکتے ہیں کہ جہاں پہنچ کر کوئی غیرت مند زندہ رہنا گوارہ نہیں کرتا۔ مگر اَب اُس کا کیا کیا جائے جو سیاست میں خودرو جھاڑی کی طرح آسیبوں کی گود کا پلا ہو اور جس کی گھٹی میں ہی سیاسی گھٹیا پن رچا بسا ہو۔

آج وقتِ نزع سے گزرتی ہوئی (ن) لیگ کی رواں حکومت نے پانچ سال میں عالمی مالیاتی اداروں سے جتنے قرضے لیے ہیں، آئندہ اس کا خمیازہ تو آنے والی حکومت اور پاکستانی قوم ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ قوم کو قرضے لے کر گروی رکھنے والی (ن) لیگ کا یہ کہنا ہے کہ یہ اپنے قیام کے اول روز سے ہی سیاسی تناؤ کا شکار رہی اور اِسے سکون سے کام ہی نہیں کرنے دیا گیا تو یہ کیا کچھ مُلک اور قوم کےلیے بہتر کرتی، اِس کی ٹانگ کھینچی گئی۔ یوں جیسے جیسے دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سال سے سالہاسال میں بدلتے رہے، یہ معاشی و اقتصادی اور سیاسی طور پر مسائل کی دلدل میں دھنستی ہی چلی گئی۔ آج پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت جاتے جاتے بھی نفسیاتی و سیاسی دباؤ تلے ہی دبی ہوئی ہے۔

اَب جب کہ اِس حکومت کی مدت ختم ہونے میں چند ہی روز رہ گئے ہیں تو یہ عوام کو لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سمیت کسی بھی معاملے میں کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اِس پر بھی (ن) لیگ کا آج تک یہی دعویٰ ہے کہ ہم نے عوام کو اِس کے خوابوں کی حسین تعبیر دے دی ہے اور اگلا اقتدار بھی (ن) لیگ کا ہے۔ کیا اِس کا یہ کہنا اور ہمارا یہ سُننا انتہائی معنی خیز نہیں لگتا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں