سیاسی نظر بندی کا کھیل
یہ ’’سیاسی نظر بندی‘‘ کا سلسلہ قیام پاکستان سے جاری ہے۔
جلسہ کسی پارٹی کا ہو آج کل عوام کی ایک بڑی تعداد جلسوں میں شریک نظر آتی ہے اور عوام کی اس بھاری تعداد میں شرکت کو سیاسی رہنما اپنی اور اپنی پارٹی کی مقبولیت بتاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی سیاسی فضا میں عوام سیاست سے دلچسپی لے رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کل ہونے والے جلسوں میں عوام اپنی مرضی اور خوشی سے شرکت کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کو ہم ایک اوپن سیکریٹ کہہ سکتے ہیں۔
برسر اقتدار جماعت کے بارے میں اس حوالے سے دو رائے ہیں ایک رائے کے مطابق حکمران طبقات اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایزکو ٹارگٹ دے دیتے ہیں کہ وہ اتنی بسیں بھر کر جلسے میں لے آئیں ورنہ ایکشن لیا جائے گا۔
اس حوالے سے دوسری رائے یہ ہے کہ جلسوں میں عوام کو لانے کا کام باضابطہ ٹھیکیداری سسٹم کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ہر علاقے میں ٹھیکیدار ہوتے ہیں جو بھاری معاوضے پر جلسوں میں عوام فراہم کرتے ہیں۔ اس حوالے سے تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ذات برادری کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ذات برادری وغیرہ کی سربراہوں کو کسی نہ کسی حوالے سے تیار کر لیا جاتا ہے کہ وہ جلسوں کو کامیاب بنانے میں تعاون کریں۔
جلسوں میں بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے شرکت کرنے والے عوام وہ ہوتے ہیں جو موروثی حکمرانوں کی حکمرانیوں سے تنگ آئے ہوئے ہوتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ موروثی حکمرانوں،بے فائدہ حکومتوںسے نجات حاصل کی جائے اور نئے رہنماؤں کو موقع دیا جائے کہ وہ ملک و ملت کے مفاد میں کیا کرتے ہیں۔ جلسے جلوس گو پسماندہ ملکوں کی عام روایت ہے لیکن پاکستان اس حوالے سے سرِ فہرست اس لیے ہے کہ یہاں حکومتوں کی کارکردگی صفر ہے اور اس کمزوری کو بھاری جلسوں میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ اس حوالے سے رات دن عوام کو ترقی کی ایسی داستانیں سناتا ہے کہ عوام اس ترقی کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن وہ نظر نہیں آتی۔ کیونکہ عملی زندگی میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ترقی کا مطلب عوام کی زندگی اور معیار زندگی میں بہتری ہوتا ہے۔اس حوالے سے جب ہم حقائق کا جائزہ لیں تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
عوام کی زندگی میں بہتری کا مطلب ایک آسودہ اور خوشحال زندگی ہوتا ہے لیکن ہمارے عوام کا اس حوالے سے تصور یہ ہے کہ دال روٹی، پیاز روٹی کے بجائے روز نہ سہی کبھی کبھی گوشت کے استعمال کا موقع ملے لیکن جب وہ چھ سو روپے کلو گوشت کا تصور کرتے ہیں تو ان کی ساری خواہشیں دھڑام سے زمین پر آ جاتی ہیں۔
عوام کی زندگی میں بہتری کے لیے دو عوامل بہت اہم ہیں۔ ایک مہنگائی کا خاتمہ، دوسرا تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ ان دو عوامل پر نظر ڈالیں تو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا ہماری حکومتوں کی کارکردگی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ صبح 50 روپے کلو بیچی جانے والی سبزی شام میں 100 روپے کیوں فروخت ہوتی ہے، آج 200 روپے کلو بیچی جانے والی مرغی کل تین سو روپے کلو کیوں فروخت ہوتی ہے۔
بلا شبہ یہ کام نہ کسی وزیراعظم کا ہوتا ہے نہ وزیراعلیٰ کا کہ وہ روز صبح سبزی گوشت کی قیمتوں کا جائزہ لے یہ کام محکمہ پرائس کنٹرول کا ہوتا ہے کہ وہ دیکھیے ایک دن 200 روپے کلو فروخت ہونے والی مرغی دوسرے دن 300 روپے کلو کیوں فروخت ہو رہی ہے۔ صبح 30 روپے کلو فروخت ہونے والا ٹماٹر شام میں 60 روپے کلو کیوں فروخت ہو رہا ہے۔ اب رمضان شروع ہو رہے ہیں جس میں آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی ہماری سالانہ روایت کا حصہ ہے۔ برسوں سے رمضانی مہنگائی کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کی ذمے داری بلا شبہ پرائس کنٹرول کمیشن پر عائد ہوتی ہے، لیکن اس قسم کے ادارے اس وقت کرپشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب اعلیٰ سطح سے ان کی نگرانی اور باز پرس کا نظام ختم ہو جاتا ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اعلیٰ سطح خود سر سے لے کر پاؤں تک کرپشن میں مبتلا ہو جاتی ہے جس کا مشاہدہ ہم اپنے ملک میں عشروں سے کر رہے ہیں۔ یہ ایک مثال ہم نے اس لیے دی ہے کہ ہمارے ملک میں انتظامیہ کی نا اہلی کا اندازہ ہو سکے۔
عام آدمی خواہ وہ دیہاڑی دار ہو یا تنخواہ دار مہنگائی کی چکی میں برسوں سے پس رہا ہے کیونکہ اس کی محدود آمدنی اس قیامت خیز مہنگائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہمارا حکمران طبقہ غریب طبقات کی اشک شوئی کے لیے سالانہ بجٹ میں تنخواہوں میں 10 فی صد اضافہ کر کے بڑا تیر مارتا ہے۔ حقیقت اس ظالم طبقے کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ تنخواہوں میں دس فی صد اضافے سے ممکن نہیں یہ نوازش بھی تنخواہ دار طبقے تک محدود ہوتی ہے لاکھوں دیہاڑی دار، مزدور اس عنایت خسروانہ سے محروم رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کروڑوں انسان اس ظلم کو خاموشی سے کیوں برداشت کرتے آ رہے ہیں؟ اس سوال کا منطقی جواب یہ ہے کہ حکمرانوں کو عوام منتخب کرتے ہیں! ہم نے اپنے کالم کا آغاز بھی سیاست کاروں کے جلسوں کی حکمت عملی سے کیا تھا یہ جلسے در اصل اس روایتی حکمرانی کے تسلسل کا حصہ ہیں، ہمارے سادہ لوح عوام ہر بار ان شاطروں کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔
ہمارا موجودہ حکمران طبقے کی اہلیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے عوام عشروں سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں کوئی سابقہ حکومت جس میں حالیہ حکومت بھی شامل ہے عوام کا یہ بنیادی مسئلہ حل نہ کر سکی یہ کسی بھی پسماندہ ملکوں میں بھی اس نا اہلیت کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ 30 سالہ حکمرانی کے بعد ہمارے رہنماؤں نے سینہ ٹھونک کر عوام کو یہ بتایا کہ وہ کام بھی جو کسی حکومت نے نہیں کیا ہم نے کر دکھایا یعنی بجلی کی لوڈ شیڈنگ بالکل ختم کر دی۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اب ماضی کی بات ہو گئی؟ ہمارے حکمرانوں کے یہ الفاظ ابھی فضاؤں میں موجود تھے کہ دوبارہ لوڈ شیڈنگ بلکہ پہلے سے زیادہ شدید لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں کالم لکھ رہا ہوں اور پسینے میں شرابور ہوں اور ہمارے عوام؟
اس ظالمانہ سلسلے کو توڑنے کی ذمے داری عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ انجام سے بے خبر جبراً یا رضامندی سے ان کے جلسوں کو کامیاب بنا کر انھیں یہ کہنے کا موقع دے رہے ہیں کہ دیکھو ہم عوام میں کس قدر مقبول ہیں۔
یہ ''سیاسی نظر بندی'' کا سلسلہ قیام پاکستان سے جاری ہے اور عوام اسی غیر ذمے داری اور سادہ لوحی کا مظاہرہ کرتے رہے تو یہ سیاسی نظر بندی کا سلسلہ ابھی مزید ستر سال تک جاری رہ سکتا ہے اور بقول عوام سرکار اور سرکار کے درباری کروڑوں، اربوں میں کھیلتے رہیںگے اور عوام کی قسمت میں دال روٹی اور پیاز روٹی ہی رہے گی۔