ہمت والے

شہلا اعجاز  منگل 22 مئ 2018

گزشتہ چند مہینوں سے ہونے والی اسرائیلی اور امریکی حکمرانوں کی کھچڑی نے رنگ تو دکھانا ہی تھا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ فلسطینی عوام جو پچھلے ستر برسوں سے اپنی زمین کے حصول اور آزادی کی جس جنگ کو لڑ رہے تھے، اب بھی اسی طرح مقصد اور ارادوں میں پکے ہیں ، انھیں توڑنا یا خاموش کرانا اتنا آسان نہیں جتنا کہ انھیں سمجھا جا رہا تھا۔

فلسطینیوں کے خون نے ان تمام تراکیب پر پانی پھیر دیا جس کے تحت ان کے خیال میں بہترین اسکیم کے ذریعے چپ چپاتے سب کر جائیں گے اور کسی کو خبر بھی نہ ہوگی لیکن ایسا ہوا نہیں وہ تمام لوگ جنھوں نے آج اور ماضی میں بھی اپنے حق کی حفاظت میں غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا تھا، اب بھی اپنی صفوں میں ڈٹ کر کھڑے رہے۔

اہل یہود ایک امیر اور مغرور قوم ہے جس پر رب العزت کی جانب سے لعنت کی گئی ہے، ایک طویل عرصے تک اہل یہود دنیا بھر کے ممالک میں چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور تھے، رہی سہی کسر ہٹلر نے پوری کردی تھی کہ ان کی نسلیں زیر زمین سرنگوں اور گٹر لائنوں میں پل کر جوان ہوئی تھیں۔

حضرت داؤد علیہ السلام 1045ق م میں پیدا ہوئے تھے جب آپ تیس برس کے ہوئے تو آپ کو سلطنت ملی ۔ آپ نے چالیس برس تک حکومت کی اور 945 ق م میں آپ کی وفات ہوئی۔ صحرائے سینا میں ایک پہاڑ ہے جس کا نام صہیون ہے حضرت داؤد علیہ السلام نے اس پہاڑ پر خواب میں ہیکل کی شکل دیکھی، ہیکل (معبد) یہودیوں کی عبادت گاہ کوکہتے ہیں، آپ نے اسے تعمیر کرنے کا حکم دیا، آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس معبد کے نقشے اور شکل سے مطلع کیا لہٰذا حضرت داؤد علیہ السلام کے انتقال کے بعد بھی ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس معبد کی تعمیر کا کام جاری رکھا، اس کی تیاری کے لیے لکڑی خاص طور پر لبنان کے صنوبر کے درختوں کی استعمال کی گئی یہ مضبوط بنیادوں پر قائم تھا یہ ہیکل پہاڑ پر بنایا گیا جس کا ذکر تورایت میں آیا ہے۔

ہیکل سلیمانی کے احاطے میں سے ایک دیوار جسے دیوار گریہ کہتے ہیں اس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ یہ حرم شریف کی مغربی دیوار میں پچاس فٹ کا ایک ٹکڑا ہے جو ہیکل سلیمانی کی باقیات میں سے ہے۔ یہودی جب اس مقام پر آتے ہیں تو گریہ و بکا کرتے ہیں لہٰذا اس کا نام ہی دیوار گریہ پڑ گیا، یہ مقام اس لحاظ سے اہم ہے کہ شب معراج میں سرور کائنات اسی جگہ براق سے اترے، براق کو باندھا اور مسجد میں تشریف لے گئے تھے اس جگہ کی نشان دہی کے لیے ایک گول کڑا لگا ہوا ہے۔

اہل یہود جو دنیا بھر میں بٹے ہوئے تھے تب 1896 میں ویانا کے ایک یہودی ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل کی کوششوں سے صہیونیت تحریک کا آغاز ہوا جو اس کے مقام یعنی پہاڑ صہیون کے لحاظ سے مشہور ہوا جسے وہ اپنی قومیت کا نشان سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل اہل انتہا پسند لیڈر تھا جو فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت کو قائم کرنے کا خواب دیکھتا تھا۔

تھیوڈور نے 1896 میں ریاست یہود کے عنوان سے ایک رسالہ جاری کیا جس میں اس نے صہیونیوں کے لیے ایک قومی وطن کا ٹھوس تصور پیش کیا۔ اس نے اس یہودی ریاست کی حدود کوہ یورال (ترکی) سے نہر سوئز تک مقرر کیں اور اپنے اس خواب کو مذہبی رنگ دینے کے لیے فلسطین داؤد و سلیمان کا نعرہ بلند کیا اور اپنی تحریک کے مقاصد واضح کیے۔

ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل کی کوششوں کا حاصل مئی 2018 میں کچھ اس طرح سے ہوا کہ اسرائیلی حکومت نے بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے کی خواہش امریکی آقاؤں کے ساتھ مل کر تمام کرنے کے لیے عملی طور پر قدم بڑھایا لیکن ان کے سامنے بے پناہ جوش و جذبے کے ساتھ فلسطینی عوام تھے۔ ان کا احتجاج اپنی جگہ پر جائز تھا لیکن اسرائیلی فوجیوں نے ان نہتے انسانوں پر فائرنگ کر دی یوں پچاس سے زائد افراد موقعے پر ہی شہید ہوگئے جب کہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

یہ ایک سفاکانہ عمل تھا یا اسرائیلی افواج کی ہٹ دھرمی جسے لگام دینے والا کوئی نہیں کیونکہ امریکی ریاستوں میں اپنی طاقتور کاروباری دھندے چلانے والے زیادہ تر یہودی ہیں گو اس دور حکومت (ٹرمپ) سے پہلے کے امریکی صدر اسرائیل کے خلاف اگر کھل کر نہیں کہتے رہے تو ان کے یار ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتے تھے لیکن فلسطینیوں کے حق میں وقتاً فوقتاً بیان بازی چلتی رہتی تھی لیکن اس بار تو فلمی انداز میں یوں ہوا کہ ایک جانب امریکی سرکار کے ساتھ اسرائیلی وزرا کی خوش گپیاں چل رہی ہیں تو دوسری جانب مظلوم فلسطینی عوام پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں ۔

ماضی کی بات ہے سابق صدر بش نے کہا تھا کہ 2008 میں جارحیت کے ذریعے حاصل کیے گئے عرب مقبوضہ علاقوں کو خالی کردے گا ، لیکن اس وقت بھی صدر بش کی باتوں کا اسرائیلی قیادت پرکوئی اثر نہیں پڑا تھا اور وہ مسلسل نہتے فلسطینیوں کو بے رحمی سے قتل کر رہا تھا۔ بات اس وقت بھی وہی تھی کہ بڑے طاقتور عرب ممالک خاموش تھے کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ اگر انھوں نے اسرائیل سے چھیڑ چھاڑ کی تو اس طرح امریکا ضرور ناراض ہوجائے گا اور ان کی عیاشیاں ختم ہوجائیں گی۔

آج دس برس بعد بھی یوں ہی ہے کہ امریکا سے ناراضی نہ لینے کے چکر میں بڑے عرب ممالک خاموشی سے اپنے لب سیے بیٹھے ہیں بلکہ سعودی ولی عہد محمد سلیمان نے جس انداز سے فلسطینی عوام کو امریکی صدر کی تمام وہ ہدایات جس سے ان کے خیال میں امن قائم ہوسکتا ہے قبول کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ یہ بیان دنیا بھر میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے لیے اسرائیلی افواج کی سفاکانہ فائرنگ اور فلسطینیوں کے خون کی پکار نے ناپسندیدگی اور غم و غصے کی نگاہ سے دیکھا ، تو او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں سعودی وزیر خارجہ کو اسرائیلی مجرمانہ حرکت اور بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے کے معاملے میں اپنے تحفظات اور احتجاج کو ظاہر کرنا ہی پڑا کہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر کیسا ۔

یہ درست ہے کہ فلسطینی عوام کمزور ہیں ان کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ نوکریاں نہیں ہیں پانی اور دیگر مسائل ان کے سامنے کھڑے ہیں لیکن آج کی اس تیز رفتار سوشل میڈیا سے املا لینے والی دنیا خوب سمجھتی ہے اور فیصلے بھی صادرکرتی ہے۔

فلسطین اور شام مقدس زمین ہے اس کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اگر نہتے فلسطینی اپنی زمین کی حفاظت کرتے ہوئے اسرائیلی افواج کی خود کار جدید گن نظر انداز کرسکتے ہیں تو کیا مسلمان ممالک کے بسنے والے اور شاہانہ انداز میں حکومت کرنے والے اپنی بہت ساری بزدلی میں سے کچھ نفی کرکے ذرا طاقت سے متحد ہوکر آگے بڑھ کر اپنے مظلوم بھائیوں کا ہاتھ نہیں تھام سکتے کیا ہم اپنے پیارے انبیائے کرام کی مقدس زمین پر یوں ہی خون بہتا رہنے دیں؟ کیا یہی مناسب رویہ ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔