منہدی لگوائیے ۔۔۔ مگر احتیاط سے

مبشرہ خالد  پير 2 جولائی 2018
سبھی لڑکیوں اور خواتین کو اپنا خیال خود رکھنا ہے اور احتیاط لازمی کرنی ہے۔ فوٹو: فائل

سبھی لڑکیوں اور خواتین کو اپنا خیال خود رکھنا ہے اور احتیاط لازمی کرنی ہے۔ فوٹو: فائل

صنف نازک میں سجنے سنورنے کا شوق قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔ بچپن سے ہی انھیں کہیں آتے جاتے یا پھر گھر میںبھائی بہنوں کے ساتھ گھرگھر کھیلتے میں بھی تیار ہونے کا شوق ہوتا ہے اور جوانی میں تو پھر لڑکیوں کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ اگر ابھی تیار نہیں ہوں گی تو پھر کیا بڑھاپے میں ہوںگی۔

رمضان کے بعد آنے والے مذہبی تہوار عید کی تیاری تو خواتین مہینوں پہلے سے کر رہی ہوتی ہیں، کیوں کہ کپڑے مہینہ بھر پہلے درزی کو سلنے دینے ہیں ورنہ وہ  لینے سے انکار کردیتا ہے، جیولری بھی جلدی جلدی میں نہیں خریدنی، بلکہ سوچ سمجھ کر میچنگ کی اوراچھی خریدنی ہے، اور رہ گئیں چوڑیاں اور جوتے تو وہ رمضان کی شاپنگ میں بچا کر رکھنے ہیں، تاکہ رمضان میں بازار کی رونقیں دیکھی جا سکیں۔ یہ سب تو لڑکیوں اور خواتین کے عید کے وہ شوق ہوگئے جن کے لیے پہلے سے سوچا اور سمجھا جاتا ہے ۔

مگر اکثر خواتین کی چاند رات بھی تیاریوں سے عبارت ہوتی ہے۔ شادی شدہ لڑکیوں،خواتین کو بے شک امور خانہ داری انجام دینے ہوتے ہیں، مگر اس سب کے باوجود وہ بھی اپنی تیاری کے حوالے سے محتاط ہوتی ہیں، پھر چاہے انھیں رات کے دو،تین بجے منہدی لگوانے پارلر جانا پڑے، وہ بڑے شوق سے جاتی ہیں ۔

جی ہاں! میں صنف نازک کے ایک اور شوق منہدی لگوانے کی بات کررہی ہوں جسے لگوائے بغیر ان کی عید ادھوری ہوتی ہے ۔

میرا منہدی کے حوالے سے لکھنے کے پس پردہ یہ  مقصد ہے اپنی بہنوں کی حفاظت اور ان کی خیر خواہی۔ ہم اگر آج سے پانچ، دس سال پیچھے چلے جائیںتو چند ناموں سے برانڈڈ کون منہدیاں بازار میں ملتی تھیں جنھیں اگر لگایا جاتا تو رنگ چڑھنے میں پانچ سے چھ گھنٹے لگتے اور تیز،گہرا رنگ حاصل کرنے کے لیے مختلف ٹوٹکے بھی استعمال کیے جاتے تھے جیسے لونگ کا سینک لینا، چینی والا پانی لگانا اور پھر جس لڑکی کا منہندی کا رنگ چڑھتا تو لوگ یہ کہتے تھے کہ

اس کی ساس اس سے محبت کرتی ہیں۔

مگر اب وہ مثالیں اور مقولے جو منہندی کے گہرے رنگ کے حوالے سے مشہور ہوئے، وہ  سب پرانے ہوگئی۔ پچھلے ایک دو سال میں بازار میں کئی ناموں کی کون منہدیاں دست یاب ہیں جن میں کیمیکل کا بے انتہا استعمال ہیں اور ایک گھنٹے کے ا ندر اندر منہدی کا رنگ  بھی نکھر کر آجاتا ہے اور انھیں ایمرجینسی منہدی کون کا نام دے دیا جاتا ہے ۔ مگر یہ ایمرجینسی منہدی کون جلد کے لیے بے حد خطرناک ہوتی ہیں، ان سے جلد پھٹنی شروع ہوجاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ  الرجی ہونے کے بھی امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ کچھ لڑکیوں کے ساتھ توایسا بھی ہوا کہ ان کے ہاتھوں پر منہدی کے ڈیزائن کے دھبے رہ گئے جور بہت زیادہ بدنما لگنے لگے اور ایسا بھی ہوا کہ متعدد لڑکیوںکی جلد گل گئی اور یہ بہ ظاہر معمولی سا شوق ان کے لیے تکلیف  دہ بن گیا۔

اس لیے میری اپنی بہنوں سے درخواست ہے کہ منہدی کا شوق ایک مثبت شوق ہے، اسے ضرور لگوائیے، مگر اس کے لیے ہمیں بہت سی  احتیاطی تدابیراختیار کرنی پڑیں گی جو ذیل میں دی جارہی ہیں:

٭ کوشش کریں والد یا  بھائی سے پہلے ہی برانڈڈ اور مشہور کون کی  منہدی منگوالیں  جو برسوں سے مار کیٹ میں دست یاب ہو اور جس کے بارے میں دیگر خواتین کا بھی یہ کہنا ہو کہ ان سے کبھی کچھ نہیں ہوا۔

٭ پارلرجاتے ہوئے اس منہدی کو یاد سے اپنے ساتھ لے کر جائیں۔

٭اگر پارلر کی کون منہدی سے منہدی لگوارہی ہیں تو ان سے اس منہدی کے حوالے سے ضرور معلوم کریں کہ وہ   وہ کتنے عرصے سے یہ مہندی استعمال کررہی ہیں۔

٭شک ہونے کے بعد تو اس پارلر منہدی لگوانے کا ارادہ ہی ترک کردیجیے، کیوں کہ آپ کی جلد اہم ہے،  منہدی نہیں۔

٭ اگر منہدی لگوانے میں جلن محسوس ہو تو اس منہدی کو فوری طور پر دھوڈالیے۔

٭ کسی بھی قسم کی جلن یا  تکلیف کا احساس ہونے پر فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں، تاکہ وہ آپ کو بروقت طبی امداد فراہم کرسکے۔

منہدی لگوانے کا شوق ہر چھوٹی، بڑی عمر کی لڑکیوں اورخواتین میں پایا جاتا ہے، مگر اب مجبوری کچھ یوں ہے کہ آج سب مادہ پرست ہوگئے ہیں، سب کو اپنا خیال ہے، دوسرے کے درد اور تکلیف کا احساس کرنے کا کوئی روادار نہیں ، اس لیے سبھی لڑکیوں اور خواتین کو  اپنا خیال خود رکھنا ہے اور احتیاط لازمی کرنی ہے،  اس لیے اس سال منہدی لگواتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیجیے، جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیجیے، تاکہ آگے ہونے والے نقصان سے بچا جاسکے، کیوں کہ جان ہے تو جہاں ہے اور احتیا ط علاج سے بہتر ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔