کڑوا سچ

شہلا اعجاز  منگل 17 جولائی 2018

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جو حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے اس پر یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا ، سوچتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہو، فسانہ ہو، کسی نے اپنے پاس سے گھڑ لیا ہو کیونکہ وہ حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے ۔ اس سے شرمندگی اور اذیت کے ایسے ناتے بندھے ہوتے ہیں جنھیں چاہ کر بھی آپ الگ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ حقیقت ماضی کی کتاب پر درج ہوچکی ہے اور بھلا کوئی اپنا ماضی بھی بدل سکتا ہے۔

ان دنوں پڑوس میں سچی کہانیوں پر فلموں کو بنانے کا رواج سا پڑتا جا رہا ہے۔ شاید یہ اسی لیے کہ تراشی ہوئی کہانیوں کے رنگ پھیکے سے پڑجاتے ہیں، لوگ گزری ہوئی زندگیوں کے تماشے دیکھ کر زیادہ انجوائے کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک تماشہ جسے ہمارے ملک میں دکھانے پر پابندی عاید کردی گئی ہے خاصی خبروں میں ہے۔ پڑوس کے ٹی وی چینلز ہوں یا ریڈیو سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا خوب آؤ بھگت کی جارہی ہے خاص کر ایک صاحب جنھوں نے پہلے اس سچی کہانی پر کتاب لکھی اور اس کے بعد اس پر فلم بنوانے کے لیے چکر لگائے اور ان کے چکر کامیاب ہوگئے، فلم بن گئی اور سینما گھروں پر لگ بھی گئی اس فلم کے حوالے سے جو تلخ کہانی سامنے آئی اسے سن کر ہی دل نے کہا کاش یہ جھوٹ ہوتا، کاش ایسا نہ ہوا ہوتا، کاش کسی نے اڑائی ہوتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

اتفاقاً صحمت کالنگ کے مصنف ہرندر سکہ کا ایک انٹرویو سننے کا موقع ملا جنھوں نے 2008 میں اپنا پہلا ناول جو سچی کہانی پر مبنی تھا شایع کروایا اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن مئی 2018 میں چھپا یہ ناول ایک ایسی مسلمان کشمیری لڑکی صحمت خان کی سچی کہانی ہے جس کا تعلق ایک امیر کھاتے پیتے گھرانے سے تھا اس کی ماں ہندو تھی اور باپ مسلمان تاجر۔ صحمت کو اس کے باپ نے اپنے ایک عزیز دوست کے بیٹے سے شادی کرنے پر راضی کیا جو پاکستانی فوج میں شامل تھا یہ ایک شادی نہ تھی بلکہ ایک سازش تھی جس کی تیاری کے لیے اس لڑکی کو باقاعدہ ’’را‘‘ نے فوجی تربیت بھی دی، صحمت نے کیا کارنامہ کیا کیسے کیا کیوں کیا اور پھر کیا ہوا یہ ایک دلچسپ کہانی ہوگی لیکن اس کتاب اور فلم سے جڑے مناظر مجھے ان تمام بد نصیب، دکھی اذیت و تکلیف میں مبتلا انسانوں کی کہانیوں کو یاد دلانے لگتے ہیں جنھیں میں نے حال ہی میں ایک پاکستانی مصنفہ، ناول میں پڑھا تھا وہ انسان اپنے گھروں سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر قربان کرکے ہجرت پر مجبور کردیے گئے۔

کٹے پھٹے لٹے ہوئے انسانوں کا ایک جم غفیر تھا جو 1971 کے سانحے کے بعد کس کس طرح سے بچتا بچاتا پاکستانی حدود میں داخل ہوا تھا یہ وہ انسان تھے جنھوں نے 1947 کے بعد نہیں بلکہ 1971 میں بھی ایک اور تقسیم دیکھی جب وہ اپنے ہی پیاروں کو گولیوں سے بھنتا دیکھتے، برچھیوں پر ان کے چڑھتے وجود دیکھتے خواتین کے ساتھ اذیت ناک سلوک دیکھتے اور خون کے آنسو روتے، یقین جانیے آج بھی وہ ان مناظر کو بھلا نہ سکے ہیں گو اس حادثے کو سنتالیس برس گزرچکے ہیں۔

ہمیں کہاجاتا تھا چپ رہو بری بات ہے خاموش رہو ایسے نہیں کہتے یوں نہ کرو گناہ ہے، عذاب ہوگا پر ذرا ان لوگوں کے بارے میں لمحہ بھر کے لیے بھی سوچیے۔ جنھوں نے نفرتوں کی دیوار کو اس قدر بلند کردیا اور بھول گئے کہ زمین پر اناج اگانے والا بے جان وجود میں جان ڈالنے والا آسمان سے مینہ برسانے والا سب کچھ دیکھ رہا ہے بہت سے لوگ جو اب جاننا چاہتے ہیں سمجھتے ہیں اور داد صندول بھی رکھتے ہیں سب جان جانتے ہیں کہ کیوں اور کب اور کیسے ہوا اس کے کیا اسباب تھے کہانیوں کو دبانے سے حقیقت کا گلا کچھ عرصے کے لیے تو گھونٹا جاسکتا ہے لیکن خون پھر رنگ لاتا ہے، آج جس خاتون کو جس نے اپنے مذہب کے تمام سنہری اور خوبصورت اصولوں کو ایک جانب رکھ کر جس جس انداز سے کام کیا ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اس کے کارناموں کو فلمی انداز میں بھی سراہنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

مانا کہ عظیم غلطیاں تو ان ہی کی تھیں کہ جن کے ہاتھوں میں رب العزت نے بہت بڑی مملکت کی ذمے داری سونپی تھی آزمائش تو ان کی بھی تھی لیکن ایک کے بعد ایک ناکامی کی داستان کھلنے کو تیار تھی۔ مقبول ہرندر سکہ کے وہ ایسی عقل مند خاتون تھی کہ اس نے کس طرح اعلیٰ اقدار کے لوگوں میں دوستیاں بڑھائیں اور میوزک ٹیچر کی جاب حاصل کی اپنے سر کا عہدہ بڑھوایا اور اس اہم موڑ پر جب شکست بھارت کے لیے یقینی تھی اس نے ایک اہم انفارمیشن بھجوائی، گو 1971 کے صفحے پر خون کے چھینٹے تو بکھرنے ہی تھے پر اس طرح سے کہ بعد کی زندگی ڈپریشن میں گزری کتنے لوگوں کی زندگیاں خون کی ندی میں گھل گئی، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی خواتین بیوہ ہوگئیں اور درندگی کے اندھیروں میں ڈوب گئی، کتنی کہانیاں خون سے تحریر ہوئیں یہ وہ ایک بار پھر سینما اسکرین پر سے اٹھ چکا ہے ایک بار پھر سرگوشیاں ابھررہی ہیں۔

’’پاکستان اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ اگر اس نے اس حقیقت کو جھٹلایا تو ہم ان کے ہاتھ میں ثبوت پکڑادیںگے‘‘ یہ کہناتھا ہرندر ایس سکہ کا کیونکہ انھیں یقین ہے کہ ان کے پاس اس کہانی کی سچائی کے پکے ثبوت ہیں۔ تب ہی 2008 سے پہلے اوہ دو بار اسی کہانی کی کھوج میں پاکستان بھی آئے اور جس کہانی کے دھندلے خدوخال انھیں بھارت میں ملے تھے اس کے ثبوت انھیں یہاں سے ملتے گئے کہ 1971 کے دکھ اب بھی بے چین کردیتے ہیں۔ بے شک یہ ان کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی لیکن ہماری قوم کے لیے شرمندگی کا مقام۔

محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے یقینا یہ کسی عقل مند کا قول ہوگا لیکن اسلام میں جنگ کے لیے بھی واضح اصول ہیں جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، جنگ اﷲ کی محبت کے لیے ان کے بندوں کو ظالم اور جابر حکمرانوں اور لوگوں کی گرفت سے نکالنے کے لیے جس عزم اور ارادے سے کی جائے کہ اس میں خلوص اور نیک نیتی شامل ہو پھر سب کچھ جائز ہونے کی گنجائش ہی نہیں بنتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جنگ میں بھی مطلب پرست اور دہشت گردی پھیلانے والوں نے اپنے ایسے ایسے کارنامے ثبت کر رکھے ہیں کہ اس میں بھی لوگوں کے دلوں میں اسلام کی جو شکل ابھرتی ہے اس سے مفاد پرست اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرتے ہیں لیکن سچائی پھر سچائی ہے۔

آسمان اور زمین کا جس نفسیاتی چکر میں انسان کو الجھایا جاتا ہے انسان الجھتا ہی جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ مطلق العنان ہے۔ حالانکہ اس کی زندگی میں اور بعد میں بھی اس کے لیے جس برے انداز سے کتابیں تحریر ہوتی ہیں شاید کہ انھیں پڑھنے کی ہمت ہی نہ ہو اور کتابیں صرف زمین پر ہی نہیں پرنٹ ہوتیں کہ اس کے اسباب اور ہیں۔ خدا ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے (آمین۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔