’’ٹومب اسٹون ہاؤس‘‘

مرزا ظفر بیگ  اتوار 5 اگست 2018
کتبوں سے بنی عمارت اور ایک انوکھا قبرستان۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کتبوں سے بنی عمارت اور ایک انوکھا قبرستان۔ فوٹو: سوشل میڈیا

امریکی ریاست ورجینیا کے علاقے پیٹرز برگ میں سنگ مرمر سے تعمیر کردہ ایک ایسی دو منزلہ ایسی عمارت ہے جس کے ساتھ 150سال سے زیادہ خانہ جنگی کی تاریخ بھی وابستہ ہے اور یہ پوری کی پوری تاریخ اس دو منزلہ عمارت کی دیواروں پر بڑے انوکھے انداز سے درج ہے۔

خانہ جنگی کی یہ تاریخ تو لگ بھگ ڈیڑھ صدی پر محیط ہے، مگر سنگ مرمر کے پتھروں سے تعمیر کردہ یہ دو منزلہ عمارت 1934میں تعمیر کی گئی تھی۔ اسی سال وہاں کے ایک رہائشی اوسولڈ ینگ نے پیٹرز برگ کے نزدیک وہاں کے مقامی قبرستان کی انتظامیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس کے پس پردہ کہانی یہ ہے کہ اس وقت اس قبرستان کی انتظامیہ اپنے تعمیراتی اور مرمتی کاموں کے لیے منصوبہ بندی کررہی تھی، مگر چوں کہ انتظامیہ کا بجٹ زیادہ نہیں تھا، اس لیے اس ضمن میں تعمیراتی اخراجات کم سے کم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور اس ضمن میں غور و فکر بھی جاری تھا اور مسلسل مینٹنگز بھی چل رہی تھیں کہ وہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔

اس موقع پر قبرستان کی انتظامی کمیٹی کے سپرنٹنڈنٹ کی سربراہی میں تمام ارکان نے آپس میں بات چیت کی اور پھر ایک انوکھا فیصلہ کیا کہ یہاں کی قبروں کے تمام کتبے یا لوح مزار اکھاڑ لیے جائیں اور انہیں زمین پر سیدھا رکھ دیا جائے جس سے دو فائدے ہوں گے: پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے انہیں قبرستان کی زمین سے کم سے کم گھاس کاٹنی پڑے گی۔

کیوں کہ دوسری صورت میں زیادہ سے زیادہ گھاس صاف کرنی پڑتی۔ اس کے علاوہ اس حکمت عملی سے دوسرا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس سے خاصی معقول رقم کی بچت بھی ممکن ہوگی۔ اس فیصلے کی انتظامی کمیٹی کے سبھی ارکان اور عہدے داروں نے تائید کی اور اس کے بعد قبرستان کی 2,000 سے زیادہ قبروں کے کتبے اکھاڑ لیے گئے۔

جس کے بعد انہیں مناسب سائزوں میں تراشا گیا اور پھر یہ سب کے سب کتبے بالکل سیدھی شکل میں بدل دیے گئے یعنی انہیں ایک طرح سے سنگ مرمر کی سلوں کی شکل دے دی گئی۔ اس ساری محنت شاقہ اور تگ و دو کے بعد قبرستان کی انتظامیہ یہ دیکھ کر بہت مطمئن ہوئی کہ ان کے سامنے قبرستان کی زمین پر سنگ مرمر کی ہزاروں تراشی ہوئی سلیں رکھی تھیں اور انہیں فوری طور پر وہاں سے ہٹانا بھی ضروری تھا۔ چناں چہ قبرستان کی انتظامیہ نے اس کے لیے غوروفکر شروع کردیا کہ ان سنگ مرمر کی سلوں کو یہاں سے کس طرح ہٹایا جائے یا یہ کہ انہیں کس طرح کسی اور دوسرے کام میں لیا جائے۔

ہم نے اوپر قبرستان کی انتظامی کمیٹی کے سربراہ اوسولڈ ینگ کا ذکر کیا ہے جو ایک بہت متحرک اور فعال انسان تھا اور ہر مشکل اور ہر مسئلے کا حل چٹکی بجاتے نکال لیا کرتا تھا۔ چناں چہ اس نے سنگ مرمر کی ان تمام سلوں کا فوری حل یہ نکالا کہ انہیں معقول قیمت کے عوض خریدنے کے لیے تیار ہوگیا۔ اسے سنگ مرمر کی ان حسین و جمیل سلوں کا کیا کرنا تھا؟

اس نے اس شان دار پتھر کی سلوں سے نہ صرف اپنے گھر کے بیرونی حصے کی آرائش کرائی، بل کہ اس سے بیرونی راستے کو ہموار بھی کرایا اور یہاں تک کہ اپنے گھر کا آتش دان بھی تعمیر کرایا جسے بعد میں اسے علاقے کے سبھی مکینوں نے ’’ٹومب اسٹون ہاؤس‘‘ کا نام دیا اور بعد میں بھی اسی نام سے پکارا گیا۔

اس قبرستان میں جو لوگ مدفون تھے، وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے، یہ وہ انگریز فوجی تھے جو 1864-65 میں پیٹرز برگ کے محاصرے کے دوران اپنی جانوں سے گئے تھے۔ یہ وہ مُردہ لوگ تھے جنہیں نہایت عجلت میں میدان جنگ کے قریب ہی کچھ اس انداز سے دفن کردیا گیا تھا کہ کچھ فوجیوں کو گڑھوں میں ایسے ہی ڈال دیا گیا تھا یا پھر انہیں اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا تھا۔ ان میں سے چند ایک ہی کی تدفین کے لیے مناسب آؒخری رسومات انجام دی گئی تھیں ورنہ بیش تر کی لاشوں کو بغیر آخری رسومات کے ایسے ہی دفن کردیا گیا تھا۔ پھر ان بے چارے مرنے والوں کی قبروں پر بہ طور نشانی صرف لکڑی کے کتبے لگائے گئے تھے جن پر ہوسکتا ہے کہ شروع میں نام بھی لکھے گئے ہوں ورنہ بعد میں تو گزرتے وقتوں اور بدلتے موسموں کے اثرات کے باعث ان کے نام بھی ان چوبی کتبوں سے مٹ گئے تھے۔

یہ  1866کی بات ہے کہ لیفٹیننٹ جیمز مور نے اس سال ایک قومی قبرستان کے لیے پیٹرز برگ کے علاقے میں زمین کی تلاش شروع کی۔ اسے اس مقصد کے لیے کسی موزوں جگہ کی ضرورت تھی۔ کافی تلاش اور جستجو کے بعد اس نے شہر کے جنوب میں ایک فارم منتخب کیا۔ یہ فارم کیا تھا؟ زمین کا یہ قطعہ کسی زمانے میں پچاس ویں نیویارک والنٹیئر انجینئرز کے لیے کیمپ گراؤنڈ کا کام انجام دیا کرتا تھا۔

جنگ کے دوران اس مقام پر گوتھک ریواؤل پائن لوگ چرچ بھی ہوا کرتا تھا جس کے باعث اس مقام کو Poplar Grove بھی کہا جاتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ مذکورہ بالا قبرستان کو یہ نام ملا اور پھر سب نے اسی نام سے اسے پکارنا شروع کردیا۔

چناں چہ یہ جگہ قبرستان کے لیے منتخب کرلی گئی اور پھر اس قبرستان کے باقاعدہ قیام کے بعد یہاں مردہ لاشوں کی منتقلی کا کام بھ شروع کردیا گیا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہزاروں لاشوں کو ایک جگہ سے اس دوسری نئی جگہ پر یعنی نئے قبرستان میں منتقل کرنا تھا۔ چناں چہ کام کا ہنگامی بنیادوں پر آغاز ہوا اور ہزاروں فوجیوں کی باقیات کو پیٹرز برگ کے قریب سو کے لگ بھگ مقامات سے کھود کر نکالا گیا اور پھر انہیں دوبارہ اس نئے قبرستان Poplar Grove میں دفن کردیا گیا۔

لاشوں کی اس تلاش اور ریکوری مشن کے لیے اس موقع پر لگ بھگ سو افراد نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی تھیں جنہوں نے میدان جننگ کے ہر مربع انچ پر تلاش کا کام جاری رکھا اور بغیر کتبے یا نشانی والی قبریں تلاش کرنے کا مشکل کام بڑی محنت اور توجہ سے انجام دیا۔ انہوں نے یہ کام جس جگہ انجام دیا تھا، اس جگہ کو کافی عرصے سے “burial corps” کہہ کر پکارا جاتا تھا۔

ان تمام رضاکاروں نے کم و بیش تین سال تک یعنی 1869تک دن رات کام کیا، ان لوگوں کی محنت کی وجہ سے لگ بھگ 6,700 باقیات تلاش کرلیں جن میں سے صرف 2,139 لاشوں کی صحیح انداز سے شناخت ہوسکی تھی۔

بعد میں آنے والے عشروں کے دوران اس قبرستان کے کتبوں یا مزاروں کی لوحوں کی Poplar Grove Cemetery منتقلی کا کام آہستہ آہستہ سست ہوتے ہوتے نظر انداز ہوتا چلا گیا۔

اس دوران جو کام ہوا وہ صرف گھاس کی تراش خراش تھا یا پرچموں کی سالانہ تنصیب کا کام تھا۔ اس کے بعد پھر ایک عجیب تکلیف دہ صورت حال اس وقت پیش آئی جب اس قبرستان میں ناقص ڈرینیج سسٹم کے باعث اس وقت سیلاب آگیا جب طوفانی بارشوں کے باعث پورا قبرستان پانی سے بھرگیا۔ اس بارش کے پانی نے ان تمام قبروں کے کتبوں یا مزارات کی الواح کو کھانا شروع کردیا جو پہلے ہی سیلابی پانی میں گرپڑی تھیں۔

پھر مزید تباہی یہ آئی کہ اس قبرستان کی دیواریں ٹوٹنی اور بکھرنی شروع ہوگئیں اور کے پرچموں کے ڈنڈوں پر بھی زنگ لگنا شروع ہوگیا جس تمام پرچموں کے ڈنڈے گلنے سڑنے اور گرنے شروع ہوگئے۔

پہلے تو لوگ یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے، مگر بعد میں مرنے والے فوجیوں کی فیملیوں نے یہ سب دیکھا تو اس بات پر خوب احتجاج کیا کہ ان کے وارثوں نے اس ملک کے لیے بڑی خدمات انجام دی ہیں یہاں تک کہ اس ملک کے لیے اپنی جان تک قربان کردی اور ان کی قبروں کے ساتھ یہ سب ہورہا ہے۔ انہوں نے اعلیٰ اختیارات والے عہدے داروں سے یہ سوال بھی کیا کہ انہیں جس مناسب عزت و تکریم کی ضرورت ہے، وہ انہیں کیوں نہیں دی جارہی؟ مرنے والے فوجیوں کے خاندانوں کے اس احتجاج کے بعد حکومت نے کئی ملین ڈالرکا ایک خصوصی بجٹ اس قبرستان کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لیے مختص کردیا۔

وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا اور پھر 2015 اور 2017 کے درمیان وہ وقت بھی آیا جب پانچ ہزار سے بھی زیادہ مارکرز کو تبدیل کردیا گیا اور اس موقع پر پورے کے پورے قبرستان میں تعمیر نو کا کام انجام دیا گیا۔

جن فوجیوں کی قبروں کی شناخت ہوگئی تھی، ان کی قبروں کو نئے سرے سے ٹھیک کرنے کے بعد ان پر نئے کتبے اور پرچم بھی آویزاں کردیے گئے۔ لیکن گم نام فوجیوں کی قبروں کے اطراف مربع نشانات لگادیے گئے اور انہیں اس طرح نمایاں کردیا گیا کہ وہ قبرستان میں دور سے ہی نظر آنے لگے۔ اس کے بعد اس قبرستان کی نئے سرے سے تزئین و آرائش بھی کی گئی اور اسے ہر لحاظ سے قابل ستائش بنایا گیا۔ بہت سے فوجیوں کی پرانی قبروں کے کتبے اور الواح کو وہاں سے ہٹاکر دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

اس طرح یہ نیا قبرستان ایک بار پھر نئی شکل و صورت اختیار کرنے کے بعد نئے ٹومب اسٹونز (کتبوں) سے بڑے منفرد انداز سے سج گیا اور مرنے والے فوجیوں کا ایک بار پھر نئی عزت و تکریم مل گئی جس کی وجہ سے ایک طرف قوم خوش ہوگئی تو دوسری جانب اس مرنے والے فوجیوں کے خاندانوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔