عینی کھو گئی

شہلا اعجاز  اتوار 19 اگست 2018

ابھی پڑھنے میں آیا ہے کہ خوش رہنے کے بھی کئی طریقے ہوتے ہیں، مثلاً آپ یوں کیجیے تو آپ خوش رہ سکتے ہیں، آپ ایسے نہ کریں تو خوش رہ سکتے ہیں، آپ باغ میں جائیے، چہل قدمی کیجیے، پھول پودے دیکھیے، بازار جائیے، رات کو چہل قدمی کیجیے، پھل خریدیے اور نجانے کیا کیا تراکیب کہ جن سے انسان خوش رہ سکتا ہے، بازار میں سب دستیاب ہے۔

یہ درست ہے کہ آج کل کی تیز رفتار زندگی میں انسان کو دو گھڑی کسی سے بات کرنے کے لیے بھی وقت میسر نہیں، کسی کو فون کریں تو سمجھا جاتا ہے کہ کام ہوگا۔ خط لکھیے تو سوچا جاتا ہے لمبا پروگرام ہے قیام کا۔ کھل کر مسکرا کر ملیے تو سوچتے ہیں کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ ایسے لاتعداد خدشات اور وہمات انسانی دماغ میں کھدبد مچاتے رہتے ہیں کہ جن سے انسان چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا۔ بے شک یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے لیکن اگر انسان کا رب العزت پر مکمل یقین ہو تو کیسی مشکل۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ عینی کی اچانک پراسرار موت کی خبر سنی، یقین ہی نہ آیا کہ وہی عینی جو ہنستی مسکراتی مختلف ویڈیوز اور رسالوں پر نظر آیا کرتی تھی، گزر چکی ہے۔ یہ جان کر اور بھی دکھ ہوا کہ عینی کی موت کے ساتھ خودکشی کا لفظ بھی استعمال کیا گیا، یعنی اس لڑکی کو زندگی اس قدر بھاری محسوس ہوئی کہ اس نے اس سے چھٹکارے کا سوچ لیا اور اتنی قیمتی جان سے ہار گئی۔

قرۃ العین اور عینی علی خان عام طور پر لوگ انھیں ان ہی ناموں سے پہچانتے تھے، پہلی بار اسے ایک ویڈیو میں دیکھا گیا تھا، چہرے پر ہنستی ہوئی آنکھیں، کھلے ہونٹ، دبلی پتلی سی پھرتیلی عینی پہلی بار ہی ہٹ گئی تھی۔ ’’سالی‘‘ کے ویڈیو سے مقبولیت پانے والی عینی نے جب ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھا تھا تو شاید اسے اپنے اتنی جلدی کلک ہونے کا اندازہ نہ تھا، لیکن قسمت اس پر واری تھی اور اس نے جلد ہی ماڈلنگ کی دنیا میں اپنا نمایاں مقام بنالیا تھا۔

مجھے اس وقت تک علم ہی نہ تھا کہ اس کے اندر ایک اچھا لکھاری بھی موجود ہے، یا شاید تیز رفتار دنیا کی بھاگم بھاگ دوڑ نے احساس ہی نہ ہونے دیا کہ ہمارے اردگرد ایسے بہت سے لوگ ہیں جو آپ سے مخاطب بھی ہوئے ہیں لیکن بالکل فلمی انداز سے، اس طرح ادھر ادھر سے کترا کر کبھی ہم اور کبھی وہ گزر گئے، بہرحال یہ دنیا بے ثبات ہے، اس کا گلہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، البتہ ہمیں اتنا ضرور احساس کرنا ہے کہ ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ہیں جنھیں تھوڑی سی توجہ، تھوڑی سی محبت، تھوڑی سی اہمیت، ذرا سی مسکراہٹ اور پیار کی ضرورت ہے۔ دنیا کی مادیت تو ایسے ہی رہتی ہے لیکن اس میں کھو کر ہم کھرے کو بھی کھوٹے کے ساتھ کیوں ملا دیتے ہیں۔

عینی ایک کامیاب ماڈل تھی، اس نے ایک ہدایت کار کے ساتھ شادی بھی کی، جو دستاویزی فلمیں بنانے میں مشہور تھا، پھر سننے میں آیا کہ دونوں میں علیحدگی ہوگئی، عینی ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی، اس نے کولمبیا یونیورسٹی سے پڑھ رکھا تھا۔ اس کے اندر چھپے ہوئے مصنف نے اسے شوبز کی چکاچوند روشنی سے روشناس ہونے کے بعد احساس دلایا کہ اس کا اصل مقام کیا ہے، اس نے عام ماڈلز کی طرح روایتی انداز میں ڈرامہ کوئین بننے کی کوشش نہ کی بلکہ ہیرالڈ، ایکسپریس ٹریبیون اور دوسرے بین الاقوامی رسائل و جرائد میں اس کے مضامین چھپنے لگے، یہی نہیں بلکہ ’’مسنگ ڈاٹرز آف پاکستان‘‘ کے عنوان سے اس نے ایک کتاب بھی تخلیق کی۔

وہ بہت سادہ سی دبلی پتلی سی لڑکی تھی، اس کی خوراک بھی بہت کم تھی، اسے لیاری کے حوالے سے بہت دلچسپی تھی اور وہ ایسے ہی ایشوز پر کام کرنا چاہتی تھی، اس کے بیگ میں ریکارڈنگ کیمرے، کتابیں اور اسی طرح کی چیزیں ٹھنسی ہوتی تھیں جو اس کے ساتھ ہر وقت رہتا تھا لیکن کام کرنے کی وہ جنون کی حد تک شوقین تھی۔ وہ ایک فری لانس صحافی تھی اور دوسرے فری لانس صحافیوں کی طرح یقیناً اس کے بھی مسائل تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک اس طرح کی صحافی کو کوئی رسالہ یا اخبار کتنے پیسے دے سکتا ہے۔

وہ عام طور پر اپنی زندگی کے مسائل دوسرے لوگوں سے شیئر نہیں کرتی تھی۔ یہ اس کا کام سے جنون ہی تھا کہ جسے اس نے تین دن تک اپنے گھر سے دور ایک دوسری قوم کے لوگوں کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا، اسی طرح اس نے بلوچستان میں بھی کام کیا جب ایک نوجوان دستاویزی فلمیں بنانے والے ہدایت کار احسان شاہ کو اس نے اس کی ڈاکیومنٹری فلم کے لیے اپنی معاونت سے نوازا۔ یہ اس کا بڑا پن اور اخلاص ہی تو تھا، وہ پیسے کو نہیں بلکہ کام کی اہمیت اور مسائل کی نزاکت کو دیکھتی تھی، یقیناً اس کے دل میں یہ جذبہ کارفرما رہتا تھا کہ کسی طرح یہ مسئلہ لوگوں کی نظروں میں آئے اور عوام الناس اور بااختیار ذرائع اس کا حل بھی نکالیں۔ احسان شاہ کو بہترین ڈاکیومنٹری فلم بنانے پر بین الاقوامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

قرۃ العین اکیلی کراچی جم خانہ کے نزدیک ایک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھی، گو کراچی میں اس کے اپنے عزیز بھی رہتے ہیں لیکن اپنے کام میں جنونی لڑکی نے اپنے قریبی پیاروں سے بھی اپنے دل کی نہ کہی، ناکامی و نامرادی سے کون بچ سکا ہے، لیکن ان کو اپنے حواسوں پر سوار کرلینا دانش مندی نہیں ہے۔ یہ زندگی ہے ایک ایسی راہ گزر جہاں غم کے کانٹے بھی ہیں اور خوشیوں اور کامیابیوں کے پھول بھی ہیں، اس پر صرف رب العزت کا اختیار ہے۔ ایک پیاری سی لڑکی، حساس لکھاری، لوگوں کے مسائل کو سامنے لاکر ان کو سلجھانے کی خاطر جستجو میں لگی رہنے والی، خطروں سے مقابلہ کرنے والی، باہمت سی لڑکی اپنی ہی کتابوں کو آگ لگالیتی ہے کہ اس سے اٹھنے والا دھواں یا آگ اس کی زندگی لے ڈالے۔ عینی نے اپنے لیے کس قدر دشوار راستہ چنا۔

ہر روز صبح ہوتی ہے، وہی سورج نئی تاریخ لے کر ابھرتا ہے، نئی کہانیاں ابھرتی ہیں اور بہت سی کہانیاں دھندلا جاتی ہیں، خاموشی سی طاری ہوجاتی ہے، اس خاموشی میں بڑے فسانے، بڑی داستانیں چھپی ہوتی ہیں۔ اب بھی یاد ہے فون سے کھنکتی ہوئی مسکراتی، شرارتی سی آواز، ہیلو! کسے خبر تھی کہ 2008 سے شروع ہونے والا نیا سفر عینی کے لیے 2018 میں ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ خدا اس کی مغفرت کرے آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔