عمران خان کے نام ایک پیغام

غلام مصطفیٰ حاذق  اتوار 26 اگست 2018
خان صاحب، اگر آپ واقعی پاکستان کی خدمت کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں تو پھر عدل جہانگیری ناگزیر ہے۔ (فوٹو: فائل)

خان صاحب، اگر آپ واقعی پاکستان کی خدمت کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں تو پھر عدل جہانگیری ناگزیر ہے۔ (فوٹو: فائل)

وزیراعظم عمران خان صاحب کا قوم سے خطاب بلاشبہ بہت متاثرکن تھا۔ ان کی ہر جنبش، ان کے ہر لفظ کا خلاصہ پاکستان تھا۔ ان کی ہر بات پاکستان سے شروع ہوکر پاکستان پر ہی ختم ہوتی ہے۔ وہ جب بھی بات کرتے ہیں پاکستان کی اور اس کے مقروض عوام کی بات کرتے ہیں۔ ایک محب وطن ہمیشہ دوسرے محب وطن کی قدر کرتا ہے۔ بحیثیت ایک محب وطن، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسی تقاریر جو خان صاحب کی شخصیت کا خاصّہ ہیں، لکھ کر یا رٹّا لگا کر نہیں پڑھی جاسکتیں بلکہ یہ انسان کے اندر کا کرپٹ عناصر کے خلاف وہ ابال ہے جسے باطن الفاظ کے روپ میں اگل دیتا ہے۔

راقمین ہمیشہ اینٹی گورنمنٹ متصور ہوتے ہیں کیونکہ ان کا کام ملک و قوم کے مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے اور ایوانِ اقتدار میں بیٹھی شخصیات بھی ان راقمین کو اپوزیشن کا استعارہ ہی خیال کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب کے آگے مسائل کا لامتناہی پہاڑی سلسلہ ہے، جسے وہ ایک بہترین سڑک بنا کر اس پر معیشت کی گاڑی کو سو کی اسپیڈ سے بھگانا چاہتے ہیں۔ خیال و افکار قابل تقلید اور قابل تحسین ہیں۔ باقی بات ہے عمل کی، تو کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

سماجی اور معاشی طور پر پاکستان کے عوام مہنگائی اور بے انصافی کے مسائل میں پس رہے ہیں اور اس قیامت کے بعد گر اس مقروض قوم پرکسی بیماری یا کچہری کی آفت پڑ جائے توگھر بار، بال بچے، عزت اور ایمان تک بک جاتا ہے۔ یہ ایک بھیانک اور اندوہناک چہرہ ہے ہمارے معاشرے کا، شاید کہ اس سے بھی بھیانک صورت حال ہے۔ مسائل بے تحاشا ہیں اور انہیں حل کرنے کے طریقے بھی الگ الگ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب ان ستر سالہ مسائل کو کچھ دنوں میں ختم نہیں کر پائیں گے؛ سب مسائل کا الگ الگ لائحہ عمل طے کرنا پڑے گا جو اپنی علیحدہ علیحدہ مدت کا متقاضی ہوگا۔ لیکن جن مسائل کا عوام روزانہ سامنا کرتے آرہے ہیں، کیا پہلے وہ مسائل حل کرنا ضروری نہیں؟ کیونکہ جو بھی کرنا ہے، قوم کےلیے ہی تو کرنا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں غریب انسان کو اپنے ملک کے ہر ادارے میں مسائل سے واسطہ پڑتا ہے۔ اسپتال سے لے کر تھانے کچہری تک، بار بار اس کی عزتِ نفس تار تار کی جاتی ہے اور غریب انسان کو خود کا غریب ہونا ایک گالی لگنے لگتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ خان صاحب پاکستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر کو استعمال کرواتے ہوئے پاکستان میں بجلی مفت کردیں اور اس سے صنعتوں کی رفتار بڑھائیں؛ یا ہوسکتا ہے کہ وہ بلوچستان میں تیل کے کنوئیں نکال لیں جن سے ہم تیل میں خودکفیل ہوجائیں اور ان زائد ذخائر کو برآمدات میں لاکر پاکستان کو ٹاپ ٹین ممالک کی دوڑ میں شریک کرلیں (اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو) اور گوادر پورٹ کا بزنس اس کے علاوہ ہے جو ملکی معیشت کی مضبوط ترین کڑی بن رہی ہے۔

لیکن ان سب عوامل کے باوجود بھی عام آدمی کااستحصال جاری رہا تو؟ جیسے کہ انڈیا کی معیشت ہم سے آگے ہے لیکن عام آدمی کا استحصال ہورہا ہے، تو پھر عام عوام کے تحفظات کا کیا بنے گا! وہ بھی اس مشینی دور میں۔ ہر ادارے میں ان کے مسائل کے حل کےلیے ایک دو یا دس نہیں بلکہ ایک ہی مربوط حل کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کے تحفظات کےلیے زیادہ ادارے بنانے سے زرمبادلہ کا نقصان اور وقت کا ضیاع ہوگا۔ عام شہریوں کے تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ انہیں اپنے مسیحا تک بلا روک ٹوک رسائی ملے۔

خان صاحب، اگر آپ واقعی پاکستان کی خدمت کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں تو پھر عدل جہانگیری ناگزیر ہے۔ عہدِ جہانگیری میں کوئی بھی انسان رسی کھینچ کر بادشاہ تک رسائی حاصل کرلیتا تھا۔ لہذا اب آپ کو ضرورت ہے عوام کو ایک ایسی ہاٹ لائن دینے کی جسے وہ اپنے مسائل کے حل نہ ہونے کی صورت میں استعمال کریں اور ڈائریکٹ آپ تک یا آپ کی ریسکیو فورس تک رسائی حاصل کرسکیں، جس کےلیے ضروری ہے کہ آپ ایسا ہاٹ لائن نمبر وفاقی طور پر متعارف کروائیے (اور لازماً سرکاری سطح پر واٹس ایپ اور ویب سائٹ کی سہولت بھی دی جائے) جس پر سائل کی کال ٹیپ ہوسکے، جس میں وہ اپنے قومی شناختی کارڈ کا نمبر، رابطہ نمبر، پیشہ، عمر اور علاقہ بتانے کے بعد باقاعدہ اپنا مسئلہ بیان کرسکے (اور غلط بیانی کی صورت میں پانچ سال قید بامشقت اور دو لاکھ جرمانے کی وعید کا بھی اعلان کیا جائے)۔

پھر ریسکیو فورس یا خان صاحب کی طرف سے سائل کو اس کے مسئلے کا ٹوکن نمبر اس کے نمبر پر بھیج دیا جائے اور متعلقہ ادارے کو بھی سائل کا ٹوکن نمبر بھیج دیا جائے کہ فلاں سائل کا مسئلہ کن وجوہ کی بناء پر التوا کا شکار ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ سائل اور متعلقہ ادارے کے درمیان احتساب ہوگا۔ اگر سائل غلط ہوگا تو اسے پانچ سال قید یا جرمانہ ہوگا ورنہ ادارے کی خراب کارکردگی کی صورت میں ادارے کے چند ملازمین سروس سے برخاست ہوں گے اور سزا کاٹیں گے۔ دونوں صورتوں میں فائدہ ہی فائدہ ہوگا جس سے ایماندار لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا اور ریسکیو فورس کے دبدبے کی بدولت عام آدمی اور اداروں میں امن و سکون اور تعاون بڑھے گا۔ یقین مانیے عمران خان صاحب، اس طرح غریب عوام کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے بلکہ سارے ادارے ٹھیک کام کرنا شروع کردیں گے جس سے پاکستان کی ترقی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ ہے تو ایک سخت عمل لیکن قربانی دیئے بغیر تبدیلی نہیں آسکتی۔

ان تمام اہداف کو پورا کرنے کےلیے ضروری ہوگا کہ پاکستان کے سب ادارے ریسکیو فورس کی ویب سائٹ روزانہ کی بنیاد پر چیک کریں کہ کہیں وزیراعظم کی طرف سے ان کے ادارے کےلیے کوئی پیغام یا کسی سائل کا ٹوکن نمبر تو نہیں بھیجا گیا کہ اس مسئلے کو پہلے حل کیا جاسکے۔ اور خان صاحب، آپ اپنی ریسکیو فورس کو براہِ راست ڈیل کیجیے، بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی ٹیم کا کام لازمی چیک کیجیے۔ اب آپ ریسکیو فورس چاہے آرمی سے مستعار لیجیے، پولیس سے یا کسی بھی سول ادارے؛ ان سب کےلیے ضروری ہو کہ وہ ایل ایل بی پاس ہونے چاہئیں تاکہ وہ معاملات کا باریک بینی سے ادراک کرسکیں۔ اس ٹیم میں پانج جج بھی شامل ہوں جو متعلقہ کیسز کو متعلقہ علاقوں میں ہی نمٹا سکیں۔ آپ اپنی ٹیم کو مسائل کے حل کےلیے باقاعدہ ٹاسک دیجیے اور اس ٹیم کو ہنگامی بنیادوں پر ہیلی کاپٹر کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے کیونکہ اس ٹیم کا لوگو ’’فوری انصاف‘‘ ہے۔

خان صاحب، یہ سب باتیں راقم کی طرف سے مشورہ ہیں کیونکہ راقم کالم نگار ہے، کوئی مشیر نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ہم سب سے زیادہ مسائل کے بارے میں سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ آپ نے بہت کچھ سوچ رکھا ہے اور عمل بھی کر رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میرے مشوروں میں بے پناہ خامیاں ہوں گی لیکن ان خامیوں کو دور کرکے اس پلان پر عمل کیا جاسکتا ہے اور آپ ضرور ان سے بہتر اور قابل عمل حل سے واقف ہوں گے۔ میری دعا ہے کہ ہمارے عوام کا بھلا ہوجائے، ان کی زندگی میں امن و سکون اور اطمینان ہو؛ تو پھر ان کی زندگی بھی بادشاہوں جیسی ہی ہوگی۔ کوئی ڈر، کوئی خوف نہ ہوگا، عزتیں محفوظ، کمائی محفوظ اور جان بھی محفوظ ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔