وکٹوریہ میوزیم سے نیشنل میوزیم کراچی تک

مختار احمد  پير 27 اگست 2018

اس میوزیم کو اس وقت وکٹوریہ میوزیم کا نام دیا گیا تھا، جبکہ لائبریری جنرل لائبریری کے نام سے مشہور تھی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اس میوزیم کو اس وقت وکٹوریہ میوزیم کا نام دیا گیا تھا، جبکہ لائبریری جنرل لائبریری کے نام سے مشہور تھی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

عجائب گھر کی تاریخ نئی نہیں بلکہ صدیوں پرانی ہے۔ ابتدائی طور پر قدیم ترین نادر و نایاب نوادرات کو محفوظ کرنے کےلیے عجائب گھر قائم کرنے کا رواج سترہویں صدی کے اواخر اور 18ویں صدی کے اوائل میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ مگر چونکہ اس وقت عجائب گھر قائم کرنے کےلیے کوئی محفوظ چار دیواری تو نہیں بلکہ کھلے آسمان ہوا کر تے تھے، جہاں قدیم نوادرات کو نما ئش کےلیے رکھا جاتا تھا؛ اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ جوق در جوق ان عجائب گھروں میں جاتے تھے۔ اس کے بعد عجائب گھر کے قیام کا سلسلہ دنیا بھر میں شروع ہوگیا اور لا کھوں کی تعداد میں عجائب گھر قائم ہوئے جہاں نا صرف انسانی زندگی کے ارتقا سے متعلق نوادرات، آرٹ کے نمو نے، مجسمے، مختلف ادوار میں استعمال کیے جانے والے زرعی اوزار، ہتھیار، کتابیں، سکے و دیگر اشیا رکھی جاتی تھیں۔

اس سلسلے میں اگر پاکستان میں میوزیم قائم کرنے کی تاریخ کو دیکھا جا ئے تو سب سے پہلے ایک انگریز کمشنر سر بارٹلے فریئر نے 1871 میں اس وقت کے مشہور زمانہ ٹاؤن ہال ’’فریئر ہال‘‘ کی اوپری منزل سے اس کا آغاز کیا۔

ابتدائی طور پر میوزیم اور جنرل لائبریری دونوں ہی فریئر ہال کی اوپری منزل پر قائم کیے گئے جہاں شائقین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف مطالعے کا شوق پورا کرتی بلکہ تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے لوگ ماضی میں استعمال ہونے والی نادر و نایاب اشیا کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔

اس میوزیم کو اس وقت وکٹوریہ میوزیم کا نام دیا گیا تھا، جبکہ لائبریری جنرل لائبریری کے نام سے مشہور تھی۔ پھر اچانک اس میوزیم کو سپریم کورٹ کراچی کے رجسٹری آفس منتقل کر دیا گیا۔ عجائب گھر کی منتقلی کے باوجود اس کے نام میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور اسے وکٹور یہ میوزیم کے نام سے ہی جانا اور مانا جاتا رہا۔ پھر جب بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح کی کاوشوں اور کوششوں سے پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو ایک ایسے عجائب گھر کے بارے میں سوچا جانے لگا جسے قومی عجائب گھر کا در جہ دیا جا سکے۔ اور کیونکہ محکمہ آثار قدیمہ قیام پاکستان سے قبل ہی موجود تھا، لہٰذا برنس گارڈن جو کہ قدامت کے اعتبار سے کراچی کا پہلا باغ تھا، کو قومی ورثہ قرار دے دیا گیا اور باغ کے اندر قومی عجائب گھر قائم کرنے کی منظور ی بھی دے دی گئی۔ جس کے بعد تیزی سے اس کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا اور جلد ہی ایک 5 منزلہ دیدہ زیب عما رت تعمیر ہو گئی۔

1929 میں قائم ہونے والا شہر کراچی کا پہلا باغ جو 25 ایکڑ اراضی پر مشتمل تھا، کی خاص بات یہ تھی کہ میونسپلٹی کے زیر انتظام ہونے کے باوجود باغ کا انتظام سپرنٹنڈنٹ جیل کراچی کے سپرد تھا، جس کے باعث قید یوں نے اس باغ کو اس قدر شاندار بنا دیا تھا کہ یہاں چا روں طرف سبزہ زار کے علاوہ پھل دار درخت، بلخصوص انگور کی بیلوں سے پورا باغ سجا ہوا تھا؛ اور یہاں وافر مقدار میں انگور ہوا کر تے تھے جنہیں بیرون ممالک برآمد بھی کیا جاتا تھا۔

اس کے بعد وکٹوریہ میوزیم کے نوادرات جو کہ مختلف وقتوں میں کبھی ڈی جے کا لج اور کبھی سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس اور دیگر عمارتوں میں رکھے گئے تھے، سے نوادرات کو اکھٹا کرکے نیشنل میوزیم کراچی کے اندر منتقل کر دیا گیا۔ ابتدائی طور پر یہاں 2 یا 3 گیلریاں شروع کی گئیں جن میں قرآنک گیلری اور گندھارا آرٹ گیلری شامل ہیں۔ بعد ازاں قومی عجائب گھر کے اندر لگ بھگ 8 سے زائد گیلریاں قائم کرلی گئیں جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جن میں غیر ملکی بھی ہوا کر تے، آ کر تاریخ کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتے۔ اس کا سلسلہ ایک طویل عرصے تک جا ری رہا، مگر پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں میوزیم کے عالمی قانون جس کے تحت یہاں کسی قسم کے دفاتر، دکانیں قائم نہیں ہو سکتیں اور نہ ہی کسی قسم کی تجارتی سرگرمیاں ہو سکتی ہیں کو، بالائے طاق رکھتے ہوئے صوبائی وزیر ثقافت سیاحت و نوادرات نے عجائب گھر کے اوپری منزل پر نا صرف اپنا دفتر قائم کیا، بلکہ ان کے اسٹاف کے دفاتر بھی قائم ہوگئے۔

اس کے فوری بعد محکمہ ثقافت کے سیکریٹری اور ان کے اسٹاف کے دفاتر بھی میوزیم کے اندر قائم ہوگئے۔ یہ میوزیم جسے ٹھیک 5 بجے پولیس کی موجودگی میں سیل کر دیا جاتا تھا جس سے وزارت اور سیکریٹری اسٹاف جو رات گئے تک اپنے دفتروں میں کام کرتے تھے، ان کےلیے دشواری پیدا ہونے لگی تو وزیر موصوف کی ہدا یت پر اسٹاف کےلیے ایک بغلی دروازہ بنا دیا گیا۔ مرکزی دروازے کو سیل کیے جانے کے با وجود عام لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا جس سے قومی عجائب گھر کے اندر موجود کھربوں روپے کی نوادرات انتہا ئی غیر محفوظ ہو گئیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ محکمہ ثقافت سیاحت و نوادرات جس کا کام قو می ورثوں اور نوادرات کی حفاظت کرنا ہے، نے گھر کو لگی ہے آگ گھر کے چراغ سے کے مصداق قومی ورثہ قرار دیے گئے برنس گارڈن میں خود ہی تجاوزات قائم کرنا شروع کر دیا۔

ابتدائی مرحلے کے طور پر سب سے پہلے محکمہ آثار قدیمہ کے ریسٹ ہاؤس جس میں ملک بھر سے محکمے کے افسران آ کر ٹھہرتے تھے، کی خد مت کےلیے تعینات خانساماں گوہر اور عشرت کے کوارٹرز اور پرانے ریسٹ ہاؤس کو مسمار کر کے اس کی جگہ محکمہ ثقافت و نوادرات کے دفاتر قائم کردیے۔ اس کے فوری بعد اسی برنس گارڈن میں عجائب گھر کے عقب میں میوزیم کی توسیع کے نام پر ایک اور عمارت کی تعمیر شروع کر دی گئی۔ اسی دوران عجائب گھر کےلیے ایک آڈیٹوریم بھی قائم کر دیا گیا اور وہاں باقاعدگی کے ساتھ مختلف تقریبات سجائی جانے لگیں۔ مگر باجود مہنگے داموں اس کی بکنگ کے، آج تک اس بات کا پتہ نہیں چلایا جا سکا کہ اس سے ہونے والی آمدنی کس کے خزا نے میں جاتی تھی۔

محکمے نے اس پر بھی بس نہیں کی بلکہ عجائب گھر کے مر کزی دروازے پر سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کےلیے سندھی ویلج کے نام پر کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک ماڈل گاؤں بنایا اور سابق صوبائی مشیر ثقافت شرمیلا فاروقی کے ہاتھوں ویلیج کے افتتاح کے  باوجود اسے عوام کےلیے کھولا نہیں جا سکا۔ اس کی بندش کو چھپانے کےلیے محکمے نے ایک اور غیر قانونی قدم اٹھاتے ہوئے اچا نک سے کیفے سندھ کے نام سے برنس گارڈن کے احاطے میں ایک ریسٹورنٹ قائم کر دیا جہاں صبح 10 بجے سے لے کر رات گئے تک سندھی کھانے اور مشروبات فروخت کیے جانے لگے۔ اسی دوران کچھ بدعنوان افسران نے ملی بھگت کر کے قو می ورثہ قرار دیے گئے اس گارڈن جہاں نئی تعمیرات تو دور کی بات، قوانین کے تحت معمولی سی تبدیلی بھی نہیں کی جا سکتی؛ سندھ کے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کو رہائشی سہولیات مہیا کرنے کےلیے کلچرل کمپلیکس کی تعمیر شروع کر دی۔

مگر یہ باغ جو کہ دراصل بلدیہ کی ملکیت تھا، انہوں نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا جس پر سندھ ہائیکورٹ نے بلدیہ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے فوری طور پر تعمیرات روکنے کا حکم جاری کر دیا۔ عدالتی حکم پر کمپلیکس کی تعمیر تو روک دی گئی مگر کیفے سندھ و دیگر غیرقانونی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ اسی اثنا میں سندھ حکو مت نے سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جس پر انہوں نے بھی سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

اس کے بعد محکمہ ثقافت سندھ مرتا کیا نہ کرتا کے مثل بالآخر ہتھیار ڈالنے پڑے اور انہوں نے فوری طور پر سندھی ویلج جسے کچھ دنوں کےلیے کھولا گیا تھا اور کیفے سندھ  پر تالے ڈال کر مکمل طور پر سیل کر دیا۔ جبکہ کلچرل کمپلیکس کی تعمیر کو رکوانے کے ساتھ ساتھ ریسٹ ہاؤس کی جگہ قائم ہونے والے دفاتر اور برنس گارڈن کے ملازمین کےلیے بنائے گئے 25 کوارٹرز کو مسمار کیے جانے کے احکامات بھی جاری کردیے گئے ہیں۔ جبکہ برنس گارڈن جس کا ماضی میں رقبہ 25 ایکڑ پر محیط تھا، جہاں اس وقت ایس ایم لاء کا لج، فیضی رحمین گیلری، آرٹس کونسل آف پاکستان کے کچھ حصے، گلزار مسجد اور سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس کے احاطے میں قائم مسجد جو کہ اس کی حدود میں آ رہے ہیں، کو بھی مسمار کیے جا نے کے امکا نات ہیں۔ مگر چونکہ برنس گارڈن کےلیے میونسپلٹی کے قائم کر دہ کوارٹرز کے مکین مکانات خالی کرنے پر تیار نہیں، لہذا ایک بار پھر اس معاملے کے التوا کا شکار ہونے کے امکا نات ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔