کرپشن کا خاتمہ اولین ترجیح
جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہو گا وہاں کرپشن لازمی ہوگی چونکہ ہمارا ملک بھی سرمایہ دارانہ نظام کی چھتری کے نیچے ہے۔
نئے وزیراعظم عمران خان نے حکمران کی حیثیت سے عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری حکومت کی اولین ترجیح کرپشن کا خاتمہ ہو گی ۔کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ناگزیر حصہ ہوتا ہے اور اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہو گا وہاں کرپشن لازمی ہوگی چونکہ ہمارا ملک بھی سرمایہ دارانہ نظام کی چھتری کے نیچے ہے ۔
اس لیے ہمارے معاشرے میں کرپشن ہونا فطری بات ہے اور پسماندہ ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کرپشن موجود ہے ۔ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں ہر سیاسی جماعت کا ایک منشور ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے منشورکو بنیادی اہمیت دیتی ہیں اورعوامی مسائل کے حل کے لیے اربوں ڈالرکی ضرورت ہوتی ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں بلاشبہ کرپشن معاشرے کا ایک حصہ ہوتی ہے لیکن ان ملکوں میں عوامی مسائل کا حل پہلی ترجیح اس لیے بنا رہتا ہے کہ اگر حکمران جماعتیں اپنے منشورکے مطابق عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی تو حکومتوں کو نہ صرف عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے بلکہ آنے والے الیکشن میں عوام ایسی سیاسی جماعتوں کو ناکام بنا دیتے ہیں اس خوف سے ترقی یافتہ ملکوں کے حکمرانوں کو عوامی مسائل کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھنا پڑتا ہے اور اس کلچر کی وجہ سے کرپشن اور بیل کی طرح چاروں طرف نہیں پھیل سکتی کم از کم عوامی مسائل کے حل کے لیے بجٹ میں رکھی ہوئی رقوم کو کرپشن سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ان ملکوں کے برعکس ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ اول تو سیاسی پارٹیوں کا کوئی منشور ہی نہیں ہوتا لیکن ہم جیسے کالم نگاروں نے سیاسی جماعتوں کو مجبورکر دیا کہ وہ عوام کے سامنے منشور پیش کریں، یوں سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرنے پر مجبور تو ہوئیں مگر ہمارے ملک کے عوام میں ابھی اتنی میچوریٹی نہیں آئی کہ وہ یہ دیکھیں کہ حکمران جماعتیں اپنے منشور پر عمل کر رہی ہیں یا نہیں؟
عوام کی اس سادہ لوحی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے رکھی گئی بھاری رقوم حکومتی اشرافیہ ہڑپ کرجاتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے میڈیا میں ہر روز اربوں کی کرپشن کے اسکینڈل شایع ہورہے ہیں اور نجی ادارے ہی اربوں کی کرپشن نہیں کر رہے ہیں بلکہ قومی ادارے بھی اربوں کی کرپشن کرتے نظر آرہے ہیں۔
یہ بڑی خوشی اور اعتماد کی بات ہے کہ ملک کی 71 سالہ تاریخ میں پہلی بار انتہائی سنجیدگی سے کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کیے جارہے ہیں اور ملک کے سابق وزیراعظم معہ فیملی کرپشن کے الزامات میں جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ عمران خان کرپشن کے خلاف اس مہم کو نہ صرف مضبوط کریں بلکہ اشرافیائی کرپشن کے ساتھ ساتھ قومی اداروں میں ہونے والی اربوں کی کرپشن کے خاتمے میں کردار ادا کریں۔ عمران خان یقینا اس حقیقت سے واقف ہوںگے کہ الیکشن مہم پر لگائے جانے والے کروڑوں اربوں روپے سود سمیت واپس لیے جاتے ہیں اس کلچر کا خاتمہ ضروری ہے۔
ماضی کی حکومتوں کی پہلی ترجیح قومی دولت کی بے تحاشا لوٹ مار رہی ہے اور ماضی کے بڑے بڑے کرپٹ محترمین آج ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ حالیہ الیکشن میں بھی بلا تخصیص ہر الیکشن لڑنے والے نے کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری کی ہے جن میں تحریک انصاف کے اراکین بھی شامل ہیں۔
یہ حضرات روایت کے مطابق الیکشن پر لگائی ہوئی بھاری رقم واپس لینے کی کوشش کریںگے اب یہ ہمارے وزیراعظم کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کلچر کے سامنے دیوار بن کر کھڑے رہیں یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ الیکشن پرکی گئی سرمایہ کاری ہر وہ شخص سود سمیت واپس لینے کی کوشش کرتا ہے۔ انھیں کس طرح روکا جائے گا یہ کلچر اس لیے پیدا ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے نہیں لڑاجاتا بلکہ الیکشن مہم میں لگائے جانے والے بھاری سرمائے کو دس گنا زیادہ کے ساتھ واپس لینے کے لیے لڑا جاتا ہے۔
کیا عمران خان اس کلچرکو ختم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں! سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی اس معاشرتی اور اخلاقی گندگی کو چھپانے کے لیے ہی جمہوریت کا ڈھونگ رچایا ہے بڑے بڑے اہل علم، اہل قلم، جمہوریت کے اس اصل کردار کو دانستہ یا نادانستہ نظر اندازکر کے جمہوریت کی اس طرح حمایت کرتے ہیں کہ ان کرم فرماؤں کی سیاسی بصیرت پر تعصب ہوتا ہے جمہوریت کی حمایت کے ساتھ اگر یہ معززین جمہوریت کی خرابیوں کو بھی منظر عام پر لائیں تو یہ ایک مثبت رویہ ہو گا۔
کرپشن کے خلاف موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن جس ملک میں اشرافیہ کا اوڑھنا بچھونا ہی کرپشن ہو اس ملک میں دس بیس کرپٹ لوگوں کو پکڑنے سے کرپشن ختم نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے ایک مربوط منصوبہ بندی اور بلا امتیاز عمل کی ضرورت ہے اور یہ کام ہمارے نئے وزیراعظم عمران خان اس ملک کے آزاد معاشی ماہرین کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ البتہ عمران خان کو اس حوالے سے متعلقہ اداروں کو بے لچک اور بے امتیاز پالیسی پر سختی سے عمل در آمد کا مشورہ ضرور دینا چاہیے۔ عمران خان کے ساتھ ایک ٹیم ہے اگر عمران خان سب سے پہلے اپنی ٹیم کو کرپشن سے دور رکھیں تو دشمنوں کو کوئی بہانہ، کوئی ہتھیار دستیاب نہیں ہوسکیںگے۔
عمران خان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مڈل کلاس کا فرد وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوا ہے۔ اس ملک کے جاگیردار، صنعت کار، سرمایہ دار اور ان کی لونڈی بیوروکریسی سب عمران خان کی حکومت اور کرپشن کے خلاف مہم سے سخت خوفزدہ ہیں اور ان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ یہ حکومت چلنے نہ پائے۔ چونکہ یہ طبقات پیچھے رہ کر کام دکھانا چاہتے ہیں ۔ لہٰذا انھوں نے ہاری ہوئی ایک بڑی سیاسی جماعت کو آگے رکھا ہے چونکہ یہ جماعت بھی زخم خوردہ ہے اور بے بہا دولت کی مالک ہے لہٰذا وہ عمران حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ وزیراعظم کو اس خطرے سے آگاہ رہنا چاہیے اور اپنے کارکنوں کو چوکس رکھنا چاہیے کہ اپوزیشن کی زیادتیوں کا مقابلہ کرسکیں۔