امنِ عالم، انسانیت کی بنیادی ضرورت

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 28 ستمبر 2018
قیام امن کے لیے اسلام نے اتنا جامع قانون انسانیت کے حوالے کیا کہ جس کی بہ دولت تاقیامت بدامنی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

قیام امن کے لیے اسلام نے اتنا جامع قانون انسانیت کے حوالے کیا کہ جس کی بہ دولت تاقیامت بدامنی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

امن، ہر مذہب اور ہر قوم کی مشترکہ ضرورت ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لیے امن کا قیام نہایت ضروری ہے۔

عالمی سطح پر اس کے خطوط وضع کرنے کے لیے سوچ بچار اور کوشش ہو رہی ہے اور بدقسمتی سے ساری دنیا کی اقوام بدامنی کا ذمے دار اسلام اور مسلمانوں کو ٹھہرا رہی ہے اور اسلام کو ہی قیام امن میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ حالاں کہ یہ سراسر غلط اور من گھڑت مفروضہ ہے جس کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔

ادیان عالم میں واحد مذہب اسلام ہی ہے جس کے نفاذ کی بنیاد قیامِِ امن ہے۔ تاریخ عالم کا مطالعہ کیجیے یہ حقیقت آپ پر روز روشن کی طرح آشکار ہوجائے گی کہ قبل از اسلام امن کا فقدان تھا، ظلم و جبر نے انسانیت کو بدامنی کی دلدل میں گردن تک دھنسا رکھا تھا۔ عرب قوم ظالمانہ اور وحشیانہ زندگی بسر کر رہی تھی، درندگی کا یہ عالم تھا کہ معمولی باتوں پر دو قبیلوں کی آپسی جنگ صدیوں تک چلتی رہتی اور کئی نسلیں اس انتقام کی آگ میں جھلستی رہتیں۔

دولت و اقتدار والا غریب اور عوام کو انسان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، ظلم و زیادتی، قتل و غارت گری، چوری و بدکاری اور بداخلاقی و بدامنی کا بازار گرم تھا، معاشرتی زندگی بری طرح تباہ ہو کر رہ گئی تھی، امن و امان پوری طرح پامال ہو چکا تھا۔ انسان اپنے رب بل کہ خود اپنا مقصد تخلیق بھلا چکا تھا اور اس نے سورج، چاند، ستارے، درخت، پانی، آگ اور خود تراشیدہ مورتیوں کو اپنا معبود بنا رکھا تھا۔

امن کے سب سے بڑے علم بردار پیغمبر اسلامؐ نے ظلم کے سمندر میں انسانیت کی ڈوبتی ناؤ کو امن کے ساحل پر لگایا۔ انسانوں کو انسانیت کا درس دیا۔ پیار، انس، مودت و محبت، اخوت و بھائی چارگی، حسن سلوک اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے خدائی دستور قرآن کریم دیا۔ قرآنی احکامات کی تشریح بھی خود فرمائی تاکہ حجت تمام ہوجائے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر امن و امان پر زور دیا۔ ظلم و جبر، وحشت اور خوف و ہراس کو دور کرنے کے لیے وحی الہٰی کے مطابق ایسا منصفانہ اور عادلانہ نظام دیا جس میں ظالم کو ظلم سے روک کر مظلوم کی داد رسی کی گئی ہے۔ آپؐ کا دیا ہوا نظام ہر دور میں امن کا ضامن رہا ہے اور تا قیامت اسی نظام سے امن وابستہ ہے۔ اسلام کو غیر جانب دارانہ عمیق نظروں سے دیکھنے والے غیر مسلم بھی اس بات کے کھلے دل سے معترف ہیں کہ اسلام اور امن دونوں باہم لازم ملزوم ہیں۔ اسلامی کی بنیادی روح ہی امن ہے۔

قیام امن کے لیے اسلام نے اتنا جامع قانون انسانیت کے حوالے کیا کہ جس کی بہ دولت تاقیامت بدامنی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے، مفہوم: ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کا قتل کردیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘

خدا کے پسندیدہ مذہب اسلام ہی کو یہ ادیان عالم پر فوقیت ہے کہ اس کی نظر میں کسی شخص کا ناحق قتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے۔ بل کہ اس سے بڑھ کر اسلام میں قتل تو درکنار یہاں کسی کی ایذا رسانی بھی ایسا جرم ہے جو اسے ایمان کے دائرہ کمال سے خارج کر دیتا ہے۔ صحیح بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے، مفہوم: بہ خدا وہ مومن نہیں، بہ خدا وہ مومن نہیں، بہ خدا وہ مومن نہیں۔ دریافت کیا گیا، کون اے اللہ کے رسولؐ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جس کا پڑوسی اس کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ ہو۔

اسلام محبت و رواداری کا درس دیتا ہے اس کی تعلیمات نقطۂ امن کے گرد اپنے دائرے کو مکمل کرتی ہیں۔ جس شخص سے خیر کی توقع نہ ہو اور لوگ اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو اسلام ایسے شخص کو بدترین انسان قرار دیتا ہے۔ جامع ترمذی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کو نہ خیر کی امید ہو، نہ اس کے شر سے لوگ محفوظ ہوں۔‘‘

اسلام انسانی معاشرے میں مساوات کا نظام پیش کرتا ہے اس کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اس دنیا میں کسی کو کسی پر حسب نسب، قوم قبیلہ، خاندان، علاقائیت و لسانیت کی وجہ سے کوئی فضیلت اور برتری نہیں ہے، ہر انسان آدم کی اولاد ہے، اور آدم کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا۔ مسند احمد میں حدیث مبارک کا مفہوم ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اے لوگو! بلاشبہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہی ہے، جان لو کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی سرخ کو کسی سیاہ پر اور نہ کسی سیاہ کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل ہے سوائے تقوی کے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ تقوی کا مطلب ہے خدا کا خوف ہر وقت پیش نظر رکھنا اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا۔

پُرامن معاشرے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہمی محبت، رواداری، بھائی چارہ، حسن سلوک، عفو و درگزر کو بنیادی حیثیت دی۔ جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت سے امن جنم لیتا ہے، اگر ان میں سے کسی کو گزند پہنچے تو امن مجروح ہوتا ہے، اس کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فقید المثال اجتماع سے تاریخ ساز خطبہ دیتے ہوئے ایک شق یہ بھی بیان فرمائی کہ ان تینوں کی حفاظت قیام امن کی ضامن ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، مفہوم: ’’یقینا تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو آپس میں (تاقیامت) اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح یہ دن، اس مہینہ میں اور اس شہر میں قابل احترام ہے۔‘‘

انسانیت سے رحم دلی سے پیش آنے کی جگہ جگہ تاکید فرمائی، جامع ترمذی میں حدیث مبارک کا مفہوم ہے: رحم و کرم اور درگذر کرنے والوں پر خدا بھی رحم کرتا ہے۔ لہذا تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ دوسرے مقام پر اسی بات کو یوں بیان فرمایا کہ جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا خدا بھی اس پر رحم نہیں کرتا ہے۔

پیغمبر اسلامؐ کی یہ تعلیمات محض زبانی جمع خرچ نہیں، بل کہ آپؐ کی عملی زندگی کی عکاس ہیں۔ امن کی تعلیم دینے والے پیغمبرؐ اور آپؐ کی مبارک جماعت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس جرم کی پاداش میں طرح طرح کی انسانیت سوز تکالیف سہنا پڑیں، ایسے حالات میں بھی محسن انسانیتؐ نے حسن سلوک کا مظاہرہ کیا اور دشمنوں کے ساتھ اچھے برتاؤ سے پیش آئے، جان کے دشمنوں کو عام معافی دی۔ قیام امن کے لیے جو امور ضروری تھے ان کو اپنانے کی اسلام نے تاکیدِ مزید کی ہے جب کہ اس میں رکاوٹ بننے والے انفرادی و اجتماعی طور پر اخلاقی اور معاشرتی جرائم کی نشان دہی کر دی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے آج اسلام کی وہ صحیح تصویر پیش کی جائے جس سے اسلام کی روح نظر آئے۔ اسلام پسندوں کو طعنہ دینے والوں کو چاہیے کہ غیر جانب دار ہو کر گہرائی سے اسلام کے نظام امن کا مطالعہ کریں تاکہ قیام امن کے فارمولے نئے سرے سے تشکیل دینے کے بہ جائے نبوی نافذ شدہ، خدائی تصدیق شدہ اور قانوناً مرتب شدہ تیار شدہ فارمولے کو اپنا کر عالمی امن کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ معاشرے سے امن و امان کو مخدوش یا تباہ کرنے والے جرائم پیشہ افراد کو حکومت کی جانب سے سزا دی جائے، لوگوں کی جان کے تحفظ اور انہیں پرامن رکھنے کے لیے بدمعاشوں، غنڈوں اور قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سزا دی جائے۔ اسی طرح لوگوں کے اموال کے تحفظ اور انہیں پُرامن رکھنے کے لیے چوروں، لٹیروں اور ڈاکوئوں، فریب کاروں، کرپشن مافیا اور بھتا مافیا کو قانون کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جائے۔ اسی طرح لوگوں کی عزت و آبرو کے تحفظ اور انہیں پُرامن رکھنے کے لیے ظالموں اور جابروں کو قانون کے کٹہرے میں لاکر عبرت ناک سزا دی جائے۔ جب تک ان عناصر کو کھلی چھوٹ دی جاتی رہے اور بے گناہوں پر ظلم و ستم جاری رہے تو قیام امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

حقوق انسانیت کی عالمی تنظیموں کو بھی اس معاملے پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ماضی کے اندوہ ناک حالات تاریخ کی کتابوں میں پڑھ لیجیے یا موجودہ حالات کو بہ چشم خود دیکھ لیجیے آپ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ اقوام عالم میں سوائے مسلم قوم کے کسی نے بھی قیام امن کے لیے مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ بل کہ ہمیشہ قیام امن کے دل ربا نعرے کی آڑ میں خون مسلم کی ہولی کھیلی ہے اور آج تک یہ مشق ستم جاری ہے۔ ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ مجبور، مقہور، مظلوم بل کہ مقتول مسلمانوں کو بدامنی کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ عالمی یوم امن جہاں دیگر اقوام کو ظلم سے رکنے کا عندیہ دیتا ہے وہاں پر قوم مسلم کو باہم متحد ہونے کا درس بھی دیتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔