اسلام کا معاشی نظام

مفتی سراج الحسن  جمعـء 5 اکتوبر 2018
رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالی کی عبادت کے بعد روزی کمانا عبادت ہے۔‘‘ فوٹو:فائل

رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالی کی عبادت کے بعد روزی کمانا عبادت ہے۔‘‘ فوٹو:فائل

اسلام محض چند عقائد اور عبادات کا مجموعہ نہیں بل کہ اسلام کی تعلیمات اپنی جامعیت کے لحاظ سے انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہیں۔

معاشی مسئلہ بھی انسانی زندگی کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ اس مسئلے کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس کا کامل اور قابل عمل حل اسلام نے پیش نہ کیا ہو۔ معاشی میدان میں اسلام زندگی کا ایک متوازن اور معتدل تصور پیش کرتا ہے ۔ اس میں نہ تو ترک دنیا کی تعلیم دی گئی ہے اور نہ محض دنیاداری سکھائی گئی ہے۔ آپؐ کا فرمان مبارک ہے: ’’ میرا اور دنیا کا کیا تعلق، ہاں محض اس قدر، جیسے کوئی مسافر تھوڑی دیر درخت کے سائے تلے ٹھہر جاتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔‘‘

دوسری طرف حلال کمائی کی تلاش میں اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے صَرف کرنے کی ترغیب بھی دی ہے۔ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’رزق کو زمین کی پنہائیوں میں تلاش کرو۔‘‘ ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’ اللہ تعالی کی عبادت کے بعد روزی کمانا عبادت ہے۔‘‘ تو گویا انسان ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے روزی کماتا ہے اور روزی محنت کے بغیر ممکن نہیں۔ محنت سے روزی کمانا بہت بڑی نعمت ہے اور معاشی خوش حالی کا باعث ہے۔ آپؐ کی پوری زندگی محنت سے عبارت ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابی کے ہاتھ مسلسل محنت کرنے سے سخت ہوگئے تھے۔ آپؐ نے انہیں چوما اور فرمایا: ’’ یہی محنتی ہاتھ تو ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو پسند ہیں۔‘‘ آپ ﷺ نے محنت کی کمائی کی تعریف کی کہ اس سے بہتر کھانا کوئی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے انبیائے کرام کی محنت کو بہ طور مثال پیش کیا کہ حضرت داؤد علیہ السلام زرہ بناتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام کاشت کاری کرتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام بڑھی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بکریاں چَرائیں۔ خود رسول اللہ ﷺ نے تجارت فرمائی۔

حضور اکرم ﷺ مزدوروں کے ساتھ زیادتیوں کو روکنے کے لیے یوں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ محنت کرنے والے کی پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت دے دی جائے۔‘‘ ایک اور حدیث مبارک میں ہے: ’’میں قیامت کے دن اس شخص سے جھگڑا کروں گا، جو کسی شخص کو اجرت پر کام پر لگاتا ہے اور جب مزدور کا م پورا کرتا ہے تو وہ اس کی مقررہ مزدوری ادا نہیں کرتا۔‘‘ ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ اس بندۂ مومن کو عزیز رکھتا ہے جو کسی پیشے کے ذریعے سے اپنی روزی کماتا ہے۔

درج بالا تمام احادیث مبارکہ میں انسانوں کو معاشی مسئلے کے حل کے سلسلے میں کسب حلال اور محنت کا درس دیا۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اور گداگری سے کمانا اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی اور اسلام کو اس سے نفرت ہے۔ یہ انسانی وقار کے لیے بے حد مضر ہے اس سے احساس خودداری بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گداگری کے انسداد پر بھی خصوصی طور پر توجہ فرمائی۔ ایک مرتبہ ایک انصاری سوال کرتے ہوئے آئے، آپؐ نے فرمایا تمہارے پاس کچھ نہیں؟ اس نے کہا کہ ایک بچھونا اور ایک پانی کا پیالا ہے۔

آپ ﷺ نے وہ دونوں چیزیں منگوا کر دو درہم کے عوض فروخت کرکے انصاری سے فرمایا کہ ایک درہم کا گھر میں کھانا لے جاؤ اور دوسرے درہم سے رسی خرید کر جنگل جاکر لکڑیاں لا کر شہر میں بیچو۔ پندرہ روز کے بعد وہ انصاری آئے تو ان کے پاس دس درہم تھے۔ اس نے اس سے کچھ کپڑا اور غلہ خریدا۔ یوں آپ ﷺ کی حکمت عملی سے وہ معاشرے کا ایک فعال رکن بن گیا۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: یہ اچھا ہے یا یہ کہ گدائی کا داغ لگا کر روز قیامت حاضر ہوتے؟ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ’’ اگر تم میں سے کوئی رسی لے کر جائے اور لکڑیوں کا گٹھر پشت پر اٹھا کر لائے اور فروخت کرے اور یوں اللہ اس کی آبرو بچائے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے، اور وہ اسے دیں یا نہ دیں۔ ‘‘

حکیم بن حزام ؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا۔ آپ ﷺ نے دے دیا۔ پھر مانگا تو دے دیا اور فرمایا : حکیم! یا مال ہرا بھرا اور میٹھا ہے جو اسے سخاوت نفس کے ساتھ لے گا، اسے برکت ہوگی۔ جو نفس کی طمع سے لے گا، اسے برکت نہ ہوگی۔ اس کی کیفیت اس شخص کی سی ہوگی جو کھاتا جاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔‘‘ اور پھر فرمایا: ’’ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ حکیم ؓ نے پھر عمر بھر کسی سے کچھ نہ مانگا۔ پھر فرمایا: مسکین وہ نہیں جو لوگوں کے پیچھے پھرے، کہیں سے ایک لقمہ یا دو لقمے یا ایک کجھور، دو کجھوریں مل جائیں تو دوسرے دروازے پر چلا جائے۔ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ ضروریات سے بے نیاز کردے۔ نہ کوئی اس کا حال جانتا ہے کہ صدقہ دے دے۔ نہ وہ اٹھ کر لوگوں سے کچھ مانگتا ہے۔‘‘

ایک موقع پر تین چیزوں کو اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ قراردیا: ’’ فضول باتیں، مال ضائع کرنا اور زیادہ مانگنا۔ ‘‘ یہ بھی فرمایا کہ جو شخص اللہ سے دعا کرے کہ اسے سوالی و گداگری کی ذلت سے بچایا جائے تو اللہ بچا دیتا ہے۔ جو خدا سے غنا کا طلب گار ہو، اللہ اسے غنام رحمت فرماتا ہے جو شخص صبر کرتا ہے اللہ اسے اور دیتا ہے اور صبر سے بہتر وسیع تر دولت کوئی نہیں جو کسی کو دی گئی ہو۔ اسلام نے انسداد گری کے لیے زکوٰۃ کا ایک مستقل نظام قائم کردیا ہے ۔

آنحضرت ﷺ لوگوں کو گداگری سے نہایت سختی کے ساتھ روکتے تھے۔ ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جس شخص کے پاس ایک دن کی خوراک موجود ہو یا وہ صحت مند ہو اور کمانے پر قادر ہو اس کے لیے دست سوال پھیلانا جائز نہیں، اسی لیے پیشہ ور، صحت مند اور نوجوان گداگروں کوا ن کے احوال کے جاننے کے باوجود دینا درست نہیں کیوں کہ اس سے گداگری کو تقویت پہنچتی ہے ، یہ گناہ پر تعاون ہے اس لیے پیشہ ور گداگروں کو کچھ دینا شرعاً جائز نہیں بل کہ گناہ ہے۔

٭ اسلام عورتوں کے لیے سراپا رحمت

دنیا میں کسی مذہب اور تمدن نے عورتوں کو اتنے حقوق نہیں دیے جتنے اسلام نے عطا فرمائے۔ عورت جب پیدا ہوئی تو زندہ درگور کردی جاتی، اگر جوان ہوجاتی تو فروخت کردی جاتی اور جب اس کا شوہر مرجاتا تو اسے شوہر کی چتا پر جلا دیا جاتا۔ لیکن اسلام نے عورت کو وہ مقدس مقام دیا جس کا انسانیت کبھی تصور بھی نہیں کرسکتی۔ بیٹی کی پیدائش کو باعث رحمت بتایا۔ اس کی پرورش، تربیت اور تعلیم کا حصول جنت کا ذریعہ قرار دیا اور جب وہ ماں بن جاتی ہے تو اس کی خدمت میں جنت کے دروازے کھول دیے گئے۔ باپ سے تین درجے زیادہ ماں کا حق رکھا گیا اور مردوں اور عورتوں میں جو اونچ نیچ کا تصور تھا، اسے یہ کہہ کر ختم فرمایا کہ عورتیں اور مرد پہلو بہ پہلو حیثیت کے مالک ہیں۔

اگرچہ حیاتیاتی اور فطری اختلافات کے باعث مردوں اور عورتوں کے میدان الگ ہیں لیکن ان میں کوئی صنف بھی دوسرے سے کم تر نہیں۔ جہاں مردوں کو انتظامی برتری دی گئی ہے، وہیں عورتوں کو احترامی برتری سے نوازا گیا ہے اور یہ ایک ایسا اعتدال ہے جس کا شائبہ بھی دنیا کے کسی مذہب یا تہذیب میں نہیں ملتا۔ آپؐ نے وراثت میں عورتوں کا حصہ مقرر فرمایا۔ عورتوں کو حقوق ملکیت دیے اور شوہر کے ذمے یہ واجب کردیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے آرام و آسائش کا خیال رکھے اور اگر کسی شخص کی ایک سے زاید بیویاں ہوں تو ان میں عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے۔

حضور اکرم ﷺ نے جب حضرت ابوموسی اشعریؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو لوگوں کے معاملات کا انتظام سپرد فرمایا تو انہیں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: ’’ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا انہیں مشکل میں نہ ڈالنا انہیں رغبت دلانا، نفرت نہ دلانا، موافقت کے جذبے کو ابھارنا، اختلاف نہ ڈالنا۔

٭ تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں انسانوں کا باہمی رشتہ

انسانیت کے مقام اور احترام کو آپ ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں اس طرح بیان فرمایا، مفہوم : ’’ اللہ تعالی ٰ قیامت کے روز فرمائے گا: اے فرزند آدم! میں بیمار ہوا تو تُو مجھے دیکھنے نہیں آیا۔ بندہ کہے گا: پروردگار میں تیری بیمار پرسی کیسے کرسکتا تھا، تُو تو رب العالمین ہے۔ ارشاد ہوگا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار پڑگیا تھا تُو اس کی بیمار پرسی کو نہیں گیا، تجھے معلوم نہیں تھا کہ تُو اگر اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ پھر ارشاد ہوگا: اے فرزند آدم ! میں بھوکا تھا، میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو تُونے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ بندہ کہے گا: پروردگار! میں تجھے کیسے کھلا سکتا ہوں، تُو تو رب العالمین ہے۔

ارشاد ہوگا: تجھے معلوم نہیں میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، اس نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو تُونے اسے کھانا نہیں کھلایا، تجھے اس کی خبر نہیں تھی کہ اگر تُو اسے کھانا کھلاتا تو اس کو میرے پاس پاتا۔ پھر ارشاد ہوگا: اے فرزند آدم! میں پیاسا تھا میں نے تجھ سے پانی مانگا، تُونے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا: اے رب! میں تجھے پانی کیسے پلاسکتا تھا تُو تو رب العالمین ہے۔ ارشاد ہوگا: تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا، تُونے اسے پانی نہیں دیا تجھے اس کا پتا نہیں کہ اگر تُو اس بندے کو پانی پلاتا تو اس کو میرے پاس پاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔