’کتا‘ اب پارکنسنز کے مریضوں کی مدد کرے گا

 جانور کے سونگھنے کی حیرت انگیز صلاحیت اب مرض کی بروقت تشخیص کو ممکن بنائے گی


رانا نسیم December 14, 2025

کہتے ہیں روئے زمین پر قدرت کی تخلیق کردہ ہر چیز، چاہے وہ جان دار ہے یا بے جان، اپنی افادیت ضرور رکھتی ہے۔ انسان آگ، پانی، پہاڑ، پیڑ، پودے، پرند، چرند تقریباً سبھی سے فوائد سمیٹ رہا ہے، تاہم یہاں ہمارا موضوع سخن جانور ہے۔

ہمارے معاشرے یعنی ایک اسلامی ماحول میں حلال جانوروں کی اہمیت تو دوچند ہے لیکن جو جانور کھانے کے لئے حلال نہیں، ان کی دیگر خدمات ضرور حاصل کی جا رہی ہے، جیسے کہ روزمرہ کی زندگی میں ہم گدھے، گھوڑوں یا کتوں کو اپنے فوائد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ انسانی خدمت یا تعاون کے لئے اس دھرتی پر موجود غیرحلال جانوروں میں سے ایک کتا ہے، جو انسانی تاریخ میںہمیشہ سے اس کا وفادار رہا ہے، جس کی موجودگی بعض حالات میں انسان کو تحفظ کا احساس دلواتی ہے کیوں کہ وہ ایسا چوکیدار ہے، جو کبھی چوکتا نہیں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ عصرحاضر کی جدید میڈیکل سائنس نے بارہا تحقیقات کے ذریعے کتوں کی اس وفاداری کو ایک نئی سمت دی ہے، جس کا براہ راست تعلق انسانی صحت سے ہے، کتوں کے استعمال یا یوں کہیں کہ ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آج کی میڈیکل سائنس نے انسانی صحت سے متعلق متعدد پیچیدگیوں کو سلجھا لیا ہے۔ آج کی میڈیکل سائنس کا یہ کہنا ہے کہ ذہنی صحت سے لے کر دل کے امراض کی جانچ اور علاج تک کتا انسان کے لئے مفید ثابت ہو رہا ہے۔

کتوں کے ذریعے انسانی صحت کے دیگر فوائد کے ساتھ آج طب کی دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا ہونے جا رہا ہے۔ ایک حالیہ طبی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ کتوں میں سونگھنے کی حیرت انگیز صلاحیت پارکنسنز جیسی مہلک بیماری کی ابتدائی تشخیص میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ دریافت نہ صرف طب کی دنیا میں ایک انقلاب بلکہ ان لاکھوں مریضوں کے لیے امید کی کرن ہے جو اس مرض کے ساتھ برسوں سے زندگی گزار رہے ہیں۔ پارکنسنز بیماری اعصابی نظام کی ایک خطرناک بیماری ہے جو بنیادی طور پر انسان کی عضلاتی حرکات کے نظام کو متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری میں دماغ کے مخصوص حصے میں اعصابی خلیات بتدریج ختم ہونے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے ڈوپامائن نامی کیمیائی مادہ کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

ڈوپامائن انسانی حرکات کو ہموار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی کمی کے نتیجے میں مریضوں کو کپکپاہٹ، عضلاتی اکڑاؤ، جسمانی اعضاء کی حرکت میں سستی اور توازن برقرار رکھنے میں دشواری جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زائد افراد پارکنسنز بیماری کا شکار ہیں، جبکہ پاکستان میں بھی اس کے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ عام طور پر یہ بیماری 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو متاثر کرتی ہے، مگر کچھ کیسز میں یہ جوانی میں بھی ظاہر ہو سکتی ہے۔ موجودہ دور میں اس بیماری کی کوئی حتمی علاج دستیاب نہیں، تاہم ابتدائی تشخیص اور بروقت علاج کے ذریعے علامات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور مریضوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

کتے کی ناک انسانی ناک کے مقابلے میں 10,000 سے 100,000 گنا زیادہ حساس ہوتی ہے۔ ان کے پاس تقریباً 30 کروڑ سونگھنے کے رسیپٹرزreceptors (درد یا دباؤ کو محسوس کرکے دماغ کو پہنچانے کی صلاحیت) ہوتے ہیں، جبکہ انسانوں میں یہ تعداد محض 50 لاکھ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتے ایسی بُو کو محسوس کر سکتے ہیں جو انسانی ناک کے لیے بالکل غیر محسوس ہوتی ہے۔ حالیہ برسوں میں سائنسدانوں نے اس صلاحیت کو طبی تشخیص کے لیے استعمال کرنے پر کام شروع کیا۔ مختلف تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ کتے کینسر، ذیابیطس، مالٹیپل سکلیروسس (اعصابی نظام کو نقصان پہنچانے والی بیماری) اور دیگر بیماریوں کی بُو کو پہچان سکتے ہیں۔ اب پارکنسنز بیماری بھی اس فہرست میں شامل ہو چکی ہے۔

اس دریافت کا سفر 2015ء میں اسکاٹ لینڈ سے شروع ہوا جہاں ایک خاتون جو خود ایک ’’کتے کی سونگھنے کی صلاحیت‘‘ کی تربیت کار تھیں، نے محسوس کیا کہ ان کا کتا ان کے شوہر کی بُو میں تبدیلی پر غیر معمولی ردعمل ظاہر کر رہا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ جب بھی ان کا کتا ان کے شوہر کے قریب ہوتا، وہ بے چین ہو جاتا اور ان کی پیٹھ کے نچلے حصے کو سونگھنے کی کوشش کرتا۔ چھ سال بعد ان کے شوہر میں پارکنسنز بیماری کی تشخیص ہوئی۔ اس واقعہ نے سائنسدانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور وہ اس امکان کو جانچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا واقعی پارکنسنز بیماری کی ایک مخصوص بُو ہوتی ہے جو کتے محسوس کر سکتے ہیں۔

جولائی 2025ء میں جرنل آف پارکنسنز ڈیزیز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں، برطانیہ کی یونیورسٹیز آف برسٹل اور مانچسٹر کے حیاتیات اور کیمسٹری کے محققین نے میڈیکل ڈیٹیکشن ڈاگز نامی ادارے کے تعاون سے، دو کتوں کو ایک سال کے عرصے میں تربیت دی کہ وہ اپنی زبردست سونگھنے کی حس کا استعمال کرتے ہوئے پارکنسنز کی بیماری کو سونگھ کر پہچان سکیں۔ ایسا کرتے ہوئے، ٹیم نے تصدیق کی کہ ابتدائی پارکنسنز کا شکار افراد میں ایک ایسی بو ہوتی ہے جو انسانوں کے لیے محسوس نہیں ہوتی، لیکن مریضوں کی جلد سے لیے گئے Sebum( جلد کے غدودوںسے خارج ہونے والا مادہ، جسے عام طور قدرتی چکنائی یا جلدی تیل کہا جاتا ہے) سے جانور یعنی کتا انہیں پہچان سکتا ہے، جیسا کہ انہوں نے وضاحت کی کہ پارکنسنز کے مریضوں میں ایک ابتدائی غیرمرئی علامت سیبورائک ڈرمیٹائٹس (ایک حیاتیاتی مادہ) ہوتی ہے، جس میں یہ مادہ ضرورت سے زیادہ خارج ہو رہا ہوتا ہے۔

بمپر نامی ایک گولڈن ریٹریور اور پینٹ نامی ایک بلیک لیبراڈور کتوں کو پارکنسنز بیماری سے متاثرہ افراد کے 200 سے زائد بُو کے نمونوں کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کے کنٹرول نمونوں کے ذریعے تربیت دی گئی جو بیماری سے متاثر نہیں تھے۔ اس تحقیق میں مختلف نسلوں کے کتوں کو شامل کیا گیا اور انہیں خاص طور پر تربیت دی گئی کہ وہ پارکنسنز کے مریضوں کے جلد کے نمونوں میں موجود مخصوص کیمیائی مرکبات کی بُو کو پہچان سکیں اور نتائج حیرت انگیز تھے۔

تحقیق میں شامل کتوں نے 90 فیصد درستگی کے ساتھ پارکنسنز کے مریضوں کو صحت مند افراد سے الگ کرنا سیکھ لیا۔ یہاں تک کہ ان کتوں نے ان مریضوں کو بھی شناخت کر لیا جن میں بیماری کی علامات ابھی واضح طور پر ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پارکنسنز بیماری انسانی جسم میں sebum کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پارکنسنز کے مریضوں کے sebum میں ہائیڈروکاربن مرکبات کی مقدار نمایاں طور پر زیادہ ہوتی ہے، اور یہی وہ بُو ہے جو کتے محسوس کر سکتے ہیں۔

اس دریافت کے طب کی دنیا میں دوررس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ موجودہ طریقوں سے پارکنسنز کی تشخیص اس وقت ہو پاتی ہے جب 60 سے 70 فیصد تک اعصابی خلیات تباہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ کتوں کی مدد سے بیماری کو بہت پہلے پکڑا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ بلڈ ٹیسٹ یا اسکین جیسے پیچیدہ ٹیسٹوں کا متبادل ہو سکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ایک سستا اور مؤثر طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ طریقہ علاج کی تاثیر کو جانچنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے یہ دریافت خاصی اہمیت رکھتی ہے، جہاں اعصابی امراض کے ماہر ڈاکٹرز کی تعداد مریضوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ کتوں کی مدد سے ابتدائی تشخیص کا یہ طریقہ ہزاروں خاندانوں کے لیے نعمت ثابت ہو سکتا ہے۔ سائنسدان اب ’’الیکٹرانک ناک‘‘ تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں جو کتوں کی سونگھنے کی صلاحیت کی نقل تیار کر سکے۔ یہ آلہ انہی کیمیائی مرکبات کو شناخت کر سکے گا جو کتے محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح، دنیا بھر میں ’’میڈیکل ڈیٹیکشن ڈاگز‘‘ کے تربیتی مراکز قائم ہو رہے ہیں جہاں کتوں کو مختلف بیماریوں کی شناخت کے لیے تربیت دی جا رہی ہے۔

اگرچہ یہ تحقیق بہت امید افزا ہے، لیکن اس کے سامنے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ کتوں کی تربیت کا عمل وقت طلب اور مہنگا ہے۔ مختلف نسلوں کے کتوں کی کارکردگی میں فرق ہو سکتا ہے۔ ماحولیاتی عوامل بُو کی شناخت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس طریقے کو طبی معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔ کتوں کی سونگھنے کی حیرت انگیز صلاحیت کا پارکنسنز کی تشخیص سے تعلق قدرت اور سائنس کے درمیان ایک خوبصورت رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ دریافت نہ صرف طب کی دنیا میں ایک نئی کھڑکی کھولتی ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ قدرت نے ہمارے اردگرد کتنی حیرتیں چھپا رکھی ہیں جنہیں ہم اب تک پوری طرح سمجھ نہیں پائے ہیں۔

جیسے جیسے سائنس آگے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ہمیں یہ احساس ہو رہا ہے کہ علاج معالجے کے نئے راستے صرف لیبارٹریوں میں ہی نہیں بلکہ ہمارے اردگرد کی فطرت میں بھی موجود ہیں۔ شاید مستقبل قریب میں ہم ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ ’’میڈیکل ڈیٹیکشن ڈاگز‘‘ کو ہسپتالوں میں کام کرتے دیکھیں گے، جو نہ صرف مریضوں کی خدمت کریں گے بلکہ انہیں بیماریوں سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ پارکنسنز سے متاثرہ مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے یہ تحقیق ایک نئی امید کی کرن ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں کتوں کی یہ صلاحیت نہ صرف پارکنسنز بلکہ دیگر کئی بیماریوں کی بروقت تشخیص میں اہم کردار ادا کرے۔ اور انسانوں اور کتوں کے درمیان یہ رشتہ صحت کی بحالی کی نئی داستانیں لکھے۔

مقبول خبریں