انسان کا مقصدِ تخلیق

راحیل گوہر  جمعـء 9 نومبر 2018
انسان کے ازلی دشمن شیطان نے ہر قدم پر انسانوں کو پھانسنے کے لیے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ فوٹو: فائل

انسان کے ازلی دشمن شیطان نے ہر قدم پر انسانوں کو پھانسنے کے لیے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ فوٹو: فائل

سورۃ الذاریات میں انسان کی تخلیق کا مقصد خالقِ کائنات نے اپنی عبادت بیان کیا ہے۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘

علامہ ابن کثیرؒ ’’تفسیر مظہری‘‘ میں اس آیۂ مبارکہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’ میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی کسی ضرورت کے لیے پیدا نہیں کیا، بل کہ صرف اس لیے کہ ان کے نفع کے لیے اپنی عبادت کا حکم دوں، وہ خوشی ناخوشی میرے معبود ِ برحق ہونے کا اقرار کریں، مجھے پہچانیں۔‘‘

اسی ضمن میں ایک حدیث قدسی ہے، مفہوم : ’’ اے ابنِ آدم! میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا، مَیں تیرا سینہ تونگری سے پُر کردوں گا۔ اور تیری فقیری روک دوں گا۔ اور اگر تُونے ایسا نہ کیا تو مَیں تیرے سینے کو اشغال سے بھر دوں گا اور تیری فقیری کو ہرگز بند نہ کروں گا۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی، ابنِ ماجہ)

عبادت کے لغوی معنی، غایت درجہ عجز و تذلّل کے ہیں۔ علامہ زمخشریؒ لفظِ عبادت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ وہ راستہ جو آمد و رفت کی کثرت سے پامال ہوگیا ہو۔‘‘

امام راغب اصفہانیؒ کے خیال میں ’’عبادت‘‘ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت و انکساری ظاہر کر نے پر بولا جاتا ہے۔ لہٰذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بے حد صاحب افضال و انعام ہو اور ایسی ذات صرف ذاتِ الٰہی ہے۔ اسی لیے فرمایا : ’’اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘

امام الشّوکانی اپنی تفسیر ’’ فتح القدیر ‘‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ شرع میں عبادت اس کو کہتے ہیں جو انتہائی محبت، فروتنی اور خوف کی جامع ہو۔‘‘ عبادت کے ایک معنی اطاعت کے بھی ہیں، اس لیے کہ عجز و تذلّل اور پرستش و اطاعت اور انقیاد کے لازمی اور منطقی نتائج ہوتے ہیں، اطاعت و فرماں برداری میں عجز و فروتنی کا اظہار لازمی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی ہستی کی عبادت کی جائے اس کی اطاعت و فرماں برداری میں زندگی گزاری جائے اور انسان کے افعال میں عاجزی، انکساری اور فروماندگی کا رنگ غالب نہ ہو۔ اسی لیے قرآنِ حکیم میں عبادت کے مقابل لفظ استکبار آیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے، مفہوم: ’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے وہ (اللہ) ان کو ان کا پورا بدلہ دے گا اور اپنے فضل سے (کچھ) زیادہ بھی عنایت کرے گا۔ اور جنہوں نے (بندہ ہونے سے) عار و انکار اور تکبر کیا ان کو وہ تکلیف دینے والا عذاب دے گا اور یہ لوگ اللہ کے سوا اپنا حامی اور مدد گار نہ پائیں گے۔‘‘ (النساء)

بندگی و اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے، خواہ اس کی علت سمجھ میں آئے یا نہ آئے، بے چُوں چرا سر جھکا دینے کا نام عبادت ہے۔ عباد ت کی ان تمام وضاحتوں سے یہ حقیقت افشاء ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا آیہ مبارکہ سے مراد یہاں فقہ کی کتاب العبادات والی عبادتِ پنج گانہ نہیں ہے بل کہ اپنے وسیع و عام مفہوم میں طلب رضا الٰہی مقصود ہے۔ امام رازی ؒ نے ’’ تفسیر کبیر ‘‘ میں فرمایا ہے: ’’ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں۔ ایک امرالٰہی کی تعظیم ، دوسرے خلق اللہ پر شفقت، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ۔‘‘

اللہ کی تمام مخلوقات میں جن و انس ہی ایسی دو مسؤل اور ذمے دار ہستیاں ہیں جن کے اندر خیر و شر کا مادہ رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس فرشتے ابتلاء و آزمائش سے عاری ہیں اور حیوانات اختیار و ارادہ سے تہی دست، ما سوا خوراک و افزائش ِ نسل کے جبلی شعور کے۔ پوری طرح شعوری ادراک اور استعدادات ِ علم کی صلاحیتوں کا فہم و شعور جن و انس کو ہی دے کر دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ سماعت و بصارت اور اختیار و ارادے کی آزادی مہیا کر کے ان دونوں مخلوقات کو اپنے خالق و مالک کے رُو بہ رُو اپنے افکار و افعال کے لیے مکلف بنایا گیا ہے۔

چناں چہ اپنی تکمیل ذات اور اللہ کا مطلوب انسان بننے کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس دنیا کے ہر شعبۂ زندگی میں عبادت کی راہ اختیار کریں، کہیں بھی ان کے پائے استقلال میں لرزش نہ آنے پائے اور عبد و معبود کے تعلق میں رخنہ اندازی نہ ہو۔ اپنے وجود کی علت غائی اسی عبادت کی صحت کو سمجھیں۔ مقامِ عبدیت انسان کو اپنے کردار کی بلندی اور روحانی ترفع کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اور عبدیت کی روح جتنی مضمحل ہوتی جائے گی، اس کی تکمیل ِ ذات تشنہ کام رہے گی۔

المیہ یہ ہے کہ عام الناس کا تصور عبادت محدود ، مبہم اور ناقص ہے۔ محض نماز، روزہ اور حج ان کی عبادات کا محور ہوتا ہے۔ ادائیگی زکوٰۃ ان کے تصور عبادت کا لازمی جزو نہیں ہے، الا ماشاء اللہ! قربانی، تلاوتِ قرآن اور کچھ مسنون دعاؤں پر ان کا دین مکمل ہوجاتا ہے۔ ان ظاہری اعمال و اشغال کی تکرار نے اس عوام الناس کو عبادت کی اصل روح سے لا علم رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی سے رسمی سا ربط و تعلق اور زندگی کے دیگر حساس معاملات میں اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانیوں کا ارتکاب عام روش ہے۔ تمام زور اور حساسیت حسنِ ظاہر پر ہی مرکوز ہوتا ہے۔ کیوں کہ انسانوں کی اکثریت پیکر محسوس کی خوگر ہوتی ہے۔ ان کے پاس بصارت تو ہوتی ہے مگر بصیرت سے تہی دست ہوتے ہیں۔

اللہ کی بندگی و اطاعت کی راہ میں انسان اپنے نفس کے تقاضوں کی وجہ سے ساری عمر آزمائش میں مبتلا رہتا ہے۔ انسان کے ازلی دشمن شیطان نے ہر قدم پر انسانوں کو پھانسنے کے لیے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ اگر وہ ذرا سا بھی غفلت کا شکار ہوتا ہے تو ان میں ایسا پھنستا ہے کہ بعض اوقات اس سے چھٹکارا پانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ وہ شیطان کا نفس ہی تو تھا جس نے اسے اللہ کی حکم عدولی پر مجبور کیا۔ چناں چہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کی سرتابی پر شیطان سے دریافت کیا، مفہوم: ’’ (اللہ نے ) فرمایا کہ اے ابلیس ! جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا ؟ تو غرور میں آگیا یا اونچے درجے والوں میں تھا؟ بولا کہ میں اس سے بہتر ہوں (کہ) تُونے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے بنایا۔‘‘

یہ شیطان کا وہ سرکش نفس ہی تھا جس نے شیطان کو اس کے خالق کی حکم عدولی پر راغب کیا اور اس کے نفس نے یہ سوچنے نہیں دیا کہ حکم دینے والی ہستی کون ہے۔ جس نے جن و انس اور تمام مخلوقات کو تخلیق کیا اور انھیں زندگی بخشی ہے اور کس شے کو کس مادہ اور کس خمیر سے بنانا ہے اس کی حکمت تو اس شے کا خالق ہی بہتر سمجھتا ہے، وہ اللہ مصور کائنات بھی ہے اور مدبر کائنات بھی، وہ علم والا بھی ہے اور ہر شے سے باخبر بھی۔ ہم اللہ کی مصلحتوں اور حکمتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔

انسان کو علم کا ایک انتہائی قلیل حصہ دے کر دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ وہ اپنی بندگی کی غرض و غایت کو بھی نہیں سمجھ سکتا جب تک اللہ کی ہدایت اس کی راہ نمائی نہ کرے۔ اس لیے ایک بندۂ مومن کا کام یہ ہے کہ کسی حکم کی علت کو سمجھے بغیر اس پر عمل پیرا ہوجائے۔ اگر عبادات و معاملات میں کسی طرح بھی ریب و تردد ذہن میں پیدا ہو تو اس کی فہم کے لیے اللہ سے ہی درخواست کرے کہ وہ اس الجھن کو رفع کر کے اس کو شرح صدر عطا فرما دے۔ اللہ کے حکم کی نافرمانی تکبر و گھمنڈ کی علامت ہے جو اس کے غضب کو دعوت دیتی ہے۔

عبادات دراصل عبدیت اور بندگی کی عملی شکل ہے۔ عبدیت درحقیقت وہ مربوط رشتہ ہے جو بندے اور اس کے معبود کے مابین قائم ہوتا ہے۔ اور یہی وہ رشتہ ہے جو اپنے درمیان کسی دوسرے رشتے کا حائل ہونا برداشت نہیں کرتا۔ اور اپنے مابین کسی قسم کے اشتراک اور آمیزش کو پسند نہیں کرتا، اور اس کی صحت و درستی اور اخلاص کو ہی عبادت کہا گیا ہے۔ اور اس عبادت کا تصور اسلام میں محض چند مخصوص مرسم عبادات کا ادا کرلینا ہی نہیں ہے بل کہ یہ ایک ہمہ گیر تصور ہے۔

حضرت براء ؓ روایت کر تے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جانتے ہو ایمان میں سب سے مضبوط عمل کون سا ہے؟ ہم نے عرض کیا نماز، فرمایا بے شک نماز کا تو کیا کہنا ہے لیکن اس کا دائرہ دوسرا ہے۔ ہم نے عرض کیا تو پھر روزے، آپؐ نے اس پر بھی یہی فرمایا یہاں تک کہ ہم نے جہاد کا نام لیا تو اس پر بھی آپؐ نے وہی ارشاد فرمایا، اس کے بعد کہا، سب سے مضبوط عمل یہ ہے کہ خدا ہی کے لیے دوستی اور خدا ہی کے لیے دشمنی، اسی کے نام پر محبت اور اسی کے نام پر بغض رکھنا۔‘‘ (طبرانی، مسند ابو داؤد، طیالسی)

اس حدیث مبارکہ کی شرح میں حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی ’’ ترجمان السنہّ‘‘ میں لکھتے ہیں : نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ بلاشبہ اسلام کے بنیادی ارکان ہیں، اور اس کی نفی قطعاً نہیں کی جاسکتی، مگر اس حدیث مبارکہ میں جن افعال کا ذکر کیا گیا ہے وہ چوں کہ مسلمانوں کی اجتماعی اور سماجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس حیاتِ انسانی میں بعض اجتماعی عمل اتنے اہم اور ناگزیر ہوتے ہیں کہ بعض اوقات اکثر انفرادی اعمال کی بجا آوری ان ہی اعمال کی ادائیگی پر منحصر ہوتی ہے۔ اور یہ ارکانِ عبودیت دین میں موقوف علیہ کا مقام رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کا مرتبہ وہ ہوتا ہے جو قالب کے لیے قلب کا اور جسم کے لیے روح کا!

ایک مومن کے لیے لازمی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبدیت کے تقاضوں کی تکمیل میں اپنی عقل اور مرضی کو بالا ئے طاق رکھ کر احکامِ الٰہی کو فوقیت دے۔ بنیادی ارکانِ اسلام انسانی زندگی میں پیش آنے والے گھمبیر معاملات کی ادائیگی میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ ہر انسان کو اس دنیا میں سرد و گرم جھیلنا پڑتے ہیں جن کی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے انسان حیران و سرگرداں ہوتا ہے۔ اس کٹھن وقت میں اللہ کی عبادت اور اس کی طرف رجوع ہونا ہر مشکل کا حل نکال دیتا ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے: ’’ مصیبت اور پریشانی کے وقت صبر اور نماز سے اللہ کی مدد حاصل کرو۔‘‘

اور یہی جن و انس کا مقصد تخلیق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔