لندن فسادات

ثمینہ رشید  اتوار 11 نومبر 2018
روک تھام کے لئے کیا کچھ کیا؟ ہم کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں؟ فوٹو: فائل

روک تھام کے لئے کیا کچھ کیا؟ ہم کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں؟ فوٹو: فائل

چار اگست دو ہزار گیارہ، لندن کے علاقے ٹوٹنم میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام ’مارک ڈگن‘ کی موت کا معاملہ سامنے آیا اورعلاقے میں حالات کشیدہ ہوگئے۔

اگلا دن معاملات مزید بگڑے، پولیس پر حملوں کے واقعات سامنے آئے، کشیدگی سیاہ فام اکثریت کے مزیدعلاقوں تک پھیل گئی۔ پھر چھ اگست، لندن بلکہ انگلینڈ کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا۔’لندن فسادات‘ کے نام سے پہچانے جانے والا یہ دن عجیب و غریب قسم کی انارکی لے کر آیا جو مارک ڈگن کے مرنے پر ہونے والے احتجاج سے کہیںزیادہ تھی۔ اس دن لندن کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے شاپنگ مالز، ہائی اسٹریٹ پر واقع دکانوں پر منظم قسم کے حملے کئے گئے، ظاہر ہے کہ اس کا مقصد باقاعدہ لوٹ مار کرنا تھا۔

بدقسمتی سے اس میں سب سے زیادہ نوجوان شامل تھے۔ لندن میں لوٹ مار کے واقعات ہونے کی دیر تھی کہ انگلینڈ کے دیگر بڑے شہروں جن میں برمنگھم، مانچسٹر، برسٹل، ڈربی، لیسٹر ، ناٹنگھم اور لیور پول شامل تھے، میں بھی فسادات کی آڑ میں بڑے شاپنگ سینٹرز کی شاپس پر باقاعدہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے منظم حملے کئے، توڑ پھوڑ اور جی بھرکر لوٹ مار بھی کی گئی، ان حملوں کو جو لندن طرز کے تھے ’’کاپی کیٹ‘‘ کا نام دیا۔

یہ سلسلہ چھ سے گیارہ اگست تک جاری رہا۔ایک کے بعد دوسرے شہر میں ہونے والے یہ ہنگامے کسی سیاہ فام کی موت کا احتجاج نہیں بلکہ منظم لوٹ مار کی مہم بن گئے۔ ابتدائی فسادات کے دوران پانچ لوگ جان سے گئے اور سولہ سے زائد زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ ہونے والے نقصانات اور لوٹ مار  کا تخمینہ دو سو ملین پاؤنڈز سے زائد لگایا گیا۔ ان ہنگاموں کے دوران ایک سو چھیاسی پولیس افسران اور تین کمیونٹی پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔ پانچ اگست سے دس اگست کی شام تک تین ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

ایک ہزار سے زائد پر مختلف جرائم پر مبنی کریمنل چارجز لگائے گئے۔ یادرہے کہ صرف لندن میں رپورٹ ہونے والے فسادات کے واقعات تین ہزار چارسو سے زائد تھے۔ انہی واقعات میں تشدد کے وہ واقعات بھی شامل تھے جن کے نتیجے میں پانچ لوگ ہلاک اور سولہ سے زائد زخمی ہوئے۔ یکم ستمبر کو سرکاری اعدادوشمارجو وزارت انصاف نے شائع کیے،کے مطابق ساڑھے پندرہ سوافراد کو فساد کے الزام کے ساتھ کورٹ میں پیش کیا گیا جن میں سے ایک ہزار سے زائد کا تعلق لندن سیتھا۔ ایک سو نوے مانچسٹر، ایک سو بتیس ویسٹ مڈلینڈ ، دو سو چونتیس ناٹنگھم اور دیگر علاقوں سے۔

فسادات، گرفتاریوں میں ٹیکنالوجی اور  سوشل میڈیا کا کردار

فسادات کے بارے میں تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی نے لندن فسادات اور پھر دوسرے شہروں میں ہونے والے ’کاپی کیٹ‘ فسادات میں اہم کردار ادا کیا جن میں فون، ویب سائٹس جیسے فلکر، گوگل میپ سے جمع ہونے کی جگہ کی نشاندہی ، بلیک بیری میسینجر ز، فیس بک وغیرہ کا استعمال شامل تھا۔ بلیک بیری میسینجر کو باقاعدہ لوٹ مار کی وارداتوںکی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کیا گیا۔ اسی طرح ٹوئیٹر کو میسیجز کو تیزرفتاری سے پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

بعدازاں یہی سارے جدید ذرائع ان مجرمان کو پکڑنے میں بھی کام آئے اور ان کے خلاف ثبوت کے طور پر استعمال ہوئے۔ فسادات پر قابو پانے کے بعد پندرہ اگست کو ایک منظم آپریشن شروع کیا گیا، اس دوران بڑی ٹیلی فون کمپنیز سے ان سارے فون کا ڈیٹا منگوایا گیا جو فسادات کی جگہ پر آن تھے۔ سوشل میڈیا پر خصوصاً فیس بک پر جن لوگوں (خصوصاً نوجوانوں) نے لوٹ مار کرتے اور برنڈاڈ سامان لوٹ کر ان کے ساتھ اپنی تصویریں فیس بک پر اپ لوڈ کیں تھیں انہیں بھی ٹریس کرکے اٹھایا گیا۔ اس کے علاوہ بلیک بیری میسینجرز کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی گئی جبکہ الیکٹرانک میڈیاسے فوٹیج حاصل کرکے فسادات میں ملوث لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا۔ ان سب جدید ذرائع کے علاوہ سی سی ٹی وی اور شاپنگ مالز اور شاپس کے کیمروں کے ذریعے بھی لوگوں کی شناخت کرنے کا کام کیا گیا۔ اس طرح ہزاروں لوگ نیٹ میں آئے اور گرفتار ہوئے۔

حکومت اور عدلیہ کا کردار

وسیع  پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں کو ہینڈل کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کے حوالے سے صرف پولیس نے کردار نہیںکیا بلکہ عدالتوں میں ججز نے اپنی چھٹیاں منسوخ کیں اور رات رات بھر کام کرکے اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھا۔ ایک مہذب ملک کے لئے اپنے ہی ملک کے نوجوانوں  کو اس طرح مجرمانہ کاروائیاں کرتے دیکھنا ایک امتحان سے کم نہ تھا۔ بعض قوانین بھی ایسے تھے کہ جن کے تحت گرفتار شدگان کو مخصوص وقت تک عدالت میں پیش کرنا لازمی تھا۔ اس حوالے سے حکومت نے ججز کو نارمل گائیڈ لائنز کو نظر انداز کرکے ان کی جگہ صورتحال کے مطابق سخت سزاؤں پر غور کرنے کی درخواست کی۔ حکومت، اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتیں اس معاملے میں ہم آواز  اور قانون کی بالادستی اور سزاؤں کی حامی تھیں۔

اس ضمن بچوں کے عالمی قوانین کو بھی نظر انداز کرکے ایک بارہ سالہ بچے کو سزا سنائی گئی جو ایک تاریخی فیصلہ تھا۔ اس ضمن میں عالمی بچوں کے حقوق کے اداروں اور تنظیموں کی تنقید کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔ ایک عورت کو صرف اس لئے سزا دی گئی کہ اُس نے لوٹ مار کے ذریعے حاصل کئے گئے کپڑے وصول کئے۔ فسادات کے چند ماہ بعد پچیس اپریل دو ہزار بارہ کو کورٹ آف اپیل نے ایک نوجوان کو لوئر کورٹ سے چوری ، لوٹ مار اور فسادات کے مقدمہ میں ملنے والی چار سال کی سزا  بڑھا کر سات سال کردی۔

پریس کا کردار

دنیا بھر کے میڈیا نے فسادات کی کوریج کی اور قومی میڈیا نے ان فسادات کو 1995ء کے بریکسٹن فسادات کے بعد بدترین فسادات قرار دیا۔ برطانیہ کے روزنامہ ’سن‘ نے اسے شرمناک قرار دیا کہ 2012ء کے اولمپکس سے سال پہلے یہ سب برطانیہ میں ہوا جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں برطانیہ کی ساکھ پرسوالیہ نشان اٹھا۔ڈیلی ٹیلی گراف نے لکھا کہ اس صورتحال میں اس اکثریت کو جو قانون کی پابند ہے کو تحفظ دینا چاہئے اور اس طرح کے فساد کرنے والے کو سخت سزا دے کر قانون کے احترام کا سبق سکھانا چاہیے۔

میڈیا پر پولیس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا جو بارہ گھنٹے تک لندن میں لوٹ مار کو روک نہ سکی۔ لوگوں نے تنقید کی کہ کم از کچھ روایتی طریقوں سے فسادات کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا جیسے واٹر کینن وغیرہ جو سینئر افسران کے فیصلے کی وجہ سے استعمال نہ ہوسکے اور پبلک پراپرٹی کو نقصان ہوا۔ ان سارے ہنگاموں میں اقلیتی کمیونٹی نے اپنی عبادت گاہوں کی خود حفاظت کی تاکہ شر پسند عناصر موقع کا فائدہ اٹھا کر کسی اور قسم کے فسادات شروع نہ کردیں ساتھ ہی کمیونٹی کے لوگوں نے مل کر اپنے علاقے میں لوٹ مار کرنے والوں کو روکنے اور بھاگنے پر بھی مجبور کیا۔ برمنگھم میں تین  پاکستانی نوجوان اس موقع پر اپنے پڑوسی کو بچاتے ہوئے  ’ہٹ اور رن ‘ کا شکار ہوکر جان گنوا بیٹھے۔ اس واقعے پر پورے برطانیہ میں ان کا سوگ منایا گیا اور سرکاری سطح پر انھیں اس قربانی پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان فسادات کے اعدادوشمار جیسے جیسے سامنے آتے گئے، واضح ہوتا گیا کہ فسادات میں شامل 41 فیصد سفید فام، 39 فیصد سیاہ فام، 12 فیصد مکسڈ گروپ ، 6 فیصد ایشین اور دو فیصد دیگر گروپس تھے۔ اس میں سیاہ فام گینگ اور ریپ کلچر نے دوسرے گروپس پر گہرے  اثرات مرتب کیے ہیں۔

معاون عناصر

معاملہ انہی گرفتاریوں اور سزاؤں پر ہی ختم نہ ہوا بلکہ ان فسادات کے بعد طویل عرصہ تک ان فسادات کے عوامل پر غور کیا جاتا رہا۔ جس میں سماجی اور معاشی معاملات کو بھی دیکھا گیا۔ یہ اقعات میڈیا اور اکیڈمک مباحث کا حصہ بنے رہے۔جن سماجی و معاشی عوامل پر غور کیا گیا ان میں بے روزگاری، حکومت کی طرف سے دئیے جانے والے الاؤنسز میں کمی، اس کے علاوہ سوشل میڈیا، گینگ کلچر اور جرائم کے مواقع ملنا شامل ہیں۔ پارلیمنٹ کی ایک سلیکٹ کمیٹی نے پولیس رسپانس کے حوالے سے بھی انکوائری کمیٹی بنائی تاکہ خامیوں کا اندازہ لگایا جاسکے۔ بہت سے پبلک سروس میسجز کیے گئے جن میں عوام سے رائے لی گئی اور ان فسادات کے عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ ’لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پالیٹیکل سائنس‘ کے تحت ایک اسٹڈی پروجیکٹ ‘‘ Reading the Riots’’ کے ذریعے  فسادات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ ان ساری کوشش سے جو عوامل سامنے آئے وہ درج ذیل ہیں:

سرفہرست عوامل میں  سوشل ایکسکلیوزن/ سماجی اخراج کو سرفہرست رکھا گیا کہ یہ لوگ خود کو معاشرے کے ساتھ مربوط نہیں کرسکے۔ اس میں ایک طرف امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج ، بے روزگاری اور معاشی ناہمواری وغیرہ کو قرار دیا گیا تو دوسری طرف اسے ایک ایسی نوجوان نسل سمجھا گیا جو ایک الگ ہی دنیا میں رہتی ہے اور خود کو معاشرے کی مین سٹریم سے جوڑنے سے قاصر  رہتی ہے اور اکثر ترقی یافتہ قوم میں ایسا ایک گروپ ہوتا ہے۔ بروکن فیملی یا میل رول ماڈل کا سامنے نہ ہونا بھی اس قسم کے گینگسٹر کلچر اور کرمینل سوچ کی ایک وجہ قرار دیا گیا۔ دو ہزار آٹھ کی عالمی کساد بازاری کے اثرات سے نمٹنے والی معیشت میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کو بھی ایک وجہ سمجھا گیا جس کی وجہ سے حکومتی ویلفئیر بجٹ میں کٹوتی اور اس کا براہ راست لوگوں پر پڑنے والا اثر تھا جس علاقے سے یہ فساد شروع ہوئے اسے لندن میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح والا علاقہ سمجھاجاتاہے۔

ایک اور اسٹڈی کے مطابق اس میں ایک فیکٹر جرم یا فساد ایک فن یا تھرل کے طور پر کرنے والے بھی شامل تھے جن میں معاشی طور ہر خوشحال فیملیز کے بچے بھی شامل تھے۔گینگسٹر کلچر کا فروغ اور نوجوانوں میں اس کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ایک وجہ سمجھی گئی۔ ایک اور وجہ کرائم کرنے کا رجحان اور لالچ قرار دی گئی جو موقع ملتے ہی حاوی ہوکر اس طرح کے فساد اور لوٹ مار کی وجہ بنی۔ ایک اور  وجہ عموماً اس طرح کے کرائم کیسز میں کم سزا یا  نرم سزاؤں کا ہونا قرار پایا جو لوگوں کو جرم کرنے سے روکنے میں ناکام رہیں۔ یونیورسٹی آف لیسٹر نے ’’میڈیا اور فسادات، کال فار ایکشن‘‘ کے نام سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جہاں اس واقعے کے حوالے سے میڈیا کے کردار کو زیر بحث لایا گیا اور فساد سے متاثرہ کمیونٹی اور میڈیا کے درمیان بہتر تعلقات پر بات کی گئی۔

ہمارے لئے سبق

آپ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مہذب ممالک جہاں قانون کی حکمرانی ہے وہاں  قانون ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹا جاتا ہے، قانون کی حکمرانی اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے جتھوں کو عام قوانین سے ہٹ کر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔  وہاں چیزوں کو، واقعات کو سرسری نہیں لیا جاتا بلکہ مسئلے کی بنیادوں کوسمجھے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مختلف سرویز اور اسٹڈیز سے عوامل کو سمجھا جاتا ہے  اور پھر ان عوامل کو مد نظر رکھ کر پالیسیز بنائی جاتی ہیں اور ان مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی لانگ ٹرم پلاننگ کی جاتی ہے۔ اس تحریر کے تناظر میں اگر پاکستان میں  حالیہ  اور گزشتہ برس ہونے والے دھرنوں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات اور ان کی طرف سے  پبلک پراپرٹیز کو پہنچائے جانے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو اس مسئلے کے دو ہی حل ہیں:

قانون کی حکمرانی کے لئے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو قانون کے دائرے میں لاکر عدالتی نظام کے تحت سزائیں دی جائیں۔ ساتھ ہی ان عناصر کو اس شر پسندی کی طرف اکسانے والے اسباب و عوامل کا مستقل سد باب بھی کیا جائے۔ ان کے پیروکاروںکو معاشرے کا بہتر طور پر حصہ بنانے اور ایک مفید شہری بنانے کے لئے لانگ ٹرم پالیسیز بھی بنائی جائیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ مذہبی شدت پسندی کی وجہ کیا ہے؟ اکسانے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ اس طرح ان تمام عوامل کو زیر بحث لایا جائے جو ان لوگوں کو تشدد اور جرم پر بہ آسانی مائل کرتے ہیں، اس کے سد باب کے لئے منصوبہ بندی اور لانگ ٹرم پلاننگ کی جائے۔

ان تمام پرتشدد کاروائی میں ملوث ہونے والوں کی یہ ذہنی کیفیت کسی ایک دن کے واقعے کی دین نہیں ہوتی۔  آسیہ رہائی  کے علاوہ  بھی ہمارے ہاں کوئی  واقعہ ہوتا، اس کا یہی ردعمل آنا ہی ہوتا ہے۔ اس لئے ان سب کو کسی ایک واقعے سے لنک  نہیں کیا جاسکتا ہے۔  اس کے پیچھے کئی برسوں کی ذہنی تربیت کا دخل ہوتا ہے۔ اس لئے جرم کی سزا کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور نفسیاتی بہتری کا اہتمام کیا جائے۔ ان کے معاشی اور معاشرتی مسائل کو سمجھ کر ان کو کم کیا جائے، جس میں تعلیم کی کمی، بے روزگاری ، معاشی ناہمواری اور آگے بڑھنے کے مواقع کی کم فراہمی ہے۔ جب تک حکومت اس ضمن میں جدید طریقوں، میڈیا، ریسرچ اسٹڈیز، دانشوروں اور عوامی سروے/ رائے کی مدد سے حقیقی عوامل کو سامنے لانے اور انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ مذہبی بلیک میلنگ کا یہ عفریت قابو سے باہر ہوتا چلا جائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے نیشنل ایکشن پلان پر سب سیاسی جماعتوں کو نظرثانی کرنے کی دعوت دی جائے، اب خصوصی طور پر بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی پر فوکس کیا جائے اور اس پر ایک مرتبہ پھر پورے عزم و ارادے سے کم کیا جائے۔ سماجی اخراج کے فیکٹر کو خصوصی طور پر دیکھا جائے کہ ایسا کیوں ہے اور ان سب کو معاشرے کا مثبت حصہ کیسے بنایا جائے۔ یہ کسی صوبے کا مسئلہ نہیں کسی زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اس پر ساری سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر ہوکر کام کرنا ہوگا۔ بہتر تعلیم، مذہبی تعلیم میں شدت پسندی کے پہلو کا جائزہ اور اس کا خاتمہ ، معاشی حالات کی بہتری اور روزگار کے بہتر مواقع کی فراہمی میں اضافہ کے ذریعے ہی لانگ ٹرم میں اس مسئلے کا خاتمہ ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔