دوسری جنگِ عظیم کے دیے زخم آج بھی تازہ

فرحین شیخ  اتوار 18 نومبر 2018
بوڑھے نازی کٹہرے میں، فرانسیسی صدر کے بیان نے ہلچل مچادی۔ فوٹو: فائل

بوڑھے نازی کٹہرے میں، فرانسیسی صدر کے بیان نے ہلچل مچادی۔ فوٹو: فائل

جنگِ عظیم دوم کی ہول ناک تباہی و بربادی کے شعلے تو کب کے سرد پڑ چکے، مادی نقصانات کی بھی بڑی حد تک تلافی کرلی گئی لیکن روح کے گھاؤ اب تک نہ بھر سکے۔

انسانی خون سے بجھائے جانے والے ان شعلوں سے راکھ جھڑ جھڑ کر اب بھی انسانی تاریخ کے پنوں کو آلودہ کر تی ہے اور انسانیت جنگِ عظیم کے مرقد کے سامنے بے بس کھڑی کی کھڑی رہ جاتی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے شعلوں کی یاد اس وقت جرمنی اور فرانس میں اپنے پنجے گاڑ رہی ہے، جہاں ماضی کی طرف ایک بار پھر گردنیں مڑیں اور سوالات جنم لے رہے ہیں۔

فرانس کے صدر ایمیل میکرون نے گذشتہ ہفتے ایک ایسا بیان دیا کہ پورے ملک میں ان کے خلاف نفرت کی لہر پھیل گئی اور وہ ہر سطح پر ملامت کا نشانہ بنائے گئے۔ میکرون نے دوسری جنگ عظیم میں نازی فوج کے شراکت دار اس وقت کے فرانسیسی صدر مارشل فلپ پیٹن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ درحقیقت پہلی جنگ، عظیم کے بہترین سپاہی اور ہیرو تھے۔ اس بیان پر فرانس میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔

عوام نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جنگ عظیم میں فلپ پیٹن کا نازی افواج کے گھناؤنے مقاصد میں شراکت داری ایک ایسا سنگین جرم تھا جس کو نظرانداز کرکے انہیں پہلی جنگ عظیم کا ہیرو قرار دینا فرانسیسی عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

مارشل فلپ فرانس کا وہ صدر تھا جس پر دوسری جنگ عظیم کے بعد غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور سزا سنائی دی گئی۔ یہ مارشل فلپ پہلی جنگ عظیم میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے بَل پر ” ورڈن کا شیر” کہلایا گیا۔ اس کی راہ نمائی میں جرمنی اور فرانس کی فوجوں کے درمیان پہلی جنگ عظیم کا سب سے بڑا اور طویل معرکہ ہوا، جس کے اختتام پر ایک لاکھ باسٹھ ہزار فرانسیسی فوجیوں کی لاشوں پر فرانس نے فتح کا تاج اپنے سر سجایا۔ اس جنگ کے بعد فلپ کو فرانس میں ہیرو اور نجات دہندہ سمجھا جانے لگا اور 1934میں فلپ جنگ کا وزیر مقرر کر دیا گیا۔ 1939میں اسے اسپین میں سفیر بنا دیا گیا اور 1940 میں وہ فرانس کا ڈپٹی وزیراعظم بن گیا۔

اسی سال اس نے جرمنی سے عارضی صلح کرتے ہوئے مغربی اور شمالی فرانس سمیت کئی علاقے جرمنی کے قبضے میں دے دیے، خود باقی بچے ہوئے فرانس کا چیف آف اسٹیٹ بن گیا اور تمام فرانسیسی ریاستوں کا مشترکہ نام Vichy France رکھ دیا۔ اس کی حکومت نازیوں کی حامی تھی یوں فلپ کے دور میں فرانس میں یہودیوں کے خلاف قانون سازی کی گئی اور یہودیوں کے قتلِ عام میں نازیوں کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے یہودیوں کو گھروں سے نکال نکال کر گیس چیمبروں میں جھونک دیا گیا۔

دوسری جنگِ عظیم کی آگ بجھتے ہی مارشل فلپ پر غداری کا مقدمہ چلا۔ پہلے اس کو سزائے موت سنائی گئی لیکن پھر اس کی بڑھتی ہوئی عمر اور پہلی جنگِ عظیم میں اس کی خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی قید میں وہ 1951میں اکیاون سال کی عمر میں فوت ہوا۔ اس کا دور حکومت فرانس کا ایک تاریک دور تھا۔ فرانس کا یہ ماضی اس کے باشندوں کے لیے اب بھی ایک دکھتی رگ ہے جس پر ہاتھ رکھ کر میکرون نے نہ صرف اپنی ساکھ خطرے میں ڈال لی بلکہ ایک آفت کو بھی دعوت دے ڈالی۔

فرانس میں ہٹلر اور اس کی افواج کے خلاف اس قدر نفرت موجود ہے کہ 2015 میں ایک ہائی اسکول ٹیچر کو اس بات پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا کہ اس نے کلاس میں کئی بار ہٹلر کا دفاع کیا تھا۔ ٹیچر نے بچوں سے کہا کہ ہٹلر ایک اچھا آدمی تھا اس نے فرانس میں موٹر وے بنوائے اور ترقی کا کافی کام کیا۔ وہ تو لیکچر دے کر فارغ ہو گئی لیکن کلاس میں موجود بیس میں سے سترہ طالب علموں نے اس کے خلاف ایک درخواست لکھ کر انتظامیہ کو جمع کروادی۔ اس درخواست کی ایک کاپی والدین کی تنظیم کو بھی بھیج دی گئی۔ یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ وہ ٹیچر اپنے خیالات سمیت اس نوکری سے پہلے معطل اور پھر فارغ کردی گئی۔

فرانس میں نازی فوج کے خلاف نفرت کی اس فضا میں میکرون کو یہ اندازہ توبہ خوبی ہوگا کہ مارشل پیٹن فلپ کو پیش کیا جانے والا خراجِ تحسین ان کو بہت منہگا پڑسکتا ہے لیکن نہ جانے وہ کون سی مصلحت تھی جس نے انہیں مارشل فلپ کا دفاع کرنے پر مجبور کردیا، جب کہ کئی بار میکرون فرانس کے انتہائی دائیں بازو حلقوں کی طرف سے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور اس ہفتے بھی پولیس نے چھے لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو ان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

بہرحال فرانس کے عوام میکرون کے اس بیان پر بے حد مشتعل ہیں کیوں کہ ان کے سامنے اس وقت سب سے بڑی مثال جرمنی کی ہے جہاں اس وقت بھی چند بچے کھچے نازی فوجیوں پر مقدمے چلا کر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جرمنی! جی ہاں جرمنی میں یہ وقت ان نازی فوجیوں کے لیے بہت کڑا ثابت ہو رہا ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے ستر سال بعد بھی بدقسمتی سے زندہ ہیں۔ جرمن قانون ساز ادارے ان نازی فوجیوں کی سن رسیدگی کے باوجود انہیں کٹہرے میں کھڑا کر چکے ہیں۔ یہ معاملہ آخر ہے کیا؟ آئیے اس پر تفصیلی نظر ڈالتے ہیں۔

ہینرج ہملر جرمنی میں اپنے وقت کا منجھا ہوا سیاست داں، پولیس ایڈمنسٹریٹر اور ملٹری کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ہٹلر کے بعد دوسرا طاقت ور ترین آدمی بھی تھا۔ 1929سے1949تک وہSchutzstaffel  یعنی SSکا سربراہ رہا۔ ایس ایس ابتدا میں دراصل ہٹلر کے ذاتی محافظوں پر مشتمل ایک گروپ تھا لیکن نازی تحریک کی مقبولیت اور کام یابی کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ کار اور اثرورسوخ بھی بڑھتا چلا گیا۔ ہملر کی کاوشوں سے یہ تین سو محافظوں پر مشتمل گروہ 1933تک وسیع ہوکر پچاس ہزار تک جا پہنچا۔ چمکتی سیاہ وردیوں والے یہ محافظ 1936تک جرمنی کا نہایت طاقت ور عنصر بن چکے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی سرگرمیوں اور دائرے کی کوئی حد ہی نہ رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پچیس لاکھ لوگ اس تنظیم کا حصہ بن گئے، جن کی تربیت فوجی طرز پر کی جانے لگی اور نسل پرستی کا زہر ان کی رگوں میں اتارا جانے لگا۔ دوسری جنگ عظیم میںSS نے ہٹلر کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کیا۔

نہ صرف تمام سیاسی مخالفین بلکہ جپسیوں، یہودیوں، پولش حکم رانوں اور کمیونسٹوں سمیت تمام مخالفین پر دھاوا بول دیا۔ اس ہول ناک جنگ کے خاتمے کے بعد SSکو ایک دہشت گرد اور مجرم تنظیم قرار دے دیا گیا۔ نازی فوجیوں پر مقدمے چلے لیکن آٹھ سو سے بھی کم فوجی سزا کے حق دار ٹھہرے۔ ہزاروں فوجیوں نے اپنی شناخت چھپالی۔ وہ دوسرے ملکوں کی طرف فرار ہوگئے اور وہاں کی شہریت لے کر نئی زندگی شروع کردی، جب کہ سیکڑوں فوجی جرمنی میں ہی چھپ گئے۔ اب ستر سال بعد چند زندہ فوجیوں کا کھوج لگا کر ان پر مقدمے چلاتے ہوئے جنگ کے اب تک رستے ہوئے زخموں کو بھرنے کی ایک کوشش کی جارہی ہے۔

1939میں جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو وہاں ڈیتھ کیمپ بنائے جہاں 1945تک 1.1ملین لوگ مار دیے گئے، ان میں نوے فی صد یہودی تھے۔ جنوری 1945میں یہاں دس ہزار SSگارڈز کام کر رہے تھے۔ پولش ریاست کی طرف سے قائم کیے جانے والے ایک ادارے Institute of National Remembranceنے پچھلے سال دوسو نازی فوجیوں اور گارڈز کی فہرست مرتب کی جو اس وقت زندہ ہیں۔ اس فوجیوں کے بارے میں مکمل تحقیقات کی گئیں کہ ان کا تعلق کس ملک سے ہے، انہوں نے SS میں کتنی مدت کام کیا اور اس محاذ کے علاوہ مزید کہاں کہاں انہوں نے ہٹلر کی فوج کے لیے کام کیا۔ ان دو سو نازی فوجیوں کے ٹرائل کے لیے اب جرمنی میں چیخ پکار مچی ہوئی ہے۔ ان سابق زندہ فوجیوں کا تعلق پولینڈ، روس، امریکا ، جرمنی اور آسٹریا سے ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر رواں سال جون کے مہینے میں جرمنی اور آسٹریا میں 23 نازی فوجیوں پر مقدمہ چلایا گیا، جن کے بارے میں یہ یقین تھا کہ انہوں نے ڈیتھ کیمپوں میں کام کیا ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں کے مقابلے میں یہ ایک بڑا ٹرائل تھا۔

امریکا میں رواں سال اگست میں ایک پچانوے سالہ نازی فوجی کی شناخت ہوجانے پر اسے امریکی شہریت سے بے دخل کر کے جرمنی ڈی پورٹ کردیا گیا۔ یہ فوجی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا فرار ہو گیا تھا، جسے 1957میں امریکی شہریت مل گئی، یوں اس نے اپنے سیاہ ماضی پر خوش نما پردہ ڈالا اور زندگی سکون سے گزار دی۔ ضمیر کی چیخوں سے بے چین اس فوجی نے عمر کے آخری حصے میں اعتراف کرڈالا کہ وہ نازی فوج کا گارڈ تھا۔ اس نے بتایا کہ ہٹلر کے خوف سے وہ SSکا حصہ بن تو گیا لیکن قتل عام کا حصہ بننے سے وہ اب بھی انکاری ہے۔ اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے جرمنی کے قانون ساز ادارے تیار نہیں، کیوںکہ تحقیقات کے مطابق اس کا تعلق جس ڈیتھ کیمپ سے تھا وہاں چھے ہزار یہودیوں کا قتل ہوا تھا، یوں اس کا قتل عام سے بچ کر رہنا قطعی ناممکن تھا۔

94سالہ نازی فوجی جان ریبگن بھی اس وقت مقدمے کی کارروائی کا سامنا کر رہا ہے۔ جنگ کے وقت اس کی عمر اکیس سال تھی، لہٰذا اس پر مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلایا جا رہا ہے ، بہت ممکن ہے کہ اس کو دس سال قید کی سزا سنادی جائے۔ ریبگن کا تعلق جس ڈیتھ کیمپ سے تھا وہ جگہ اس وقت پولینڈ کا حصہ ہے۔ یہاں نہایت بے دردی سے ساٹھ ہزار نفوس کا قتل عام ہوا تھا۔ قیدیوں کے دل میں پیٹرول کے انجکشن گھونپے جاتے۔ انہیں سخت سردی میں برہنہ کرکے، موسم اور بھوک کے حوالے کردیا جاتا، اور وہ اذیت ناک حالت میں جان سے جاتے، اس کے باوجود جو مرکے نہ دیتے ان کا آخری ٹھکانا گیس چیمبر بنایا جاتا۔ جرمن عدالت میں ریبگن کا ٹرائل ہفتے میں دو دن دو گھنٹے کے لیے ہوتا ہے۔ وہیل چیئر پر بیٹھے بوڑھے ریبگن کی نقاہت اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہوپاتی۔

پچھلے سال پچانوے سالہ نازی رین ہولڈ ہیننگ فوجی مقدمے کی سماعت کے دوران طبعی موت مرگیا۔ دورانِ کارروائی اس نے اعتراف کیا کہ دوسری جنگِ عظیم کے قتل عام میں وہ سہولت کار کے طور پر کام کر رہا تھا اور اس کی ڈیوٹی جس ڈیتھ کیمپ میں تھی اس میں پونے دو لاکھ لوگوں کی جان لی گئی۔ ہیننگ نے اس مقدمے کی کارروائی کے دوران کئی بار روتے ہوئے اپنے جرم کی معافی مانگی اور کہا کہ وہ بہت شرمندہ ہے، اسے معاف کردیا جائے، لیکن وہ معافی کا حق دار نہ تھا۔

قریب تھا کہ اسے سزا سنائی جاتی اور وہ قید میں جان دیتا، اس سے قبل ہی اس کی قدرتی موت کا پروانہ آن پہنچا اور وہ دنیاوی عدالت سے بری ہوگیا۔ یہ محافظ جنگ کے وقت بائیس برس کا تھا اور ان قیدیوں کی حفاظت پر مامور تھا، جنہیں سن 1943 سے 1944ء کے درمیان ہلاک کیا گیا تھا۔ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ ملزم کو وہاں جاری اجتماعی قتل عام کا علم تھا۔ ’اسے یہ بھی خبر تھی کہ ان افراد کو نسل پرستی کی بناء پر قتل کیا جا رہا تھا۔‘ ہیوبرٹ زیکفے ایک اور نازی گارڈ ہے، جسے جرمن عدالت نے قید کی سزا سنا ئی ہے۔ ایس ایس میں شمولیت کے وقت اس کی عمر انیس سال تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد اگرچہ وہ پولینڈ میں چار سال قید کی سزا بھگت چکا لیکن اس پر ایک اور ٹرائل کا مطالبہ جرمنی میں زور پکڑتا گیا، یوں اسے چھیانوے برس کی عمر میں دوبارہ عدالت میں کھینچ لیا گیا۔

ان کے علاوہ بھی اس وقت جرمنی کی عدالت میں ایسے کئی مقدمات پر تیزی سے کارروائی جاری ہے۔ امریکا میں موجود یہودیوں کے انسانی حقوق کی تنظیم Simon Wiesenthal Centreنے بھی انتہائی مطلوب دو سو نازی فوجیوں اور محافظوں کی فہرست مرتب کرکے جرمن حکومت کو 2016 میں فراہم کی تھی، جن میں سے ستائیس محافظ اب تک طبعی موت مرچکے ہیں۔ بہت سوں کا سراغ لگایا جاچکا ہے اور باقی کی تلاش کا عمل زورشور سے جاری ہے۔ اس عمل سے بے شک اس بڑے نقصان کی تلافی نہیں ہو سکے گی جو جنگ میں دنیا نے بھگتا لیکن حضرت انسان اب کی بار شاید ان احمقانہ فیصلوں کو رد کرنے لگے جن کا انجام فقط تباہی اور بربادی ہے۔

نومبر کی انہی خنک شاموں میں پہلی جنگ عظیم کے شعلے سرد پڑے تھے اور یہی شامیں دوسری جنگِ عظیم کے بھیانک شعلوں کی گواہ بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگوں کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک ضرور پہنچنا چاہیے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اس تاریخی مہینے میں اس تلخ سچائی کا ایک گھونٹ بھر کر یہ اعتراف کرلیا جائے کہ جنگ کا ذمہ دار اصل فلسفہ تو اب تک دنیا کا حاکم بن کر راج کر رہا ہے، جس کو گھول کر پینے والے ایک اور بڑی جنگ کی تیاری کا بگل دھڑلے سے بجا رہے ہیں، ان کا احتساب آخر کب ہوگا؟ کیا ان کے لیے بھی کوئی کٹہرا تیار ہو پائے گا؟

دنیا اس خونی اور قاتل فلسفے کو کب رد کرے گی؟ ساتھ ہی ایک اور اہم سوال یہ کہ دنیا سے مہلک ہتھیاروں کی وہ اسلحہ فیکٹریاں کب بند ہوں گی جن سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دھن میں اس فلسفے کے پیروکار کبھی کہیں جنگ کے سائے بڑھادیتے ہیں تو کہیں شعلوں کو مزید ہوا دیتے ہیں، گویا خود ہی ڈیمانڈ پیدا کرتے ہیں اور خود ہی سپلائی کرتے ہیں۔ ان کا من پسند یہ آتشیں کھیل آخر کب بند ہوگا؟ دوسری جنگِ عظیم کے سارے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچائیے لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائیے کہ اب کبھی انسانی اقدار کی دھجیاں بکھیرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہ رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔