راولپنڈی کی تلخ سیاسی تاریخ، اہم شخصیات قتل، کئی رہنما مقدمات میں گرفتاررہے

قیصر شیرازی  پير 19 نومبر 2018
دلیپ کمار کی آمد پر 1986 میں داخلے پر پابندی لگی، بھٹوکے علاوہ پی پی کارکن رزاق جھرنا، ادریس طوطی پھانسی چڑھے
فوٹو: فائل

دلیپ کمار کی آمد پر 1986 میں داخلے پر پابندی لگی، بھٹوکے علاوہ پی پی کارکن رزاق جھرنا، ادریس طوطی پھانسی چڑھے فوٹو: فائل

 راولپنڈی: سیاسی اتار چڑھاؤ کے ساتھ جس طرح ’’راولپنڈی‘‘سیاست پر چھایا ہوا ہے اسی طرح راولپنڈی کی تاریخ اپنے اندر تاریخی مقدمات کو بھی سموئے ہوئے ہے، قیام پاکستان سے قبل راولپنڈی کی عدالتوں میں مسلم، سکھ اور ہندو جھگڑوں کی سماعت بھی رہی ہے، راولپنڈی میں اب تک 5 وزرائے اعظم ایک سابق صدر،2 وزرائے اعلیٰ، گورنر، ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ عدالتوں میںکیس بھگت چکے ہیں، ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر1951کو کمپنی باغ،  موجودہ لیاقت باغ میں شہیدکیا گیا ، ملزم بھی موقع پر مارا گیا اور یہ کیس ایک ہفتہ بعد راولپنڈی کے مجسٹریٹ کے حکم پر داخل دفتر کر دیا گیا۔ 

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کی اپیل راولپنڈی سپریم کورٹ میں 1978 میں کی گئی اور انھیں 4 اپریل 79 کو راولپنڈی کی پرانی جیل میں پھانسی دے دی گئی، بھٹوکیس میں وعدہ معاف گواہ انسپکٹر مسعود محمودکا بیان راولپنڈی کے مجسٹریٹ عارف بخاری نے ریکارڈکیا، بینظیر بھٹو کے خلاف نیب کیسز راولپنڈی احساب بینچ میں زیر سماعت رہے، سابق صدر آصف زرداری بھی نیب میں کیس بھگتتے رہے اور راولپندی کی عدالت نے ہی انھیں7 سال قید کی سزا سنائی۔  سابق وزیر اعظم نواز شریف نیب راولپنڈی میں پیشیاں بھگتتے رہے، سابق وزیر اعظم کو راولپنڈی عدالتوں نے تمام کیسوں میں بری کیا۔

سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف راولپنڈی کی سول عدالت میں سرکاری گواہ پر سیاہی پھینکنے کا کیس چلتا رہا جو گواہان کے پیش نہ ہونے پر داخل دفتر ہوچکا ہے۔ سابق گورنر ملک غلام مصطفی کھر،  ہائیکورٹ کے  2 سابق ججز راجا عزیز بھٹی، احمد سعید اعوان پر لیاقت باغ فائرنگ کیس سیشن عدالت میں 26 سال چلتا رہا۔  1974 میں نیشنل عوامی پارٹی کے لیاقت باغ میں جلسے پر نامعلوم افرادکا حملہ ہوا جس میں7 کارکن قتل درجنوں زخمی ہوگئے تھے ۔

اے این پی کی قیادت ولی خان وغیرہ کی مشکل سے جانیں محفوظ ہوئیں، عدم ثبوت پر تمام ملزمان 1997 میں بری ہوگئے، انگریز دور میں علامہ عطاء اﷲشاہ بخاری کے خلاف 3 جون1939میں حکومت کے خلاف کمپنی باغ میں تقریر پر مقدمہ بنا اورگرفتار ہوگئے ان کا کیس لڑنے کے لیے ممبئی سے مہنگے ترین ہندو وکیل کے ایل کے گابا کیس لڑنے راولپنڈی آئے،  علامہ کو نہ صرف بری کرایا بلکہ اسلام سے متاثر ہوکر مسلمان بھی ہوگئے۔

1986 میں بھارتی فلم اسٹار دلیپ کمار اسلام آباد آئے تو شہریت کی درخواست پر راولپنڈی کے سول جج نے حکم امتناع جاری کرکے ان کے راولپنڈی داخلہ پر پابندی لگا دی، ذوالفقار علی بھٹوکی پھانسی کے بعد پاکستان میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے نمائندے مارک ٹیلی کے خلاف راولپنڈی کے وکیل وہاب الخیری نے بھٹوکے حق میں خبریں بھیجنے پر اسے پاکستان سے بے دخل کرنے کا سول عدالت میںکیس کر دیا جو 10 سال زیر سماعت رہا۔  امریکی مسافر بردارطیارہ اغوا کرکے پاکستان لانے والے فلسطینی ہائی جیکروںکے خلاف مقدمہ بھی خصوصی عدالت میں چلا جس میں انھیں پھانسی کی سزائیں دی گئیں جو بعد عمر قید میں تبدیل کی گئیں اب وہ سزائیں کاٹ کر ملک بدر ہوچکے ہیں۔

1986 ء میں راولپنڈی میں ہتھوڑا گروپ مشہور ہوا جس میں ڈھوک کھبہ میں ایک ہی خاندان کے7 افراد کو قتل کیا گیا یہ گروپ 3 سال تک راولپنڈی میں خوف کی علامت رہا لوگوں نے گلی محلوں میں ٹھیکری پہرے شروع کر دیے تھے، اس کیس میں گرفتار 90 سالہ ملزم محمد خان کو 2  سال بعد عدالت نے بری کر دیا، آئی بی کے سربراہ بریگیڈیئر امتیازکے خلاف 94ء میں اسپیشل جج سنٹرل میں کیس چلتے رہا، سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی 94 ء میں سیشن جج پنڈی کی عدالت میںکیس بھگتتے رہے،2000 میں لندن طیارہ کے اغوا سازش کیس کے ملزم راشد رؤف کے خلاف کیس بھی راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت میں چلتا رہا ایک دن یہ ملزم پولیس حراست سے فرار ہوگیا چند روز بعد مقابلہ میں قتل ہوگیا۔

1996ء  میں آریہ محلہ اور سنگھوری میں ایک ہی دن ایک ہی خاندان کے12 افرادکو قتل کرنے والے ملزم ظفر اقبال کا کیس بھی چلا اور اسے سزائے موت دی گئی۔  1978 ء سے 1982 تک پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور الذوالفقارکے کارکنوں کے خلاف ملٹری عدالتوں میں درجنوں کیس چلے جن میں راولپنڈی بارکے سابق صدر غضنفر علی شاہ ایڈووکیٹ کوکوڑے مارے گئے، پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکنوں رزاق جھرنا، ادریس طوطی کو پھانسی بھی دی گئی۔

وفاقی وزیر شیخ رشیدکے خلاف لال حویلی کلاشنکوف کیس بنا 7 سال قید کی سزا ہوئی، شیخ رشید ایک سال سے زائد جیل میں رہے پھر کیس واپس لے لیا گیا۔ اعجاز الحق نے بھی جلسہ میں کلاشنکوف لہرائی جب مقدمہ بننے پرگرفتار ہوگئے تو بیان دیا وہ اصلی نہیں کھلونا تھا۔ مجسٹریٹ نے تھانہ وارث خان خود جا کر ان کی ضمانت منظورکر لی،پھرکیس بھی دفن کر دیا گیا، سابق صدر پرویز مشرف پر2003 میں ہونے والے دو قاتلانہ حملوں کے کیس بھی یہیں چلائے گئے۔

مسلم لیگی رہنما حنیف عباسی کے خلاف قتل کیس بھی چلا مگر حنیف عباسی بری ہوگئے مگر ایفی ڈرین کیس میں عمر قیدکی سزا ہوگئی، بری فوج کے سربراہ جنرل ٹکا خان کے بھائی کوکلر سیداں میں قتل کیا گیا یہ کیس بھی راولپنڈی کی سیشن عدالت میں چلا، ملزمان کو سزا ہوگئی۔  راولپنڈی کا پراچہ اور چوہدری گروپ میں طویل دشمنی کے جھگڑے کے کیس بھی چلتے رہے، ان جھگڑوں میں پیپلز پارٹی کے مرکزی سینیئر رہنما انجم فاروق پراچہ معذور ہوگئے،اس کے علاوہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کے ہر ادوار میں سیاسی کارکنوں کے خلاف درجنوں سیاسی کیس بھی بنتے رہے بعد ازاں حکومتیں ختم ہوتے ہی کارکن بری ہوجاتے،سیاسی کارکن  آج بھی عدالتوں میںکیس بھگت رہے ہیں، 1977 سے 1998ء تک سیاسی کارکنوںکے خلاف نئی حکومت آتے ہی مقدمات بنانا مشغلہ بن چکا تھا مگر وقت کے ساتھ اب اس میں خاصا ٹھہراؤ آ چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔