مکاشفہ اور اپنی اپنی استعدادکار!

شایان تمثیل  ہفتہ 29 جون 2013

وجدان پر طویل بحث کے باوجود کئی قارئین نے بذریعہ ای میل موضوع کی تشنگی کا شکوہ کیا ہے، کچھ حضرات وجدان کی قوت کو جگانے کے متمنی ہیں، اس کے علاوہ مشقیں شروع کرنے کے خواہشمند حضرات پہلے سے ہی نتائج معلوم کرنا چاہتے ہیں، کچھ خاص طور پر پوچھتے ہیں کہ مشق کی کامیابی میں کتنا وقت درکار ہوگا۔ اس سلسلے میں گزشتہ کالموں میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ان مشقوں کی کامیابی ہر شخص کی اپنی استعدادکار پر منحصر ہے، کچھ لوگ ابتدائی دنوں میں ہی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اور کچھ اک عمر گزار دیتے ہیں۔

ہمارا کام صرف مشقوں سے متعلق رہنمائی فراہم کرنا ہے، مشق کو صحیح طریقے سے سرانجام دینا اور پھر مطلوبہ نتائج حاصل کرنا خود آپ پر منحصر ہے۔ یاد رکھیں کہ جس طرح ہر جید اور استاد شاعر کا اندازِ بیان اور تخیل دوسرے سے الگ یعنی اس کا ایک خاص رنگ ہوتا ہے یا جس طرح ہر تصویر پر مصور کی شخصیت کی چھاپ ہوتی ہے، یا ہر اعلیٰ موسیقار کی موسیقی میں اس کے اپنے وجود کا نغمہ گونجتا سنائی دیتا ہے، اسی طرح ہر شخص کے خواب اس کے خیالات، اس کے واہمے، اس کا وجدان اور اس کے مکاشفے بھی اندرونی استعداد کے مطابق ہوتے ہیں۔

مکاشفہ کہتے ہیں ’’کھل جانے کو‘‘ یعنی دل و دماغ اور حواس خمسہ کے بند دریچوں کا کھل جانا۔ جب کسی شخص پر مکاشفے کی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر چند لمحے کے لیے لازمانی اور لامکانی بن جاتا ہے۔ اس قسم کے مسئلے کہ مکاشفہ کیا ہے؟ وجدان کسے کہتے ہیں؟ القا (خودبخود ذہن پر کوئی خیال نازل ہوجانا) کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ خالی خولی بحثوں سے سمجھ میں نہیں آسکتے، انھیں صرف مثال و تمثیل کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔اسی طرح کشف القلوب Thoughts Reading کی صلاحیت یہ کہ آپ دوسرے کے خیالات سے اس کے بیان و اظہار کے بغیر واقف ہوجائیں۔ صاحب کشف کا کمال یہ ہے کہ وہ تقریر سنے بغیر جان جاتا ہے کہ آپ کیا کہنے والے ہیں، کیا کہنا چاہتے ہیں۔

جیسے شاعر کے ذہن پر آمد و آورد اور صوفی کے نفس پر قبض و بسط (کھلنا بند ہونا) کی کیفیتیں یکے بعد دیگرے طاری ہوتی رہتی ہیں، یہی حال صاحب کشف کا ہے۔ انسانی روح اتنی چوکنی اور حساس ہے کہ عام حالات میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ہر واقعے کے ظہور سے قبل، خواہ وہ واقعہ آنے والی بارش ہو یا آنے والی وبا، سورج گہن ہو یا کسی کی موت کا حادثہ، زمان و مکان میں بڑی نازک و باریک تبدیلیاں واقع ہونے لگتی ہیں، حواس خمسہ اپنے محدود وسیلوں کی بنا پر ان کیفیتوں کے قبل از وقت ادراک سے قاصر رہتے ہیں، البتہ روح ان پرچھائیوں کو دیکھ لیتی ہے جو حوادث کے آگے آگے چلتی ہیں۔

دل کئی روز سے دھڑکتا ہے
ہے کسی حادثے کی تیاری

اس موقعے پر البتہ ایک چیز قابل غور ہے، یوں تو کائنات (زمان و مکان) کی اسٹیج پر رونما ہونے والے ہر ڈرامے کی ریہرسل ہر وقت جاری رہتی ہے، لیکن صاحب کشف لوگوں کو اس کائناتی ڈرامے کے صرف وہ مناظر خواب یا بیداری میں نظر آتے ہیں جن کا تعلق ان کی ذات اور اپنے جذباتی میلانات سے ہوتا ہے۔ نفس انسانی مستقبل کے صرف اسی پہلو کو دیکھتا ہے جس کے ساتھ اسے دلچسپی ہوتی ہے۔ کشف کے ذریعے وقت کے دریچے کھول کر ہم صرف مستقبل ہی کی جھلک نہیں دیکھ سکتے بلکہ نفس انسانی میں یہ قوت بھی موجود ہے کہ وہ زمانے کی سنگین دیوار میں سوراخ کرکے ماضی کو اس کی لامحدود وسعتوں کی حد تک دیکھ سکے، یعنی کشف کی استعداد ماضی، حال اور مستقبل سب کی حدود سے بلند ہے۔ کشف کی صلاحیت حادثوں کی نشاندہی کے سلسلے میں غیر معمولی طور پر فعال اور چست ثابت ہوتی ہے، شرط یہ ہے کہ ان حوادث کا تعلق آپ کی ذات سے ہو۔

بلاشبہ حالت کشف میں وہ نوبت بھی آسکتی اور آجاتی ہے کہ روشنیاں بولنے اور آواز میں چمکنے لگتی ہیں۔ بعض خاص حالات میں یہ بالکل ممکن ہے کہ سونگھنے کی حس (شامہ) سے دیکھنے کی حس (باصرہ)، سننے کی حس (سامعہ) سے چکھنے کی حس اور چکھنے کی حس سے چھونے کی حس (لامسہ) کا کام لیا جاسکے۔ کچھ زیادہ مدت نہیں ہوئی کہ روس میں سائنسی طور پر ایک خاتون کا تجربہ کیا گیا جو حس لامسہ سے حس باصرہ کا کام لیتی تھی یعنی الفاظ کو چھو کر انھیں پڑھ سکتی تھی۔ اس خاتون کا بیان یہ تھا کہ میری انگلیوں میں آنکھیں پیوست ہیں۔ ہپناٹزم کے ماہرین اپنے معمول میں دوران عالم تنویم یہ صلاحیت بیدار کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی ایک حس سے دوسری حس کا کام لے سکے۔

اور اب اپنی بات… قارئین واقف ہیں کہ کالموں کا یہ سلسلہ ہم نے عاشق حسین البدوی مرحوم کی یاد میں شروع کیا تھا۔ آج 30 جون عاشق البدوی کا یوم پیدائش ہے، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس علم دوست، ادیب و دانشور کی یاد میں ادبی حلقوں کی جانب سے کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی، ہم نے ان ہی کالموں میں بارہا ان کے عزیز و اقارب اور ساتھیوں سے گزارش کی کہ بدوی مرحوم سے وابستہ یادیں ہمیں لکھ بھیجیں تاکہ ہم قارئین تک اس عظیم شخص کے شب و روز پیش کرسکیں، لیکن شاید ہماری تحریر ان کی نگاہ سے نہیں گزری یا انھوں نے ہماری درخواست قابل اعتنا نہ سمجھی۔

عاشق حسین کی بہن ڈاکٹر یاسمین ایڈووکیٹ اور فریدہ شفیع صاحبہ سے ہماری اس سلسلے میں کئی بار بات ہوئی، سندھی ادیبہ ج، ع منگھانی بھی اس سلسلے میں اپنے کاوشوں کی بنا پر لائق تعریف ہیں۔ سنا ہے بدوی مرحوم کا بیش قیمت کتابوں کا خزانہ علم کے کچھ ناقدروں کے ہاتھ لگ گیا جنھوں نے اسے ردی میں کوڑیوں کے مول بیچ دیا۔ کاش ان ہوس زر کے غلاموں کو کوئی علم کی قدر سمجھانے والا ہوتا تو آج بدوی مرحوم کا علمی خزانہ یوں ناقدری کا شکار نہ ہوتا۔ کتابوں کی اصل قیمت ایک علم کا پیاسا ہی سمجھ سکتا ہے۔

قارئین کا بھی شکوہ ہے کہ نفسیات ومابعد نفسیات کے موضوع پر مارکیٹ میں معیاری کتابیں دستیاب نہیں ہیں۔ ہم ان کالموں میں رئیس امروہوی مرحوم کی کتابوں سے اقتباسات پیش کررہے ہیں جو 70 کی دہائی میں شائع ہوئیں، افسوس یہ کتابیں اب بازار میں دستیاب نہیں ہیں، ہم اس سلسلے میں کتابیات پبلی کیشنز کے مشکور ہیں جن کی بدولت ہمیں یہ کتب میسر آئیں، لیکن افسوس کہ مکمل ریکارڈ ہمارے پاس بھی محفوظ نہیں۔ امید ہے کہ علم کی خدمت کرنے والے ان بیش قیمت کتابوں کو کہیں سے کھوج لائیں گے اور دوبارہ شائع کروا کر علم کے پیاسوں کو سیراب کریں گے۔

(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔