ترغیب سے ہوشیار رہنے کی ضرورت

دنیا اکیسویں صدی میں پہنچ گئی اب سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنی افادیت کھو رہا ہے


Zaheer Akhter Bedari January 08, 2019
[email protected]

پاکستان کی تاریخ میں کئی بار ہنگامی حالات آئے ہیں، لیکن ملک آج جن ہنگامی حالات سے گزر رہا ہے وہ ماضی کے ہنگامی حالات سے سراسر مختلف اس لیے ہیں کہ ماضی کے ہر ہنگامی حالات میں روایتی سیاسی جماعتوںکی بالادستی موجود رہی اور اقتدار پر ہر صورت میں دو ہی سیاسی جماعتوں کا قبضہ رہا۔ آج کے ہنگامی حالات میں یہ صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔ اس وقت اقتدار تیسری سیاسی پارٹی اور اس کی چھوٹی اتحادی سیاسی قوتوں کے قبضے میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتدار سے محروم رہنے والی پارٹیاں ہر قیمت پر برسر اقتدار پارٹی کو اقتدار سے نکالنے پر تلی ہوئی ہیں جب کہ ماضی میں برسر اقتدار پارٹی کو پوری آزادی سے حکومت کرنے کا موقعہ دیا جاتا رہا ۔ پچھلے دس سالوں کے دوران اشرافیہ نے ملک کو جس طرح لوٹا شاید اس کی مثال پسماندہ ملکوں کی حالیہ تاریخ میں نہ ملے ، ملک کی معیشت کو اس طرح تباہ کیا گیا کہ نئی حکومت کے سامنے معاشی مسائل کے پہاڑ کھڑے ہوئے ہیں۔

اس مایوس کن صورتحال میں کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنا تو درکنار عوام کو معمولی سا ریلیف ہی دے سکے ، عوام چونکہ ماضی کی حکومتوں کے کارناموں سے پوری طرح واقف نہیں جس کی وجہ عوام کی موجودہ حکومت سے ناراضگی منطقی ہے لیکن بعض دوست ممالک حکومت کو اس بحران سے نکالنے کی فیاضانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن نئے مسائل پیدا کرکے حکومت کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہے لیکن حالات نیسابق حکمران خاندانوں کو اس طرح جکڑ دیا ہے کہ وہ اس مشکل سے نکلنے کی جتنی کوشش کر رہے ہیں، اتنا ہی اس مشکلات بڑھی رہی ہیں۔ ماضی میں جو لوٹ سیل لگائی گئی تھی اس کے ایسے ایسے حیران کن اور ناقابل یقین واقعات سامنے آرہے ہیں کہ عوام اور خواص کا حیرت سے منہ کھل گیا ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کو اندازہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت کو سال دو سال حکومت کرنے کا موقع مل گیا تو وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اگر ایسا ہوا تو مستقبل ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا اور عوام کی بالادستی کی جو امید بندھی ہے وہ یقین میں بدل جائے گی۔

اس حوالے سے حکومتی ارکان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس کے اختلافات کو ابھرنے نہ دیں ۔ اپوزیشن ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بڑا بناکر عوام میں بددلی اور مایوسی پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے جسے ہر حال میں ناکام بنانا ضروری ہے۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے سیاست کے اسٹیٹس کو کو توڑ دیا ہے اور تیسری سیاسی قوتکو آگے آنے کا موقع دیا ہے، ملک میں سیاسی تبدیلی کے خواہش مندوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محنت کش طبقات مزدوروں، کسانوں، وکلا،ڈاکٹرز، دانشور، ادیبوں، شاعروں کو آگے لا کر ان طبقات کی قیادت کو آگے لانے کی کوشش کرے، اگر یہ طبقات سیاست میں فعال ہوجاتے ہیں تو جمہوریت پر عوام کا اعتبار پختہ ہوجائے گا اور سیاسی ڈھانچے میں بامعنی تبدیلی آجائے گی۔ اس کے لیے میڈیا اور اہل قلم کو متحرک اور فعال ہونا پڑے گا اور یہ کام اتحاد اتفاق اور منصوبہ بندی سے ہو تو کامیابی یقینی ہوگی۔

ہمارے ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا اکیسویں صدی میں پہنچ گئی اب سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنی افادیت کھو رہا ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پر آج بھی قبائلی و جاگیردارانہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ مل کر سیاست پر قابض ہے اور سیاست میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہماری سابق حکمران جماعتیں سخت مشکل کی اس گھڑی میں اس مصیبت سے نکلنے کی ہر طرح کوشش کر رہی ہیں، اس دوران اس نے بہت ساری سہولتیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، جس سے اس میں اقتدار کی خواہش دوبارہ جاگ سکتی ہے اور آج کے سیناریو میں یہ حوصلہ افزائی بڑی مشکل بن سکتی ہے ۔

مزدوروں اور کسانوں میں روایتی ترقی پسند قیادت کا فقدان ہے ، ان دونوں شعبوں میں بکاؤ قیادت ہے جو طبقاتی سماج کا تحفظ کر رہی ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے اب دونوں طبقات میں ترقی پسند قیادت کو ابھارنا ضروری ہے اور یہ کام حکومت آسانی سے کرسکتی ہے، اگر یہ دو فرنٹ حکومت کے ساتھی بن جائیں تو حکومت کے پاؤں مضبوط ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک جمہوری اور بے انتہا اہمیت کا دور ہے۔ ہماری موجودہ حکومت کوئی انقلاب تو نہیں لاسکتی لیکن اگر وہ ایک منصوبہ بندی اور منظم طریقے سے عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرے تو یہ مستقبل کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

امید ہے کہ بہت جلد حکومت کو دوست ملکوں سے بھاری امداد مل جائے گی اس ممکنہ امداد کا ایک ایک پیسہ عوام کے معیار زندگی میں اضافے کے لیے خرچ کیا جانا چاہیے۔ ہمارے ملک ہماری سیاست پر ابھی تک سرمایہ دارانہ نظام بہت مضبوط ہے اور اس نظام کی بدترین خرابی یہ ہے کہ وہ ہر قدم پر ترغیب فراہم کرتا ہے اور ترغیب سرمایہ دارانہ نظام کا وہ ہتھیار ہے جو انسان کے دین و ایمان کو ہتھیلی میں رکھے رہتا ہے۔ موجودہ ناپختہ کار اور ڈگ مگ دورانیے میں حکومت کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ وہ پارٹی کے کارکنوں اور قیادت کو ترغیب کے گندے تالاب میں ڈوبنے نہ دے اگر حکومت نے یہ کام کامیابی سے انجام دیا تو اس کے پیر مضبوط ہوجائیں گے۔

مقبول خبریں