ایک اور بچی نے بھی ملک کا نام روشن کردیا

ایچ ایم کالامی  جمعرات 21 فروری 2019
عائشہ نے توقعات سے بڑھ کر محنت کی اور جیت کر نہ صرف سوات کا بلکہ پورے ملک کا نام روشن کردیا۔ (فوٹو: احتشام بشیر)

عائشہ نے توقعات سے بڑھ کر محنت کی اور جیت کر نہ صرف سوات کا بلکہ پورے ملک کا نام روشن کردیا۔ (فوٹو: احتشام بشیر)

چند دنوں قبل ایکپسریس ڈاٹ پی کے پر احتشام بشیر نے ایک خبر دی تھی کہ سوات کی آٹھ سالہ بچی نے متحدہ عرب امارات میں تائیکوانڈو چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کرلیا ہے۔ چونکہ اس بچی کا تعلق بندہ ناچیز کے علاقے سے تھا اس لیے ضروری سمجھا کہ اس کی حوصلہ فزائی میں چند سطور لکھوں۔ اس لیے بچی کی اپنی آبائی گاؤں آمد کا بے تابی سے انتظار رہا۔

اس سے قبل بھی ہم نے سوات ہی کے خوبصورت علاقہ مانیار سے تعلق رکھنے والے تیرہ سالہ یاسین احمد خان کے احساسات قلمبند کیے تھے جب انہوں نے امریکا میں منعقد ہونے والی یو ایس اوپن مارشل آرٹس چیمپئن شپ میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرتے ہوئے کک باکسنگ میں دو عالمی ٹائٹل جیت کر نہ صرف افریقہ کا پرچم بلند کیا بلکہ پاکستانی نژاد افریقی کھلاڑی ہونے کی وجہ سے اپنے ملک پاکستان کےلیے بھی باعث فخرثابت ہوئے تھے۔ یاسین احمد خان کے بعد عائشہ ایاز کی عالمی سطح پر کامیابی سے سوات کی زمین مارشل آرٹس کےلیے زرخیز ثابت ہورہی ہے۔

بہرحال عائشہ ایاز عرب امارات سے اپنے آبائی گاؤں منگورہ شہر پہنچ گئیں تو سوات کی دیگر صحافی برادری کے ساتھ ہم بھی کانجو سوات کی ایک نجی مارشل آرٹس اکیڈمی میں ان کےلیے چشم براہ تھے۔ جیسے ہی وہ اپنی اکیڈمی میں داخل ہوئیں تو حاضرین خوشی سے جھوم اٹھے، ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ اس دوران ان کے والد ایاز نائیک کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

عائشہ خان نے اپنے تاثرات میں ہمیں کچھ اس طرح شریک کیا:

میں تیسری جماعت کی طالبہ ہوں، شروع میں مجھے یہ گیم انتہائی مشکل لگ رہا تھا لیکن آہستہ آہستہ سیکھ گئی اورکھیل کے ساتھ لگاؤ بھی بڑھتا گیا۔ متحدہ عرب امارات میں عالمی تائیکوانڈو مقابلے کے تین مقابلوں میں سے دو جیت کر کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تو انتہائی خوشی ہوئی۔ میری کامیابی کو گاؤں میں سراہا گیا تو میرا حوصلہ بڑھ گیا اور اب میں مزید محنت کے ملک کےلیے کھیلوں گی۔

عائشہ کی کامیابی پر ان کے والد ایاز نائک نے کچھ اس طرح اپنے تاثرات بیان کیے:

عائشہ ملک کے پندرہ کھلاڑیوں کے ساتھ یو اے ای میں منعقدہ تائیکوانڈو چیمپئن شپ کےلیے منتخب ہوئی جو ان پندرہ میں سب سے کمسن تھی۔ عائشہ نے ہماری توقعات سے بڑھ کر محنت کا مظاہرہ کیا اور جیت کر نہ صرف سوات کا بلکہ پورے ملک کا نام روشن کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ

جہاں سوات جیسے خوبصورت مگر پسماندہ ترین علاقوں میں بچیوں کی مارشل آرٹس پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں ایک چھوٹی بچی کی عالمی سطح پر کامیابی اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت پاکستان مارشل آرٹس کے کھیلوں کے فروغ کےلیے سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ سوات اور اس جیسے دیگر پسماندہ علاقوں کے بچے بچیوں کی صلاحیتیں اجاگر کی جاسکیں۔

اس دوران عائشہ کی والدہ محترمہ بھی موجود تھیں۔ جب ہم نے ان سے عائشہ کی کامیابی کے حوالے سے تاثرات معلوم کیے تو انہوں نے کچھ اس طرح بتایا:

میں نے اپنی بچی کو مارشل آرٹ اکیڈمی جانے سے منع کر رکھا تھا کیونکہ ایک تو یہ بہت چھوٹی تھی اور دوسری طرف ہمارے معاشرے میں بچیوں کو ایسے مہم جو کھیلوں کی جانب مرغوب کرنے کا رجحان بہت کم ہے۔ بہت اصرار کے بعد میں نے انہیں نجی اکیڈمی جانے دیا۔ مجھے امید نہیں تھی کہ یہ اتنی بڑی کامیابی اپنے نام کرے گی۔ عائشہ کی کامیابی نے مجھے بڑی خوشی کا احساس دلایا اور میں دوسری ماؤں کو بھی تاکید کرتی ہوں کہ اپنی بچیوں کو ان کے پسندیدہ کھیلوں میں جانے سے نہ روکیں۔

عائشہ کی اکیڈمی میں کھیلنے والے ایک اور سولہ سالہ طالب علم قیصر کہتے ہیں:

اس کھیل میں کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مخلتف رنگوں کی بیلٹس پہنائی جاتی ہیں۔ عائشہ آخری بلیک بیلٹ عبور کرچکی ہے، جبکہ میں اس سے نیچے درجے والی یلو بیلٹ پر موجود ہوں۔ عائشہ ہمارے لیے بھی امید کی کرن بنی ہے۔ اب لگن کے ساتھ کھیل رہا ہوں اور امید ہے کہ بلیک بیلٹ تک پہنچ جاؤں۔

ان تمام تر تاثرات کو سننے کے بعد ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کسی بھی کھیل میں کھلاڑیوں کی کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی پر ہے۔ ملک میں کھیلوں کے میدان آباد کرنے کےلیے والدین کی جانب سے مدد کے ساتھ ساتھ حکومتی سرپرستی بھی ناگزیر ہے۔

امید ہے کہ موجودہ حکومت، جو کھیلوں کو ترجیحی بنیاد سمجھتی ہے، کھیلوں کے میدان آباد کرنے میں عملی اقدامات کرے گی تاکہ نوجوانوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی،خیبر پختونخوا, سوات کوہستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے کالم لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔