درد دل کے واسطے

شایان تمثیل  جمعرات 8 اگست 2013

سب سے پہلے اہل وطن کو عید مبارک ہو۔ گزشتہ ہفتے ہمارا کالم بارش کی نذر ہوگیا، سلسلے میں تعطل آنے کے سبب قارئین نے اس سے زیادہ رسپانس دیا جو کالم چھپنے کے بعد آتا ہے، تب ہمیں اندازہ ہوا کہ کتنے ہی خاموش قاری کالم کی اشاعت کے منتظر رہتے ہیں، آپ سب نے کالم نہ چھپنے پر ایکسپریس کے دفتر فون کرکے ہماری خیریت اور کالم نہ چھپنے کی وجہ دریافت کی، وہ تمام پیغامات ہم تک پہنچ چکے ہیں، آپ کی بے پناہ محبتوں کا شکریہ، انشاء اﷲ اب کوئی ناغہ نہیں ہوگا۔ آج ہمارا موضوع نفسیات وما بعد نفسیات سے ہٹ کر ہے لیکن پہلے گزشتہ کالموں سے جڑی کچھ تشنگی دور کرلی جائے پھر ہم اصل موضوع کی طرف آئیں گے۔

آپ کے علم میں ہے کہ سانس کی مشقوں سے لاشعوری مواد ابھر کا شعور کی سطح پر آجاتا ہے۔ لاشعوری مواد سے کیا مراد ہے؟ بچہ بطن مادر سے برآمد ہوتے ہی خارجی ماحول کی عکس پذیری اپنے علم اور ارادے کے بغیر کرنے لگتا ہے، وہ جو کچھ دیکھتا اور سنتا، چھوتا اور سونگھتا ہے اس کی تصویر حافظے کے فیتے پر چھپ جاتی ہے۔ پیدائش کی ساعت اول سے لے کر دم باز واپسیں تک عکس پذیری کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور بے شمار مانوس اور نامانوس تصویریں نفس (لاشعور) میں محفوظ رہتی ہیں۔ یہی لاشعوری مواد یا حافظہ کی دفن شدہ تصویریں کبھی خواب میں نظر آتی ہیں اور کبھی عالم خیال میں۔ جو کچھ کہ خواب میں تھا وہی ہے خیال میں… یہی لاشعوری مواد مشقوں کے دوران تصویری روپ میں سامنے آتا ہے۔

یہ ذکر ہوچکا ہے کہ ابتدائی چالیس روز تک مشق کرنے والے کو کسی محسوس یا نمایاں تبدیلی کے بالعموم توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کے طلبا و طالبات کا یہ شکوہ میں سنتا رہتا ہوں کہ مشق شروع کیے ہوئے ایک ہفتہ، دو ہفتے یا تین ہفتے ہوگئے مگر ہمیں تبدیلی کا احساس نہیں ہوا۔ پھر سمجھ لیجیے کہ ان چالیس روز میں طالب علم کو صرف مشقیں کرنے کا طریقہ آتا ہے، کبھی ابتدائی تربیت کی مدت 90 روز اور کبھی چھ ماہ بھی ہوجاتی ہے، یعنی طالب علم مدتوں مشق کرتا ہے مگر اس کا کوئی واضح نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور انجام کار سانس کی مشقوں کا طالب علم بیزار ہوکر مشق ہی ترک کردیتا ہے۔ اس ناکامی کا سبب توجہ کا انتشار، اعتماد کی کمی اور لاشعوری مزاحمت ہوتی ہے، یعنی منفی ارادہ مثبت ارادے پر غالب آجاتا ہے، کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے یعنی مشق شروع کرتے ہی آدمی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔

میں نے عرض کیا تھا کہ ان مشقوں سے انسانی نفس برہنہ ہوجاتا ہے اور اس کے تمام مثبت اور منفی پہلو شعوری سطح پر نمایاں ہوجاتے ہیں۔ عجیب عجیب خواب نظر آتے ہیں، طرح طرح کے مناظر سے عام خیال میں واسطہ پڑتا ہے۔ الغرض رفتہ رفتہ ان ریاضتوں کے سبب ذہن اپنے حجابات کو ترک کر دیتا ہے، ان مشقوں سے انسانی شخصیت میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ عام طور پر نفسیاتی مریض خود اعتمادی اور حقیقت پسندی کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ ان مشقوں (خصوصاً) مشق تنفس نور اور متبادل طرز تنفس کے ذریعے رفتہ رفتہ انسان میں یہ صلاحیتیں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ مشقوں سے نہ صرف انداز فکر میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے بلکہ راسخ عادتیں بھی ترک ہوجاتی ہیں۔ بہت سی بد عادتیں اور نفس کی کجی کو دور کرنے کے لیے یہ مشقیں تیر بہدف کا درجہ رکھتی ہیں۔ شراب و سگریٹ نوشی یا دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ان مشقوں کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کشف اور مستقبل بینی کی صفت حیات کے اوصاف میں داخل ہے۔ اس دہشت ناک کائنات میں جہاں قدم قدم پر زندہ وجود کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہے اگر زندگی کشف، ٹیلی پیتھی اور چھٹی حس کی قوتوں سے مسلح نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ وہ ان ہفت خوانوں کو سر کر سکتی جن سے گزر کر درجہ ارتقاء پر فائز ہوئی ہے۔ حیوانات نطق کی نعمت سے محروم ہیں، ان کے درمیان رابطے کا ذریعہ صرف ایک ہی ہے، اشراقی ابلاغ یعنی لفظوں کے بغیر ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھ لینا اور ایک بار دوسرے کے طرز عمل کے باطنی مفہوم سے وقوف حاصل کرلینا۔

اور اب اپنی بات… درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو… ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں… جی ہاں! آج کے عنوان کا مقصد بھی یہی ہے۔ ہم جو اپنے کالموں میں نفسیات کے پیرائے میں قلبی سکون کا تذکرہ کرتے ہیں وہ انسانیت کی خدمت کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارے ملک میں کئی لوگ خاموشی کے ساتھ اپنی بساط بھر انسانیت کی خدمت کررہے ہیں جن کا میڈیا یا کسی اور پلیٹ فارم پر تذکرہ تک نہیں آتا، نتیجتاً ان عظیم لوگوں کی خدمات سے عوام لاعلم رہتے ہیں۔ آج ہم ایسی ہی دو تنظیموں کا ذکر کررہے ہیں جو خاموشی سے خلق خدا کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ النساء ویلفیئر فائونڈیشن اندرون سندھ عورتوں اور بچوں کی بہبود کے حوالے سے کئی سال سے سرگرم ہے، خاص کر بچوں کی تعلیم اور ہنرمند عورتوں کے روزگار کے حوالے سے میرپورخاص سے تعلق رکھنے والی اس فائونڈیشن نے بہت نمایاں کام سر انجام دیے ہیں، یہ تنظیم سوشل ورکر نورجہاں شیخ کی سرپرستی میں کام کررہی ہے اور بنا کسی سہارے کے اپنی مدد آپ کے تحت انسانیت کی خدمت جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسی طرح کیلیفورنیا میں رجسٹرڈ ’’کوشش فائونڈیشن‘‘ بھی ایک فلاحی تنظیم ہے، جو کراچی میں کام کررہی ہے اور اب اپنا نیٹ ورک پاکستان بھر خاص کر پسماندہ علاقوں تک پھیلانا چاہتی ہے۔ فائونڈیشن کا بنیادی مقصد تعلیم کو عام کرنا ہے اور اس سلسلے میں کوشش فائونڈیشن نے پسماندہ علاقوں کے مختلف اسکولوں میں کمپیوٹر لیب اور دیگر سہولیات فراہم کی ہیں، ساتھ ہی مختلف نہج پر طلبا کو اسکالر شپس بھی فراہم کی جارہی ہیں جس میں این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبا کو بھی اسکالر شپ دی گئی ہیں۔ کوشش فائونڈیشن اسٹریٹ چلڈرنز اور کام کرنے والے بچوں کی پڑھائی پر خاص توجہ دے رہی ہے اور اس سلسلے میں وہ غریب والدین کو ماہانہ جو ان کا بچہ کماتا ہے وہ روپے دے کر بچے کو تعلیم دینے کے لیے رضامند کرتی ہے۔ کوشش فائونڈیشن کی فنڈنگ کا طریقہ کار بھی بہت عمدہ ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی جو اس ٹیم کا حصہ ہیں اپنی ماہانہ آمدنی میں سے کچھ حصہ اس تنظیم کے لیے مختص کردیتے ہیں جس سے یہ تمام فلاحی کام ہوتے ہیں، نیز غریب ہنرمندوں کو آسان شرائط پر چھوٹے قرضے دیے جاتے ہیں جو نہ صرف انھیں اسٹیبلشڈ کرنے کا باعث بنتے ہیں بلکہ تنظیم کے دیگر فلاحی کاموں کو بھی مہمیز دیتے ہیں۔ کامران ایوب کوشش فائونڈیشن کے ایک متحرک اور پرخلوص کارکن ہیں جو اپنی ذاتی مصروفیات کو پس پشت ڈال کر فلاح و بہبود کے ان کاموں میں رضاکارانہ طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ آپ کوشش فائونڈیشن کا مکمل تعارف اور مختلف جہتوں میں پیش رفت کو ان کی ویب سائٹ www.koshish.org پر دیکھ سکتے ہیں۔ بڑے بڑے اشتہار، بل بورڈز اور میڈیا پر اپنی تشہیر نہ کرانے کے باعث کوشش فائونڈیشن کے کاموں سے بھی عام لوگ واقف نہیں ہیں لیکن ایک کالم نگار ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ایسے فلاحی کام کرنے والوں کو منظر عام پر لائیں۔ ہم چاہیں گے کہ ہمارے صاحب حیثیت قارئین بھی نیکی کے ان کاموں میں اپنا تھوڑا بہت حصہ شامل کرکے قلبی سکون حاصل کریں۔

(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں

www.facebook.com/shayan.tamseel)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔