کامن سینس بمقابلہ نان سینس 

بڑے ایوانوں میں بیٹھے لوگ ہوں یا پھر تھڑے پر بیٹھے عوام، دونوں کی سوچ کا دائرہ ایک ہی ہے


آصف ملک April 05, 2019
وہ کام تو کریں جن میں کامن سینس کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''Common sense is not so common'' والٹیئر نے یہ جملہ شاید پاکستانی عوام اور ان پر حکومت کرنے والے سیاستدانوں کے بارے میں کہا تھا۔ بڑے ایوانوں میں براجمان لوگ ہوں یا پھر تھڑے پر بیٹھے عوام، دونوں کی سوچ کا دائرہ ایک ہی ہے۔ بڑے لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے فیصلوں کی بدولت امر ہوجاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جاپان تباہ تھا تو اس وقت بھی وہاں اسکولوں میں تعلیم جاری تھی۔ ایک فیصلہ اور آج جاپان سپر پاور ہے۔ اگر جاپان کی قیادت عمارتیں اور سڑکیں بنانے میں لگ جاتی تو آج بھی مزدور پیدا کررہی ہوتی نہ کہ سائنسدان۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران چرچل نے کہا تھا: اگر ملک میں عدالتیں کام کررہی ہیں تو ہمیں کوئی ہرا نہیں سکتا۔ مطلب یہ کہ اگر عوام کو حق مل رہا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ مسئلوں کا آغاز تب ہوتا ہے جب سیاستدان اپنی بنیادی ذمے داری سے آنکھیں چرا کر بڑے معاملات پر کمندیں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوام کے بنیادی حقوق سستی تعلیم، مفت علاج اور آسان انصاف مہیا کرنے کے بجائے ان ''اہداف'' کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں حاصل کرنے کا راستہ عوامی مسائل کے حل ہوجانے کے بعد آتا ہے۔

پاکستان میں سرکار کے ماتحت مڈل اسکولوں کی تعداد تقریباً 50 ہزار ہے، جبکہ 5 ہزار ہائی اسکول اور کالجز ہیں۔ تقریباً 3 کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے، مطلب 44 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور ہر سیاستدان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تخت لاہور پر راج کرے۔ تو تخت لاہور کے سائے میں ایک کروڑ 5 لاکھ 27 ہزار بچے اسکول نہیں جاتے۔ پنجاب میں بھی گزشتہ حکومت میں اعلانات ہوئے کہ ہم صوبے میں نئے اسکول بنائیں گے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ جب سرکاری اسکول موجود ہیں تو نئے اسکول بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ شہباز شریف اپنے ایک فیصلے سے صوبے بھر میں اسکولوں کی تعداد کو دگنا کرسکتے تھے۔ وہ اعلان کرتے کہ اب سے صوبے بھر کے سرکاری اسکولوں میں دو شفٹیں ہوں گی۔ اس سے سرکار کی آمدن میں بھی اضافہ ہوتا اور اسکولوں سے باہر بچے بھی اسکول کا منہ دیکھ لیتے۔

اسکولوں سے متعلق دوسرا مسئلہ نصاب کا ہے... یکساں نصاب تعلیم کا۔ یہاں بھی ہو کیا رہا ہے کہ دانش اسکول بنائے گئے کہ ان سے بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دی جائے گی۔ کیا یہ پیسہ جو دانش اسکولوں پر لگایا گیا ہے، وہ سرکاری اسکولوں میں بیرون ملک سے پڑھ کر آنے والے اساتذہ کی تعیناتی پر خرچ کرلیا جاتا تو یہ بہتر نہ ہوتا؟ اب کچھ لوگ کہیں گے کہ ان اسکولوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے تو مفت تعلیم دینا حکومت کی ذمے داری ہے، احسان نہیں۔ بجٹ 2011 سے 2016 کے درمیان نئے دانش اسکولوں کے لیے 3 ارب روپے رکھے گئے۔ انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنسز کے مطابق ان تین ارب روپے سے پنجاب میں 660 اسکولوں کو پرائمری سے مڈل، 500 اسکولوں کو مڈل سے ہائی اسکول میں اپ گریڈ کیا جاسکتا تھا۔ رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ دانش اسکول کے ہر بچے پر سرکار 16 ہزار روپے خرچ کرتی رہی جبکہ سرکاری اسکول کے بچوں پر سرکار کا خرچ 1600 روپے رہا۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ ہم اسے کامن سینس کی کمی نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ اوپر سے کرپشن کے الزامات الگ... مرغی گئی جان سے اور کھانے والے کو مزا بھی نہیں آیا!

اب آجاتے ہیں اسپتالوں کی حالت زار پر۔ عمران خان جو اس وقت ملک کے وزیراعظم ہیں، دو کینسر اسپتال بنا چکے ہیں۔ جبکہ ان کا ارادہ ہے کہ تیسرا کراچی جبکہ چوتھا جنوبی پنجاب میں بھی بنائیں گے۔ بہت اچھی بات ہے۔ جتنے زیادہ اسپتال ہوں گے، اتنا زیادہ فائدہ ہوگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کینسر مریضوں کی کل تعداد تقریباً چار لاکھ ہے اور بقول عمران خان پاکستان میں 44 فیصد بچے غذائی قلت کے باعث اسٹنٹڈ گروتھ (نشوونما میں رکاوٹ) کا شکار ہیں۔ اب کامن سینس یہ کہتا ہے کہ پہلے 44 فیصد بچوں کو غذائی قلت سے نکالیے۔ کیونکہ جب یہ بچے زندہ ہی نہیں رہیں گے تو اسپتال بنانے سے کیا ملے گا؟ عالمی تنظیم ''سیو دی چلڈرن'' کے مطابق، پاکستان میں ہر ایک ہزار بچوں میں سے 40.7 بچے یا تو مردہ پیدا ہوتے ہیں یا پیدائش کے فوراً بعد موت کا شکار ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، پورے پاکستان میں ہر سال ایسے 2 لاکھ بچے بھی پیدا ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کا ایک دن پورا کیے بغیر ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ایک گھنٹے میں تین خواتین زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار دیتی ہیں۔ کیا ان بچوں کی زندگی بچایا ضروری نہیں؟ جب ملک میں ایک کینسر اسپتال بنا لیا گیا تو باقی شعبوں کی جانب بھی توجہ دی جائے جہاں ضرورت ہے۔

کامن سینس یہ کہتا ہے کہ موجودہ اسپتالوں کی حالت میں بھی بہتری لائی جائے اور ان اسپتالوں میں بھی کینسر وارڈ بنائے جائیں۔ جو پیسہ نئے اسپتال کی عمارت بنانے پر خرچ کیا جارہا ہے وہ بچے گا، مگر پھر وہی کامن سینس کی کمی۔

سیاستدانوں کے ''سویلین سپریمیسی'' اور ''اٹھارہویں ترمیم کا بچاؤ'' کے مطالبے سو فیصد درست ہیں کہ 22 کروڑ کا نمائندہ ہو اور اتھارٹی نہ ہو تو فائدہ؟ اسی طرح صوبوں کے حقوق اگر 71 سے قبل دے دیئے جاتے تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ اگرعوام کو سستی تعلیم، مفت علاج اور آسان انصاف مل جائے تو سیاستدانوں مضبوط ہوں گے یا کمزور؟ کیا اوپر جن مسائل اور تجاویز کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے بھی ''اسٹیبلشمنٹ'' روکتی ہے؟ وہ کام تو کیجیے جن میں ''سویلین سپرمیسی'' کے بجائے کامن سینس کی ضرورت ہے۔ چھوٹے چھوٹے فیصلوں سے پیسے کی بچت بھی ہوگی اور عوام کا معیار زندگی بھی بہتر ہو گا۔ یہ کرنے میں کیا عار ہے؟

آخری بات کہ ہمارے سیاستدان جتنی جلدی یہ سمجھ جائیں کہ ملک طاقت سے نہیں بلکہ کامن سینس سے چلتے ہیں، اتنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ طاقت اس کے پاس ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا ہے۔ باقی سب ''نان سینس'' ہے۔ اور اتنا سینس تو پاکستانی سیاستدانوں میں ہے کہ ڈنڈا کس کے پاس ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں