تینتیس کروڑ باشندوں کے دیس امریکا میں نظریاتی جنگ کون جیتے گا؟

سید عاصم محمود  اتوار 7 اپريل 2019
دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے دعویدار امریکہ میں گوروں کی برتری کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان زبردست کشمکش کا آغاز ہوچکا ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے دعویدار امریکہ میں گوروں کی برتری کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان زبردست کشمکش کا آغاز ہوچکا ہے۔ فوٹو: فائل

یہ وسط فروری کی بات ہے، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر واقع شہر، ال پاسو پہنچے۔ وہاں انہوں نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ دوران تقریر امریکی صدر کا زور بیان اسی نکتے پر مرکوز رہا کہ ’’دیوار‘‘ کی تعمیر کے بعد ال پاسو محفوظ بستی بن گیا ورنہ اس سے قبل پڑوسی  ملک میکسیکو کے قاتلوں، لٹیروں اور زانیوں نے شہر میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہوکر اودھم مچا رکھا تھا۔

دلچسپ بات یہ کہ ال پاسو کا میئر، ڈی مارگو صدر کی ری پبلکن پارٹی ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن وہ شہر کے باشندوں کو اکثر بتاتا کہ دیوار کی تعمیر سے قبل ہی ال پاسو محفوظ شہر بن چکا تھا۔ یہ دیوار امریکی حکومت نے 2006ء میں تعمیر کرائی تھی۔ اعدادو شمار بھی ڈی مارگو کی تائید کرتے تھے۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ال پاسو میں قتل کی شرح قومی اوسط کے مقابلے میں نصف تھی جبکہ وہ امریکا کے محفوظ شہروں میں شمار ہوتا تھا۔

ٹرمپ کی ترپ چال

جلسے میں شریک امریکیوں نے مگر صدر ٹرمپ کے دعویٰ کو تسلیم کرلیا۔ وہ نعرے لگانے لگے کہ امریکہ کے دیگر سرحدی علاقوں میں بھی دیوار تعمیر کی جائے۔ ان کا جوش و خروش دیکھ کر صدر ٹرمپ پھولے نہ سمائے۔ امریکی عوام میں مقبولیت پانے کی خاطر دیوار کی تعمیر ان کے لیے ترپ چال بن چکی تھی۔یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ بہت سے امریکی ’’دیوار، دیوار‘‘ کی رٹ سنتے تنگ آچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے، کئی ریاستوں میں امریکی عوام دیوار کے مسئلے پر تقسیم ہیں۔ سال رواں کے آغاز میں جب اسی مسئلے کے باعث امریکی حکومت کئی دن شٹ ڈاؤن کا شکار رہی، تو اس سے بھی صدر ٹرمپ کی مقبولیت کو دھچکا لگا اور وہ کم ہوگئی۔

پھر بھی ٹرمپ بار بار اپنی تقریروں میں یہ معاملہ اجاگر کرتے ہیں۔وجہ یہ کہ دیوار امریکا میں مہاجرین کی آمد کے خلاف جاری مہم کی علامت بن چکی ہے۔ جب بھی ٹرمپ جلسوں میں اس معاملے کا ذکر کریں، ان کے طرف دار امریکی نعرے لگانے لگتے ہیں ’’دیوار بناؤ، دیوار بناؤ۔‘‘ ظاہر ہے، ٹرمپ نے 2016ء میں انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو بھی ٹارگٹ کیا تھا۔ سیکولر اور سوشلسٹ امریکی بھی ان کی تنقید کا نشانہ بنے۔ تاہم ٹرمپ کی ’’غیر قانونی مہاجرین کے خلاف جنگ‘‘ میں میکسیکن سرحد پر دیوار کی تعمیر سب سے بڑا انتخابی نعرہ بن گئی تھی۔ یہ رجحان تب سے برقرار چلا آرہا ہے۔

نفرت پہ مبنی انتخابی نعرے

صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے پہلے دن ہی میکسیکن مہاجرین کو زانی قرار دے ڈالا تھا۔ انہوں نے پھر اس نظریے کی ترویج کی کہ امریکا کو مہاجرین سے معاشی، سیاسی،تہذیبی اور ثقافتی خطرات لاحق ہیں۔ مسلم مہاجرین خصوصاً امریکی تہذیب و ثقافت کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ ٹرمپ کے انتخابی نعروں کو ان سفید فام امریکیوں نے بہت پسند کیا جو مہاجرین کی آمد کے خلاف تھے۔ ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ٹرمپ نے انہی امریکیوں کے تنقیدی خیالات کو زبان دی اور انہیں دنیا بھر میں نمایاں کردیا۔یہ امریکی رنگ، نسل، مذہب یا معاشی وجوہ کی بنا پر مہاجرین کے مخالف ہیں۔ بعض سیاہ فاموں کو نفرت سے دیکھتے ہیں۔

سفید فام نسل کو عظیم ترین سمجھنے والے دیگر انسانی نسلوں کو کمتر و حقیر سمجھتے ہیں۔مذہبی طور پہ قدامت پسند امریکیوں کا خیال ہے کہ مسلمان مہاجرین امریکا میں اسلامی اقدار و تعلیمات پھیلا کر اپنا مذہب پھیلانا چاہتے ہیں۔ امریکی شہریوں کا ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ مہاجرین انہیں ملازمتوں سے محروم کررہے ہیں۔ غرض مہاجرین، غیر ملکیوں اور مسلمانوں کو ناپسند کرنے والے بہت سے امریکی ڈونالڈ ٹرمپ کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ انہوں نے ہی غیر متوقع طور پر ٹرمپ کو اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچا دیا۔ٹرمپ حالانکہ مثالی صدارتی امیدوار نہیں تھے۔ ان کا ماضی بے راہ روی کی داستانوں سے بھرا پڑا تھا۔ وہ صنف نازک کو محض تسکین کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ مالی اسیکنڈلوں میں بھی ملوث رہے۔ ان تمام خرابیوں کے باوجود کروڑوں سفید فام امریکی انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ انہیں یقین تھا، ٹرمپ ان کے مسائل حل کردے گا۔ ٹرمپ بھی اپنے ووٹروں کی توقعات سے بخوبی آگاہ تھے۔

جنگ کا آغاز

یہی وجہ ہے، حکومت سنبھالتے ہی ٹرمپ نے مختلف اسلامی ممالک سے مسلمانوں کی آمد پر پابندی لگادی۔ مہاجرین کو انہوں نے ’’کیڑے‘‘ قرار دیا جو امریکا میں گندگی پھیلا نے کا باعث ہیں۔ دنیا کے دوسرے بڑے اسلامی ملک، پاکستان پر برس پڑے کہ وہ برسوں سے امریکی ڈالر ہڑپ کررہا ہے۔ ایران، شام، ترکی، شمالی کوریا، چین، روس اور دیگر ممالک بھی ان کی تنقید کا نشانہ بنے۔امریکا کے پینتالیسویں صدر نے معاشی وسیاسی طور پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت میں زبردست نظریاتی جنگ چھیڑدی۔

اس جنگ کے دائیں سمت وہ سفید فام استادہ ہیں جو رنگ، نسل، مذہب یا معاشی وجوہ کی بنا پر غیر ملکیوں کے مخالف ہیں۔ وہ امریکا میں ان کی آمد روکنا یا بہت محدود کرنا چاہتے ہیں۔ بائیں سمت وہ امریکی کھڑے ہیں جن میں سوشلسٹ و لیفٹسٹ سفید فام، سیاہ فام، گندمی رنگت والی اقوام اور مسلمان شامل ہیں۔یہ قوتیں بائیں بازو کے سفید فاموں کو متعصب اور نفرت کا نمائندہ سمجھتی ہیں۔ ان دونوں کے مابین سیاسی و نظریاتی سطح پر ایک بڑی جنگ چھڑچکی ہے۔دنیائے مغرب میں امریکہ سرخیل مملکت کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر انگریزی بولنے والے ملکوں مثلاً برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ میں سبھی سفید فام امریکی سیاست، تہذیب و ثقافت سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، صدر ٹرمپ کی حکومت آنے کے بعد ان ملکوں میں بھی سفید فام قوم پسندی اور شدت پسندی پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ امریکا کی طرح وہاں بھی مہاجرین اور مسلمانوں پر حملے ہونے لگے ہیں۔

برینٹن ٹیرنٹ کا منشور

کرائسٹ چرچ کی مساجد میں وحشیانہ طریقے سے فائرنگ کرنے والے آسٹریلوی برینٹن ٹیرنٹ کا معاملہ ہی دیکھئے۔ حملوں سے قبل اس نے 74 صفحات پر مشتمل اپنا ’’منشور‘‘ فور چان نامی ویب سائٹ پر جاری کیا تھا۔ اس میں برینٹن نے صدر ٹرمپ کو ’’ازسرنو جنم لیتی سفید فام قوت کی نشانی‘‘ قرار دیا۔ اس امر سے عیاں ہے کہ قاتل ٹرمپ کے قوم پرستانہ خیالات و نظریات سے متاثر تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی نفرت اتنی بڑھ گئی کہ برینٹن بے حس ہوگیا اور جیتے جاگتے انسانوں کو صرف اس لیے مار ڈالا کیونکہ وہ دوسرے مذہب یا نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

برینٹن ٹیرنٹ نے اپنے منشور میں مزید لکھا کہ وہ اپنے فعل سے امریکا میں نسلی و مذہبی منافرت پھیلانا چاہتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس منافرت کے باعث امریکا میں خانہ جنگی جنم لے اور آخر کار یہ ملک نسلی و مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقدامات و نظریات کی وجہ سے امریکا میں بتدریج خانہ جنگی ماحول جنم لے چکا۔ اس کے اثرات یورپ و ایشیا کے ممالک پر بھی پڑسکتے ہیں۔

حکمت عملی کو خطرہ

امریکا میں اگلے سال الیکشن ہونے ہیں۔ چناں چہ صدر ٹرمپ کی حکمت عملی یہ ہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے زیادہ سے زیادہ سفید فاموں کو اپنے گرد اکٹھا کرلیا جائے۔ مدعا یہ ہے کہ وہ مزید چار برس اقتدار سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے، ٹرمپ دوبارہ آہستہ آہستہ شدت پسند بن رہے ہیں۔ لیکن ماہرین کے نزدیک اب یہ حکمت عملی ناکام بھی ہوسکتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ دور حکومت میں بھی نچلے اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید فاموں کے معاشی مسائل حل نہیں ہوسکے۔

وہ بدستور مالی بحران میں مبتلا ہیں اور انہیں اچھی ملازمتیں نہیں مل سکیں۔ الیکشن 2016ء میں انہی سفید فاموں نے ٹرمپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ مگر اگلے سال ان کی کم تعداد ٹرمپ کو ووٹ دے سکتی ہے۔ ان کا ووٹ بینک برقرار رکھنا ٹرمپ کے واسطے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔یاد رہے، ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں کم ووٹ لیے تھے۔ البتہ وہ زیادہ امریکی ریاستیں جیتنے میں کامیاب رہے، اسی لیے زیادہ الیکٹرول ووٹ جیت کر صدر بن گئے۔ مگر اس بار سفید فاموں نے ٹرمپ کو کم ووٹ ڈالے، تو یقینی ہے کہ مخالف ڈیموکریٹک امیدوار زیادہ الیکٹرول ووٹ جیت کر صدر بن جائے۔

 جنوب کو کھوچکے

اسی لیے ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ الیکشن 2020ء جیتنے کی خاطر صدر ٹرمپ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ امریکیوں میں وہ اس وقت مقبول ہوسکتے ہیں جب انہیں یہ دکھانے میں کامیاب رہیں کہ وہ انتہا پسندی کی حد تک متعصب اور شدت پسند لیڈر نہیں۔ چناں چہ ٹرمپ کی معاشی پالیسیاں پسند کرنے والے غیر متعصب امریکی بھی تب ان کی جانب متوجہ ہوں گے۔ادھر ڈیموکریٹک پارٹی کی یہی حکمت عملی ہے کہ بذریعہ میڈیا صدر ٹرمپ کو متعصب اور شدت پسند ثابت کیا جائے… اور جوکہ وہ ہیں۔ ان کی عملی پالیسیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ڈیموکریٹک رہنماؤں کی یہ بھی پالیسی بن چکی کہ رنگ، نسل اور مذہب سے ماورا ہوکے تمام امریکیوں کو ساتھ مل کر آگے بڑھا جائے۔

مسئلہ یہی ہے کہ کروڑوں امریکی رنگ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر اپنی شناخت پڑی شدت سے اپنائے ہوئے ہیں اور اسے ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ خاص طور پر سفید فام ہونا ان امریکیوں کے لیے فخر و غرور کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے، جب ڈیموکریٹک صدر، لندن جانسن نے جولائی 1964ء میں سول رائٹس ایکٹ منظور کیا، تو انھوںنے اس موقع پر اپنے ایک ساتھی سے کہا تھا ’’ہم ایک نسل کے لیے جنوب کو کھوچکے۔ ‘‘

امریکا کی جنوبی ریاستوں میں متعصب سفید فام بکثرت آباد ہیں۔ اسی لیے صدر لندن جانسن نے اشارہ کیا کہ سیاہ فاموں کو شہری حقوق دیئے جانے کے باعث یہ سفید فام ڈیموکریٹک پارٹی سے ناراض ہوجائیں گے اور کم از کم ایک نسل تک الیکشنوں میں پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پچاس برس کے دوران امریکی جنوبی ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت بہت کم ہوچکی۔ گویا متعصب سفید فام امریکی سمجھتے ہیں کہ سیاہ فاموں کو حقوق عطا کرنے پر اس پارٹی سے جرم یا گناہ سرزد ہوگیا لہٰذا وہ معافی کی مستحق نہیں۔ افسوس، نفرت کا جذبہ بھی کیسے کیسے گُل کھلاتا ہے!

امریکی سیاسی تاریخ کا نیا باب

اُدھر پچھلے پچاس برس سے خصوصاً ریپبلکن پارٹی کے رہنماؤں کی سعی رہی ہے کہ امریکی معاشرے میں رنگ، نسل و مذہب کے مسائل و اختلافات بڑھائے جائیں۔ اس پالیسی کے ذریعے وہ سفید فام امریکیوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ امریکا میں انہی کی اکثریت ہے۔ اسی لیے ہر صدارتی الیکشن کے موقع پر وہ نسلی و مذہبی اختلافات اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ری پبلکن پارٹی کی یہ قدیم چال ہے کہ وہ سیاہ فاموں کو لڑا کے، جھگڑالو، جاہل اور جرائم پیشہ کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی سیاہ فاموں سے نرم سلوک کرتی ہے۔ اسی لیے جب وہ اقتدار میں آئے، تو سیاہ فام شیر ہوکر قانون شکنی کرنے لگتے ہیں۔ اس الزام کا جواب دینے کی خاطر ہی ڈیموکریٹک پارٹی برسراقتدار آکر سخت قوانین بناتی ہے تاکہ حریف جماعت کا یہ پروپیگنڈا دور ہوسکے کہ وہ سیاہ فاموں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔یہ بھی مگر سچ ہے کہ کسی ری پبلکن صدارتی امیدوار نے رنگ، نسل اور مذہب کے اختلافات پر کھلم کھلا باتیں نہیں کیں۔ وہ ڈھکے چھپے الفاظ، ذومعنی لہجے اور نجی محفلوں میں ہی ان امور پر گفتگو کرتے رہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ پہلا امریکی رہنما ہے جس نے ان اختلافات کو نہ صرف سرعام بلکہ اشتعال انگیز انداز میں بیان کیا۔ یوں اس نے امریکی سیاسی تاریخ میں نفرت و تعصب پر مبنی ایک نیا باب لکھ ڈالا۔ امریکا کی جدید سیاسی تاریخ میں اس جیسا لیڈر کم ہی نظر آتا ہے۔

آبادی کے اعداد وشمار

اس موقع پر امریکا کی نسلی و مذہبی تاریخ بھی بیان ہوجائے۔ اس براعظم کو ہزارہا سال قبل افریقا سے آئے انسانوں نے آباد کیا۔ جب کولمبس امریکا پہنچا، تو انہی کی اولاد یہاں آباد تھی۔ بعد ازاں برطانیہ نے امریکا کو اپنی نو آبادی بنالیا اور یہاں قیدی و مجرم لابسائے۔ ان انگریزوں نے امریکا کے ہزاروں مقامی باشندے (ریڈ انڈین) مار ڈالے اور یوں زبردستی علاقے پر قبضہ جمالیا۔

رفتہ رفتہ دیگر یورپی ممالک سے بھی لوگ امریکا چلے آئے۔ سترہویں صدی سے وہ افریقی باشندوں کو غلام بناکر امریکا لانے لگے تاکہ ان سے مختلف کام کرواسکیں۔ اسی دوران لاطینی امریکا کے باشندے بھی امریکہ میں آباد ہوئے جنہیں ’’ہسپانوی‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1700 میں امریکہ میں ڈھائی لاکھ انسان بستے تھے۔ ان میں سے 88.9 فیصد سفید فام اور سیاہ فام 11.1 فیصد تھے۔

1800ء میں امریکا کی آبادی تریپن لاکھ تک پہنچ گئی۔ ان میں تینتالیس لاکھ (81.1 فیصد) سفید فام تھے اور دس لاکھ (18.9فیصد) سیاہ فام۔ 1860ء کی مردم شماری میں پہلی بار امریکا میں آباد ریڈ انڈینز، ایشیائی اور ہسپانوی لوگوں کی تعداد بھی گنی گئی۔ اس کے مطابق امریکا کی آبادی تین کروڑ چودہ لاکھ تینتالیس ہزار تھی۔ ان میں سے چھبیس لاکھ بانوے ہزار سفید فام، چوالیس لاکھ اکتالیس ہزار سیاہ فام، چوالیس ہزار مقامی باشندے (ریڈ انڈینز، اسکیمو، الیوت) اور تقریباً پینتیس ہزار ایشیائی تھے۔ ہسپانوی باشندے سفید فاموں میں شامل کیے گئے جن کی تعداد ایک لاکھ پچپن ہزار تھی۔

امریکا میں ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے۔ گویا اگلے سال نئی مردم شماری انجام پائے گی۔ ایک تخمینے کی اور سے امریکا میں فی الوقت تقریباً تیتیس کروڑ افراد آباد ہیں۔ ان میں سے 62.6 فیصد لوگ یورپی سفید فام نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہسپانوی سفید فاموں کی تعداد 15.1 فیصد ہے۔ گویا امریکا میں سفید فاموں کی کل تعداد 77.7 فیصد ہے۔

متعصب ہونے کی وجوہ

درج بالا سفید فاموں میں سے کم از کم آدھے رنگ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر متعصب ہیں۔ ان میں انتہا پسند یا شدت پسند کافی کم ہیں مگر سفید فاموں کا تعصب کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ووٹ کے ذریعے! چناں چہ امریکی لیڈر ان ووٹروں کو رجھانے کی خاطر مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ متفرق وجوہ کی بنا پر سفید فام امریکی بتدریج زیادہ متعصب ہورہے ہیں۔ ان میں نمایاں یہ ہیں۔

٭… سفید فام سمجھتے ہیں کہ خصوصاً ایشیائی مہاجرین ان سے ملازمتیں چھین رہے ہیں۔

٭… امریکا میں افرادی قوت بہت مہنگی ہے اور دوسرے ملکوں میں سستی! لہٰذا امریکی صنعت کار دیگر ممالک میں کارخانے لگانے اور کمپنیاں بنانے لگے۔ اس باعث امریکا میں ملازمتیں کم تعداد میں جنم لینے لگیں اور بیروزگاری نے جنم لیا۔

٭… اعلیٰ تعلیم امریکا میں خاصی مہنگی ہے۔ طلبہ و طالبات کو ملازمتیں کرنا پڑتی ہیں تب تعلیمی اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آسائشوں کی فراوانی نے امریکی سفید فام نوجوان نسل کو سہل پسند بنادیا ہے۔ لہٰذا وہ جان مار کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے، آج امریکا میں آدھے نوجوان لڑکے لڑکیاں کالج یا یونیورسٹی کی ڈگریاں نہیں رکھتے۔ اسی لیے انہیں معمولی نوعیت کی ملازمتیں ملتی ہیں۔ اس خرابی نے امریکی نوجوانوں میں اضطراب اور بے چینی پیدا کردی۔

٭…یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ایشیا، لاطینی امریکا اور افریقہ سے ہر سال لاکھوں لوگ مغربی ممالک ہجرت کررہے ہیں۔ اسی باعث مغربی ملکوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ تبدیلی ان ممالک میں نئے مسائل پیدا کررہی ہے۔مثال کے طور پر اب امریکی و یورپی شہروں کے ہسپتالوں، سکولوں اور سرکاری دفاتر میں رش رہنے لگا ہے۔ ایک معمولی کام کرواتے ہوئے بھی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی امریکی و یورپی سفید فام باشندوں میں مہاجرین کے خلاف نفرت بڑھارہا ہے۔

٭… امریکا اور یورپ میں یہ نظریہ بھی پھیل رہا ہے کہ مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت مغربی معاشروں میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ مغرب آکر بھی اسلامی روایات و اقتدار کو ترک نہیں کرتے۔ یہ نظریہ بھی کئی سفید فاموں کو متعصب بنارہا ہے۔

عرب ممالک کی تقسیم

یہ واضح رہے کہ خصوصاً امریکا کے یورپی النسل باشندوں میں ایک طبقہ مذہبی طور پر قدامت پسند ہے۔ اس طبقے کو عموماً ’’صیہونی عیسائی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس طبقے میں شامل لوگ سمجھتے ہیں کہ جب یروشلم میں ہیکل سلیمانی تعمیر ہوگا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے۔ یہ نزول یقینی بنانے کے لیے ہی صیہونی عیسائی اسرائیلی حکومت کی بھر پور مدد کررہے ہیں تاکہ وہ مسجد اقصیٰ اور قبتہ الضحرہ شہید کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرلے۔

امریکی حکمران طبقے میں شامل بہت سے وزیر مشیر اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کا داماد تو یہودی ہے۔ یہی وجہ ہے، ٹرمپ نے عالمی رائے عامہ کی پروا نہ کرتے ہوئے تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس لانے کا اعلان کردیا۔ حقیقت میں ٹرمپ حکومت اسرائیل کو مضبوط و طاقتور ریاست بنانے کی خاطر ہر ممکن اقدام کررہی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کی یہ بھی کوشش ہے کہ عالم اسلام خصوصاً عرب ممالک کو تقسیم کردیا جائے۔ چناں چہ وہ ایران و شام اور خلیجی عرب ممالک کے مابین محاذ آرائی اور جنگ کرانے کی سازش کررہے ہیں۔ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمان آپس میں لڑمر کر کمزور ہوجائیں اور یوں کبھی اسرائیلی مملکت کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔

انتہا پسند سفید فاموںکا بڑا مسئلہ

سفید فام سپرمیسی کی جانب پلٹتے ہیں۔درج بالا وجوہ کے علاوہ قوم پرست اور انتہا پسند سفید فاموں کی نظر میں ایک اور مسئلہ سب سے بڑا خطرہ بن چکا۔ چند سال قبل امریکی محکمہ مردم شماری نے انکشاف کیا تھا کہ اگر امریکا میں مہاجرین اسی رفتار سے آتے رہے، تو 2050ء تک وہاں یورپی النسل باشندوں کی تعداد 46.6 فیصد رہ جائے گی۔ گویا امریکا میں غیر یورپی شہریوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔

امریکی محکمہ مردم شماری کی اس رپورٹ نے امریکا میں مقیم یورپی النسل سفید فاموں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ وجہ یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقے (فوج، سیاست دانوں، افسر شاہی، صنعت کاروں) میں انہی یورپی سفید فاموں کی اکثریت ہے۔ یہی لوگ امریکی حکومت کی اچھی بری پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ اسی طبقے کو امریکا میں سب سے زیادہ مراعات بھی حاصل ہیں۔ لیکن یہ طبقہ اگلے تیس برس کے دوران امریکا میں اقلیتی حیثیت اختیار کرگیا، تو یقینا اپنی کئی مراعات اور طاقتوں سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔یہی امکان لاکھوں یورپی النسل امریکیوں سے کابوس (ڈراؤنا خواب) بن کر چمٹ گیا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ امریکی معاشرے میں اپنی حیثیت اور قوت سے محروم ہورہے ہیں۔اسی لیے وہ مہاجرین کے نہایت سخت مخالف بن چکے۔ان کی سعی ہے کہ مہاجرین کی آمد ہرصورت روکی جائے تاکہ امریکا میںیورپی النسل سفد فام امریکیوں کی حاکمیت برقراررہ سکے۔

ماضی میں جب کبھی الیکشن آتے تو عام طور پر امریکی سفید فام معاشی، اور معاشرتی مسائل کی بنیاد پر تقسیم ہوتے تھے۔ لیکن اب مہاجرین کی بڑھتی تعداد اور اسلام کا فروغ خصوصاً یورپی النسل سفید فاموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کررہا ہے۔ فی الوقت یہ ڈونالڈ ٹرمپ کا پلیٹ فارم ہے جو مہاجرین کی آمد روکنا چاہتا ہے اور امریکا میں مسلمانوں کے بڑھتے اثرورسوخ سے بھی خائف ہے۔ انہی سفید فاموں کے ووٹ پاکر ٹرمپ الیکشن 2016ء جیتنے میں کامیاب رہے اور اگلے بھی جیت سکتے ہیں۔

جب پہلا دھچکا لگا

ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ماضی کے امریکا میں یورپی النسل سفید فاموں کی حیثیت و طاقت محفوظ تھی۔ اسی لیے سیاہ فاموں سے نفرت کرنے کے باوجود انہوں نے ان کو شہری حقوق عطا کردیئے۔ اگرچہ امریکی معاشرے سے تعصب ختم نہ ہوسکا۔ سفید فاموں کو پہلا دھچکا 2008ء میں لگا جب سیاہ فام بارک اوباما امریکی صدر بن گئے۔ اس موقع پر پہلی بار یورپی النسل سفید فاموں کو احساس ہوا کہ امریکی معاشرے میں ان کی طاقت کو خطرات لاحق ہوچکے۔

امریکہ میں قدامت پسند میڈیا خصوصاً فوکس نیوز ان خطرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے لگا۔ ٹی وی اینکر چلانے لگے کہ امریکا میں سفید فام بچے کم پیدا ہورہے ہیں۔ کالم نگار دہائی دینے لگے ہیں کہ ’’سفید فام حاکمیت‘‘ ختم ہورہی ہے۔ حتیٰ کہ 2012ء سے خصوصاً سوشل میڈیا میں یہ خبریں پھیلنے لگیں کہ سفید فام ’’نسل کشی‘‘ (Genocide) کا آغاز ہوچکا۔ انہی خبروں کے باعث برینٹن ٹرینٹ جیسے سفید فام نوجوانوں میں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف جذبہ نفرت اتنی شدت اختیار کرچکا کہ وہ معصوم بچوں کو مارتے ہوئے بھی اپنے ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔

اسی دوران بڑھتی مہنگائی، معاشی زوال، بیروزگاری، ملازمت جانے اور مراعات کھونے کے خوف نے لاکھوں سفید فام امریکیوں کو ڈپریشن میں مبتلا کردیا۔ کم ہی پاکستانی یہ سچائی جانتے ہیں کہ امریکہ و یورپ میں روزانہ کئی سفید فام نفسیاتی امراض یا نشے کی وجہ سے چل بستے ہیں۔

سیاسی میدان میں یہ انقلاب آیا کہ یورپی النسل سفید فاموں کی اکثریت قدامت پسند ری پبلکن پارٹی کے پلیٹ فارم پر آگئی۔ 2007ء میں ان سفید فاموں کا ’’44 فیصد‘‘ حصہ ڈیموکریٹک پارٹی جبکہ چوالیس فیصد ہی ری پبلکن پارٹی کا حمایتی تھا۔ لیکن اب تقریباً ’’60 فیصد‘‘ یہ سفید فام ری پبلکن پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔

ری پبلکن پارٹی کی حمایت میں اسی لیے بھی اضافہ ہوا کہ 2008ء تا 2016ء اوباما حکومت نے غیر قانونی مہاجرین کے معاملے میں نرمی برتی۔ انہیں یہ سہولت دی گئی کہ وہ کسی طرح امریکی شہریت حاصل کرلیں۔ اسی طرح پولیس کو ہدایت دی گئیں کہ سیاہ فاموں پر بے جا سختی نہ کریں۔ یورپی النسل سفید فاموں نے مگر ان اقدامات کو بہ نظر تحسین نہیں دیکھا اور انہیں محسوس ہوا کہ سیاہ فام حکومت ان کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔

امریکی پارٹیوں کے مابین مقابلہ

غرض پچھلے پندرہ برس میں مختلف وجوہ کی بنا پر ’’سفید فام سپرمیسی‘‘ اب امریکی معاشرے میں پوشیدہ نہیں رہی بلکہ عام زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس یلغار سے سیاست بھی نہیں بچ سکی۔ مثال کے طور پر پر حالیہ وسط مدتی انتخابات میں یورپی النسل سفید فاموں نے صرف ان امیدواروں کو ووٹ دیئے جو مہاجرین کی آمد کے خلاف تھے۔ ایسے کئی امیدوار جیتنے میں کامیاب رہے۔

تاہم ڈیموکریٹک پارٹی بھی سفید فام سپرمیسی کی علم بردار بن جانے والی ری پبلکن پارٹی کا بھرپور مقابلہ کررہی ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا، اس پارٹی میں سیکولر، اعتدال پسند یا لیفٹسٹ یورپی النسل سفید فام بھی نمایاں تعداد میں ہیں۔ اب یہ پارٹی غیر سفید فاموں کی بھی نمائندہ جماعت بن چکی۔ امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے حالیہ الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ’’180‘‘ خواتین کو امیدوار بناکر نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ ان میں سے 133 خواتین غیر یورپی النسل سفید فام، سیاہ فام یا مہاجر تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ ٹکٹ دیئے۔ڈیموکریٹک پارٹی نے معیشت، تعلیم اور صحت کے روایتی موضوعات پر الیکشن مہم چلائی۔ ری پبلکن پارٹی اسی خوف کو بڑھاوا دیتی رہی کہ مہاجرین کے ’’قافلے‘‘ امریکا کا رخ کررہے ہیں تاہم یہ خوف امریکیوں کے سروں پر سوار نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے، ری پبلکن پارٹی ایوان نمائندگان کی چالیس نشستیں ہار گئی اور امریکی قومی اسمبلی میں اس کی برتری اختتام کو پہنچی۔

اسلامی ممالک خطرے میں

ڈیموکریٹک پارٹی کی اس جیت سے عیاں ہے کہ امریکا میں سفید فام سپرمیسی کا جن ابھی تک پوری طرح بیدار نہیں ہوا۔ لیکن ری پبلکن پارٹی خصوصاً صدر ڈونالڈ ٹرمپ اب سفید فام سپرمیسی کا ڈھول پیٹ کر جیتنے کی بہترین حکمت عملی قرار دے چکے۔ لہٰذا آنے والے وقت میں ٹرمپ اپنی باتوں اور عمل میں مزید متعصب ہوسکتے ہیں تاکہ سفید فام امریکیوں کو اپنے جال میں پھانس سکیں اور الیکشن 2020ء میں فتح حاصل کرلیں۔

یہ عیاں ہے کہ اپنے مفادات کی تکمیل اور اقتدار پانے کے لیے تعصب و نفرت کے جذبات کو بڑھاوا دینے سے ٹرمپ مع اپنی ٹیم امریکا ہی نہیں دنیا کا امن خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ سفید فام سپرمیسی کا جن رفتہ رفتہ امریکی و مغربی معاشروں میں چھاتا جارہا ہے اور یہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اسی کے زیر اثر ایک آسٹریلوی انتہا پسند نے کرائسٹ چرچ میں کئی مسلمان شہید کر ڈالے۔ اگر سفید فام سپرمیسی سے وابستہ نفرت و تعصب کو مزید بڑھاوا ملا تو ممکن ہے، مستقبل میں اسلامی ممالک مثلاً ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا، پاکستان، دبئی وغیرہ میں مقیم اپنی انتہا پسندی کو پوشیدہ رکھنے والا کوئی سفید فام اچانک مسلمانوں پر کرائسٹ چرچ جیسا خوفناک حملہ کردے۔ ٹرمپ جیسے قوم پرست اور شدت پسند مغربی لیڈروں کی پالیسیاں فی الحال اس تصّوراتی امکان کو آگے چل حقیقت کا روپ دے سکتی ہیں۔ضروری ہے کہ ان پالیسیوں کا ابھی قلع قمع کر دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔