دُنیا کو خواتین رہنماؤں کی ضرورت ہے، عائشہ رؤف

تزئین حسن  اتوار 14 اپريل 2019
پاکستان میں طاقتور کمزور سے چھینا جھپٹی کرتا ہے، کینیڈا میں لاقانونیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا

پاکستان میں طاقتور کمزور سے چھینا جھپٹی کرتا ہے، کینیڈا میں لاقانونیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا

شمالی امریکا اور مغربی یورپ کی سیاست میں دیگر مسلم کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ پاکستانی نژاد افراد کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں کینیڈا کی فیڈرل پارلیمنٹ میں دس مسلمان منتخب ہوئے جن میں پاکستانی نژاد والدین کی بیٹی اقراء سید اونٹاریو کی ایک اہم رائیڈنگ ’مسی ساگا‘ سے منتخب ہوئیں۔

آج ہم ’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ کے توسط سے آپ کی ملاقات عائشہ رؤف سے کرواتے ہیں جو ایک پاکستانی نژاد کینیڈین ہیں، انھوں نے حال ہی میں کینیڈا کے صوبے ’البرٹا‘ کی صوبائی قانون ساز اسمبلی / کا ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عائشہ کا تعلق چولستان کے صحرا سے متصل پاکستان کے پس ماندہ ضلع بہاول پور سے ہے، ان کی کہانی مغربی سیاست میں امیگرنٹس کے بڑھتے ہوئے کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے اور گلوبلائزیشن اور مغربی جمہوریت کی کامیابی کو بھی جس میں ایک عام امیگرینٹ کچھ ہی عرصے میں برابری کی بنیاد پر شہری حقوق حاصل کرکے سیاست میں کامیابی کی سیڑھیاں طے کرسکتا ہے۔

عائشہ بہاولپورشہرمیں پیدا ہوئیں اور یہیں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے بہاول پور یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز اور نمل یونیورسٹی سے لسانیات میں ایم فل کیا ہے۔ متوسط طبقے کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والی عائشہ بہت چھوٹی عمر میں یتیم ہوگئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ددھیال کا تعلق علی گڑھ سے تھا اور ان کے والد ایک صحافی کی حیثیت سے مشرق وسطیٰ کے پہلے انگریزی اخبار ’عرب نیوز‘ کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے۔ بچپن میں کچھ وقت عائشہ نے اپنے والد کے ساتھ مملکت سعودی عرب کے شہر جدہ میں بھی گزارا۔

عائشہ 2001ء میں اپنے شریک حیات کے ساتھ بہاول پور سے کینیڈا پہنچیں تو ایک سال تک ان دونوں کو کوئی ملازمت نہ ملی۔ اسی دوران ان کی پہلی بیٹی پیدا ہوئی۔ ان کا کہنا ہے،’کینیڈا میں زندگی پہلے پہل بہت مشکل تھی لیکن ہم نے ہار نہیں مانی اور نئے دیس میں اپنے آپ کو منوانے کی جدو جہد جاری رکھی‘۔ انہوں نے کینیڈا ہی میں رہ کر انگلش لینگوج ٹیچنگ میں ڈپلومہ لیا اور تدریس سے وابستہ ہو گئیں لیکن کچھ ہی عرصے بعد انہیں والدہ کی بیماری اور اپنے شریک حیات کی ملازمت کے با عث دوبارہ پاکستان آنا پڑا۔ اس دوران انھوں نے نمل یونیورسٹی سے ایم فل مکمل کیا۔

سماجی سیاسی سرگرمیاں

عائشہ جب سے کینیڈا آئی ہیں متعدد سماجی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہی ہیں، جن میں کینیڈین پیس انیشیٹو، ریڈ شو سوسائٹی آف البرٹا، شیوا کئیر کمیٹی، بزم سخن لٹریری اور کلچرل سوسائٹی اور پاکستان کینیڈا ویمن ونگ بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اپنی کمیونٹی کی خدمت میرا شوق ہے۔ میں انسانیت پر لوگوں کا یقین بحال کرنا چاہتی ہوں اور یہی چیز مجھے سیاست میں لے کر آئی ہے۔ البرٹا پارٹی کی ممبر بننے سے لے کر اس کا ٹکٹ حاصل کرنے تک کا سفر ایک کٹھن اور لمبا سفر تھا، میرے والدین کی تربیت اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ میرے شریک حیات اور بچوں کا تعاون بھی اس سیاسی سفر میں میرے ساتھ ہے جو میری طاقت ہیں‘‘۔

اس وقت عائشہ ’عالمی میڈیا میں خواتین کی نمائندگی‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے عائشہ کا کہنا ہے،’’عالمی اور مغربی میڈیا میں بھی خواتین کی نمائندگی ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں یکساں کام کا یکساں معاوضہ نہیں ملتا۔ دنیا کوخواتین لیڈرز کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا موقف سامنے لاسکیں اور پالیسی بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکیں۔

عائشہ اپنے بچپن اورخاندان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم تین بہن بھائی ہیں۔ ایک بہن امریکی ریاست ٹیکساس میں تدریس سے وابستہ ہے۔ بھائی فری لانس صحافی ہے اور بہاول پور میں ہی قیام پذیر ہے۔ بچپن سے ہی ہم بہن بھائیوں کو پڑھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا۔ ہماری پسندیدہ سرگرمی چھٹی والے دن بہاول پور کی پبلک لائبریری جا کر کتابوں کے ساتھ دن گزارنا ہوتی تھی۔ بچپن میں میرا ایک خواب تھا کہ میرا ایک گھر ہو جو کتابوں سے بھرا ہوا ہو۔ میری پسندیدہ کتابوں میں شہاب نامہ، لیو ٹالسٹائی کی اینا کرینینا، ہنچ بیک آف نوٹر ڈیم، مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے اور فاطمہ ثریا بجیا کے ناول ہیں‘‘۔

عائشہ کا کہنا ہے کہ بچپن میں وہ عام لڑکیوں جیسی ہی تھیں لیکن اپنی بڑی بہن سے مختلف تھیں جو گھریلو اور خاموش تھیں۔ ان کی امی کا کہنا ہے کہ یہ بچپن میں سوال بہت کرتی تھیں۔ ’بہاول پور میں، میں بھی وہاں کے رواج کے مطابق چادر لیتی تھی لیکن میں شروع سے زیادہ بولنے والی، زیادہ بولڈ، لوگوں سے ملنے اور بات چیت کی شوقین تھی‘۔ عائشہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں بچپن سے سماجی کاموں اور آس پاس کے مسائل حل کرنے کا شوق تھا۔ وہ سوشل ورک پڑھنا چاہتی تھیں، لیکن بہاول پور یونیورسٹی میں یہ شعبہ موجود نہیں تھا اور امی نے پنجاب یونیورسٹی جانے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے ایک سال آرمی پبلک اسکول میں تدریس کے فرائض بھی انجام دئیے۔

کینیڈا میں موجود پاکستانی اور مسلم کمیونٹی کے بارے میں عائشہ کا کہنا ہے،’’کینیڈا میں پاکستانی کمیونٹی ربڑ بند کی طرح ہے۔ یہ اپنا دیس چھوڑ تو دیتے ہیں لیکن ذہنی طور پر وہیں موجود ہوتے ہیں۔ اگر کسی پاکستانی سے اپنے حلقے کے ممبر پارلیمنٹ کے بارے میں پوچھو تو اسے کچھ نہیں معلوم ہوتا‘‘۔ عائشہ کا کہنا ہے کہ یہ رویہ غلط ہے۔ ہم جہاں موجود ہوں وہاں کی سماجی اور سیاسی زندگی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ یہاں کے سیاسی نظام کو سمجھیں اور اپنے جمہوری حقوق و فرائض کا شعور حاصل کریں کہ کس طرح اپنی شکایت کو اپنے حلقے کے کونسلر سے مل کر پارلیمنٹ تک پہنچانا ہے۔

اسی طرح عائشہ کو یہ بھی شکایات ہے کہ بعض امیگرینٹ والدین بچوں پر بے جا سختی کرکے انھیں اپنی اقدار اور کلچر سے بیزار کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو اچھا مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور پاکستانی کلچر سے متعارف بھی کروانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کینڈین کلچرکا بھی شعور دینا چاہیے جہاں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور انہیں ایک اچھا کینیڈین بنانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ عائشہ کا یہ بھی کہنا ہے،’ ہاں! ہمیں اپنے بچوں کو مغربی دنیا میں موجود اخلاقی برائیوں سے بچانے کی کوشش بھی ضرور کرنی چاہیے‘۔

عائشہ کا کہنا ہے ،’ کینیڈا آ کر پہلا فرق تو یہی محسوس ہوا کہ یہ بہت صاف ستھرا ملک ہے، یہاں ہر کام بہت منظم انداز میں ہوتا ہے۔ دوسرا یہاں سارا کام خود کرنا ہوتا ہے لیکن محنت میں برکت ہے‘۔ بہاول پور اور کینیڈا کے ماحول کے فرق کے بارے میں عائشہ کہتی ہیں:’جب ہم بیس سال پہلے کینیڈا آئے، تب بھی یہاں لوگوں میں قطار بنانے کا رواج تھا لیکن پاکستان میں آج بھی ہمیں قطار کا کلچر نظر نہیں آتا۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ صرف انفراسٹرکچر کی بات نہیں، عوام میں شعور کی بھی بہت کمی ہے۔ مجھے اگر کیلے کا چھلکا پھینکنے کے لئے کچرے کا ڈبہ نہ ملے تو میں آدھے گھنٹے بھی اسے ہاتھ میں پکڑے رہوں گی لیکن اسے سڑک پر نہیں پھینکوں گی۔ پاکستان میں پان کی پیک سڑک پر پھینکنے والا یہ سوچ نہیں رکھتا۔ وطن عزیز میں ابھی بہت سی مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے‘۔

پاکستانی سیاست کے بارے میں ان کا کہنا ہے،’سیاست دان قوم کو لوٹ رہے ہیں۔ طاقت ور کمزور سے اور کمزور اپنے سے زیادہ کمزور سے چھینا جھپٹی میں مصروف ہے۔ کینیڈا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آتا۔ یہاں لا قانونیت نہ ہونے کے برابر ہے‘۔

اس سوال پر کہ کینیڈین سیاست میں مفاداتی گروہوں اور لابیز کا بھی تو کردار ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کو فنڈ دیتی ہیں اور اپنی مرضی کی قانون سازی کرواتی ہیں، عائشہ کا کہنا ہے،’اسی لئے اس الیکشن میں کارپوریٹ فنڈنگ ممنوع ہے کہ کوئی مخصوص انڈسٹری بعد میں اپنے مالی عطیہ کا فائدہ نہ اٹھا سکے‘۔ لیکن عائشہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سرمایہ دار اپنی ذاتی حیثیت میں سیاسی عطیات دے سکتا ہے۔اس سوال پر کہ آپ پاکستان میں ہوتیں تو بھی کیا کسی خاندانی سیاسی بیک گراؤنڈ کے بغیر سیاست میں حصہ لیتیں؟ عائشہ کا کہنا ہے،’میں ضرور سیاست میں آتی اور میں سیاست کو پاکستانی عورت کے لئے آسان بنانے کی کوشش کرتی کیونکہ عورت ہر چیز کو نرمی اور معاملہ فہمی سے حل کرنے کی عادی ہوتی ہے اور وطن عزیز میں ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے‘۔

عائشہ اپنے کام، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے علاوہ تین بچوں کی ماں ہونے کی ذمہ داری بھی حسن و خوبی سے ادا کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوکنگ میرا شوق ہے، لیکن مہینے میں ایک آدھ دفعہ میرے میاں بھی کھانا بناتے ہیں۔ ان کے شریک حیات سول انجنیئر ہیں اور سرکاری ملازمت سے وابستہ ہیں۔ صفائی ہم سب مل کر کرتے ہیں۔ ہمارا خاندان پورا موسم سرما گرمیوں کا انتظار کرتا ہے تاکہ ہم گھومنے پھرنے جا سکیں۔ عائشہ اپنے بچوں کے ساتھ بائیک بھی شوق سے چلاتی ہیں۔ انہوں نے دو بلیاں اور آسٹریلین طوطے بھی پال رکھے ہیں۔

پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے سے اُٹھ کر کینیڈا کی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی جدو جہد کرنے والی عائشہ کی زندگی دنیا میں پاکستانی خواتین کے با ہمت کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے اور گلوبلائزیشن کا عملی مظہر بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔