’’اور پیسے نکالو‘‘ اور تقاضا پورا نہ ہونے پر گولیاں برسا کر اس کی زندگی اُجاڑ دی گئی

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 18 اگست 2013
فہیم کی کہانی تو اس کے چہرے پر نقش ہے۔ فوٹو: فائل

فہیم کی کہانی تو اس کے چہرے پر نقش ہے۔ فوٹو: فائل

زندگی کوئی سیدھی سڑک نہیں ہے کہ جس پر ہنستے گاتے چلتے چلے جائیں۔

کوئی روک ٹوک نہ ہو، راستہ سیدھا ہو، موسم سہانا ہو، زاد سفر بھی وافر ہو، امن ہو، امان ہو، کہیں لُٹنے کا ڈر نہیں ہو، نخلستان ہوں، سایہ دار شجر ہوں، جو پھلوں سے لدے پھندے اور جھکے ہوئے ہوں، جہاں گل ہائے رنگا رنگ سے منظر مہکتا ہو، جہاں آبشاریں ہوں، ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے اور بہاریں ہوں، جہاں اندیشۂ زیاں نہ ہو، نہیں ایسا نہیں ہے جیون۔ شاہ راہِ حیات ہم وار نہیں ہے۔ بہت بے اعتبار ہے، بہت پُرخطر ہے یہ۔ سیدھی سڑک نہ جانے کہاں ناہم وار ہوجائے، جانے کہاں مڑجائے، نہیں شاہ راہ زندگی بہت عجیب ہے۔ اس میں بھول بھلیاں ہیں، نشیب ہیں، فراز ہیں، اس کا موسم یک سا نہیں رہتا ، یہاں کاسایہ نہ جانے کب دھوپ میں بدل جائے اور نخلستان صحرا میں، نہ جانے آشنا کب اجنبی بن جائے، سانس لینا عذاب اور جینا بھیانک خواب ہوجائے، کوئی نہیں جانتا جیون کے راز کو، جیون بس کہانی ہے جو نہ جانے کب کوئی موڑمڑ جائے، ہاں کوئی نہیں جانتا کوئی بھی نہیں۔

فہیم کی کہانی تو اس کے چہرے پر نقش ہے، لیکن اس کہانی کے ہر کردار نے اس میں رنگ بھرے ہیں۔ فہیم، اس کی وفا شعاربیوی صدف، اس کی گیارہ سالہ بیٹی ماہ نور، فہیم کی ماں، فہیم کو پالنے پوسنے والی اس کی بوڑھی ناتواں اور آب دیدہ نانی، فہیم کے بھائی۔

شہر بے اماں ونا پرساں کی ادھڑی ہوئی زخمی سڑکوں کو روندتے ہوئے ہم اس کے کھنڈر نما گھر پہنچے۔ وہ سب ہمارے منتظر تھے۔ پھر کہانی سنائی اور سنی جانے لگی۔ آنسو بھری کہانی، جس کے کردار ہمارے سامنے تھے، نہیں جیون کوئی سیدھی ہم وار سڑک نہیں ہے۔

میں کراچی میں پیدا ہوا۔ اب میری عمر چونتیس سال ہے ۔ میرے والد ویلڈنگ کا کام کرتے تھے۔ ہمارے معاشی حالات ابتر ہی رہے ہیں۔ ہمیشہ اپنی والدہ کو گھر پر سلائی کرتے محنت کرتے ہی دیکھا ہے۔ میں نے جیسے تیسے میٹرک پاس کیا۔ یہ بھی بہت تھا کہ اتنا پڑھ لیا، ورنہ ہم جیسے گھرانوں میں پڑھنے کی عیاشی کا کوئی متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس دوران والد صاحب کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ ویسے بھی ویلڈنگ میں انسان بری طرح سے گُھل جاتا ہے، پھر ان کا انتقال ہوگیا۔ گھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے کام کی تلاش شروع کی۔ چھوٹے موٹے کام تو میں نے بہت کیے، پھر مجھے ڈبل روٹی بنانے والی ایک فیکٹری میں سیلزمین کا کام مل گیا۔ جہاں محنت زیادہ اور معاوضہ کم تھا خیر ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ ہر ایک دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ میرے کام کرنے سے گھر میں کچھ آسانی اور خوش حالی آئی ۔ ہم سب بھائی بہت پیار محبت سے رہتے تھے۔ سب ہی اک دوجے کا خیال رکھتے تھے، ایسے میں گھر میں میری شادی کی باتیں ہونے لگیں اور پھر ایک لڑکی پسند آگئی اور یوں میری شادی ہوگئی ۔

شادی ہونے سے میری ذمے داریاں تو بڑھ گئی تھیں، لیکن جیون بہت حسین ہوگیا۔ مجھے بیوی بہت اچھی ملی، جس پر میں اﷲ کا بے حد شکرگزار ہوں۔ شادی کو آٹھ ماہ ہوگیے تھے۔ میری بیوی امید سے تھی، ہم نئے مہمان کے آنے کے منتظر اور بہت خوش تھے۔ ہم نئے آنے والے مہمان کی باتیں کرتے، اس کے لیے بہت منصوبے بناتے۔ انسان خواب بہت دیکھتا ہے۔ اس دن بھی میں حسب معمول اپنے کام پر جانے کے لیے نکلا۔ فیکٹری پہنچ کر میں اور ڈرائیور ڈبل روٹی کی سپلائی کے لیے نکلے، ہمارے پاس لیاری کا علاقہ تھا۔ ہم نے مختلف دکانوں پر سپلائی دی اور وصولیاں بھی کیں۔ ہم کلاکوٹ پہنچے تو چار لڑکوں نے ہمیں روک لیا۔ ہمارے پاس بارہ یا تیرہ سو روپے تھے وہ چھین لیے۔ پھر وہ تقاضا کرنے لگے کہ اور پیسے دو۔ ہمارے پاس تھے ہی نہیں تو کہاں سے دیتے، انہیں بہت سمجھایا منتیں کیں، خوشامد کی، لیکن ان کی تو ایک ہی رٹ تھی اور پیسے دو۔ ان کا اصرار بڑھ رہا تھا لیکن ہم مجبور تھے اور وہ ہمیں جھوٹا سمجھ رہے تھے۔

آخر انہوں نے مجھے ایک گولی ماری جو میرے پیٹ میں لگی، میں نے پھر ان سے کہا کہ میرے پاس نہیں ہیں پیسے، لیکن ان کے سر پر تو خون سوار تھا، انہوں نے دوسری گولی ماردی جو میری پیٹھ میں لگی۔ پھر وہ چلے گئے اور سپلائی وین کی چابیاں بھی ساتھ لے گئے تھے۔ ہمارے ڈرائیور نے کسی طریقے سے گاڑی اسٹارٹ کی اور مجھے سول اسپتال پہنچایا، وہاں ڈاکٹر نے کہا یہ پولیس کیس ہے پہلے پولیس اپنی کارروائی پوری کرے گی پھر ہم علاج شروع کریں گے۔ میں بے دست و پا تھا، کمپنی کو اطلاع ہوگئی تھی، لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ میرے دیگر سیلز مینز دوستوں نے خود پیسے جمع کیے اور اسپتال پہنچائے، یہ ہے یہاں مزدوروں کا تحفظ، جب تک کام کے ہیں خون نچوڑو، جب کام کے نہ رہیں تو منہ موڑلو، تم کون ہم کون۔ یہ ہے یہاں کا نظام، سرمایہ داروں کا مکروفریب ہے یہ سب، خیر میری حالت بگڑتی چلی جارہی تھی اور اسپتال میں یہ نکتہ زیرغور تھا کہ پولیس پہلے کیس رجسٹر کرے اور پولیس کا کہیں نام ونشان نہیں تھا۔

میں یہ تو آپ کو بتانا ہی بھول گیا کہ جب مجھے ان لڑکوں نے گولیاں ماری تھیں، قریب ہی ایک پولیس موبائل بھی کھڑی تھی۔ وہ لڑکے موٹر سائیکلوں پر ان کے سامنے سے ہی گزرے تھے اور وہ بت بنے کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن یہ دنیا اچھے لوگوں سے بھری ہوئی ہے، وہاں ایک ڈاکٹر بھی تھے، ڈاکٹر عمیر۔ وہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے میرے آپریشن کا فیصلہ کیا وہ گھر والوں کو بتا چکے تھے کہ میرے بچنے کی امید صفر ہے۔ لیکن کوشش کرتے ہیں پیٹ میں گولی لگنے سے میرا پِتا پھٹ گیا تھا جس سے زہر پھیل گیا تھا اور پھر اتنی دیر تک میں باہر بھی پڑا رہا۔ ڈاکٹر عمیر پانچ گھنٹے تک میرے ساتھ مصروف رہے۔ لیکن وہ مسلسل کہہ رہے تھے کہ بچنے کی امید صفر ہے، لیکن بس زندگی تھی تو بچ نکلا۔ لیکن میرا نچلا حصہ مفلوج ہوگیا۔ سرکاری اسپتال بھی برائے نام اسپتال ہیں، نہ دوا نہ دارو کچھ بھی نہیں بس ایک تسلی ضرور ہوتی ہے کہ اسپتال میں ہیں اور غریب کے لیے یہ تسلی بھی بہت بڑی نعمت ہے، میں خاصے عرصے تک سول اسپتال میں رہا بس جگہ ہی تھی باقی سب دوا دارو تو خود کرنا پڑتا تھا۔

میں معذور ہوگیا تھا اور حالات تیزی سے ہاتھ سے نکل رہے تھے۔ ہم کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ سب مزدور ہیں، آمدنی محدود ہے، اب میرے ساتھ حادثہ ہوگیا۔ میری آمدنی ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ خرچ بھی بے انتہائی بڑھ گیا۔ عجیب عذاب میں آگئی زندگی۔ غریب آدمی کر بھی کیا سکتا ہے۔ بس صبر، پھر ایک دن اسپتال والوں نے فارغ کردیا اب میں گھر پر تھا۔ زندگی تو اب ختم ہونی تھی۔ وہاں کم از کم تربیت یافتہ عملہ تو تھا۔ یہاں گھر میں تو بس میری بیوی تھی، میں بول نہیں سکتا تھا۔ ہاتھ پائوں ہلانا تو دور کی بات ہے۔ زندہ لاش تھا میں، جس کی سانسیں چل رہی تھی بس۔ پھر علاج کا خرچ بھی نہیں تھا۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا تو علاج کے لیے کہاں سے آتا۔ میں لیٹا ہوا سوچتا رہتا کہ کیا کروں گا ایسی زندگی کا دو دفعہ خودکشی کی کوشش کی پھر میری بیٹی پیدا ہوئی، ماہ نور نام ہے اس کا۔ بس یہ پیدا ہوئی تو میں نے تہیہ کرلیا کہ اب خودکشی کا سوچوں گا ہی نہیں میں کچھ کروںگا، مانگ مانگ کے، کچھ مخیر حضرات کے تعاون سے میرا علاج چلتا رہا۔

میں مکمل صحت مند تو نہیں ہوا لیکن بس گزارہ ہوگیا تھا۔ پھر میں نے کچھ کام کرنے کا سوچا اور گھر سے کچھ فاصلے پر بچوں کے گیم کی دکان کھول لی وہ بھی ایک نیک آدمی نے پیسے دیے تھے۔ وہاں تک جانا اور آنا ایک انتہائی مشکل اور اذیت ناک کام تھا۔ محلے کا ایک لڑکا مجھے لے کر جاتا اور واپس لاتا تھا۔ کچھ عرصے تک میں نے وہ کام کیا۔ ایک دن اس نے مجھے اٹھایا ہوا تھا کہ میں زمین پر گر گیا اور میرے کولہے اور پائوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ زندگی پہلے ہی عذاب تھی مزید عذاب ہوگئی۔ اب تو میں کسی کام کا نہیں رہا تھا۔ پھر ایک ٹی وی چینل والوں کے توسط سے ایک نیک انسان آیا اور اس نے میرے علاج معالجے کے تمام اخراجات برداشت کرنا شروع کیے۔ بہت اچھے اور نیک انسان تھے وہ، بہت زیادہ خیال رکھا، انھوں نے میرا، بستر پر مسلسل لیٹے رہنے سے بیڈ سور ہوگئے۔ بہت اذیت ناک ہوتے ہیں یہ بیڈ سور۔ انسان جیتا ہے نہ مرتا۔

مجھے ہر اسپتال میں داخل کرایا گیا، ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میں اب زندگی بھر چل پھر نہیں سکتا تو ٹانگوں کا بوجھ کم کردیا جائے۔ یعنی میری مفلوج ٹانگیں تن سے جدا کردی جائیں۔ ایک لحاظ سے تو وہ ٹھیک کررہے تھے لیکن میں نہیں مانا کہ ناکارہ سہی لیکن ٹانگیں تو ہیں ناں۔ لوگوں کو چاہے بری لگیں مجھے تو اچھی لگتی ہیں۔ دن گزرتے گئے اور زندگی کی اذیت بڑھتی گئی وہ نیک دل فرشتہ سیرت انسان میرے اخراجات اٹھاتا رہا۔ پچھلے سال یعنی ستمبر2012میں ہم پر پھر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہوا یوں کہ میرا چھوٹا بھائی جس کی عمر 26سال تھی وہ میرا سہارا بھی تھا، قریب ہی اپنے دوست کے ساتھ بیکری پر گیا۔ وہ ابھی بیکری پہنچا ہی تھا کہ فائرنگ کی زد میں آگیا۔ اس کی گردن میں گولی لگ گئی۔ 24دن تک وہ بھی موت سے لڑتا رہا اور بالآخر ہار گیا۔ اب تو میں اور زیادہ افسردہ تنہا اور لاچار ہوگیا تھا۔ وہ بہت بڑا سہارا تھا میرا۔

لیکن جینا پڑتا ہے اور سہنا پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وہ جو نیک دل انسان میرے اخراجات برداشت کررہا تھا، اسے بھتے کی پرچیاں اور ساتھ ہی دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ آخر وہ ملک چھوڑ کر چلاگیا۔ جاتے ہوئے اس نے مجھ سے معذرت کی۔ بہت دکھی تھا۔ لیکن وہ مجبور تھا کیا کرتا۔ جان سے پیاری تو کچھ بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں جان ہے تو جہان ہے اب زندگی اندھیر ہے لیکن میں مایوس نہیں ہوں۔ دس سال ہوگئے ہیں، میں اس حالت میں ہوں، روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں لیکن ہمت نہیں ہارتا تہیہ کرلیا کہ نہیں ہاروں گا ہمت چاہے کچھ ہوجائے، مجھے صرف دوائوں کی مد میں 25ہزار روپے ماہانہ درکار ہیں۔ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ مکان کرایہ کا ہے مہنگائی نے جینا اجیرن کردیا ہے۔

صدف کی کہانی:

فہیم کی بیوی صدف مجسم ایثارووفا ہے گذشتہ دس سال سے وہ اپنے مفلوج شوہر کی بے لوث خدمت کررہی ہے، فہیم کی والدہ کا کہنا ہے کہ صدف ان کے لیے خدا کی طرف سے تحفہ ہے۔ ایسی لڑکیاں نعمت خداوندی ہوتی ہیں۔ صدف اپنے شوہر فہیم کی مرہم پٹی ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی راحت وآرام اور چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہے۔ صدف فہیم کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی ماہ نور کا بھی ہر طرح سے خیال رکھتی ہے صدف ہمارے سوال پر کہ آپ کو تو بہت محنت کرنا پڑتی ہوگی۔ کہا محنت تو ہر کام میں کرنی پڑتی ہے۔

فہیم شادی کے آٹھ ماہ بعد ہی اس حادثے کا شکار ہوگئے تھے۔ وہ میرے شوہر ہیں ان کی خدمت مجھ پر فرض ہے اور میں اسے احسان نہیں فرض سمجھتی ہوں۔ میں اﷲ تعالیٰ کی شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے آزمائش میں ڈالا اور مجھے ہمت دی کہ میں اس بڑے امتحان میں سرخرو رہوں۔ بس اﷲ تعالیٰ ہی ہے جو مجھے ہمت اور حوصلہ دیتا ہے، میں اﷲ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہوں اور ہر وقت دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے اس امتحان میں کام یاب فرمائے اور میرے شوہر فہیم کو صحت سے نوازدے۔ اﷲ تعالیٰ تو ہر شے پر قادر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ فہیم ایک دن ضرور تن درست ہوجائیں گے اور پھر سے زندگی کی بہاریں اور رونقیں لوٹ آئیں گی۔ مجھے بس اس دن کا انتظار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔