ایک درویش وزیر اعلیٰ

عبدالقادر حسن  ہفتہ 27 اپريل 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

قیام پاکستان کے بعد ہم پھر اسی اشرافیہ کا شکار بن گئے جو قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں کی شکل میں ہم پر مسلط تھی یعنی ایک آزاد ملک میں بھی ہمارا مقدر وہی لوگ ٹھہرے جو متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کے پروردہ اور ان کے نمک خوار تھے ۔انگریز جاتے جاتے نوزائیدہ ملک کو اپنی باقیات کے حوالے کر گیا جنھوں نے دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے ایک آزاد ملک کے باشندوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جو اس سے پہلے انگریز سرکار کے دور میں متحدہ ہندوستان کے باسیوں کے ساتھ انگریز روا رکھتے آئے تھے ۔

ایک آزاد ملک میں بھی ہماری قسمت میں اشرافیہ ہی لکھ دی گئی اور اس اشرافیہ نے آزاد ملک کے باشندوں کے ساتھ ظاہر ہے محکوموں والا سلوک شروع کر دیا یعنی ہم آزاد ہونے کے باوجود بھی محکومی کی زندگی گزارنے لگے۔

انگریز کے دور میں جو جاگیردار ہم پرمقامی اشرافیہ کی صورت میں مسلط تھے انگریزوں کے جانے کے بعد بھی وہی ہمارا مقدرٹھہرے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں کی غلامی میں جن مقامی لوگوں نے ان کا ساتھ دیا انگریزوں نے ان کو بہت نوازا ان کو جاگیریں بھی عطا کی گئیں جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ جب انگریز برصغیر سے رخصت ہوئے تو ان کے جانشین وہی لوگ بن گئے جن کے پاس انگریزوں کی دی ہوئی جاگیریں تھیں کیونکہ وہی لوگ عام لوگوں سے بہتر زندگی گزار رہے تھے اس لیے ہمارے بھی عوام نے ان کو اپنے بڑوں کی صورت میں قبول کر لیا ۔ آزاد پاکستان کے ہر علاقے میں نوابوں اور ملکوں کا دور تھا جو مقامی سطح پر حکمرانی کی طاقت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسے بہت کم حکمران گزرے ہیں جو عوام میں سے تھے یعنی ان کا تعلق براہ راست عوام سے تھا اور وہ کوئی جدی پشتی رئیس یا جاگیردار نہیں تھے۔ سندھ اور بلوچستان میں روایتی سرداروں کا قبضہ رہا جو کہ آج تک جاری ہے اور مقامی لوگ جدی پشتی اشرافیہ کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، ابھی دور دور تک اس تبدیلی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ خیبر پختونخوا کے عوام کا اپنا الگ ہی انداز ہے اس خطے کے باسی کسی کے ماتحت رہنا پسند نہیں کرتے لہٰذا وہ انتخابات میں اپنی مرضی اور ناپسند سے اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے آئے ہیں۔

پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں بھی روایتی جاگیرداروں کا قبضہ ہی رہا۔ کبھی قریشی تو کبھی ٹوانے، نون ، چوہدری اور مخدوم زادے یا پھر ملک امیر محمد خان جیسا فہم و فراست والا لیکن جابر حکمران مغربی پاکستان کے گورنر کے عہدے پر فائز رہا۔پنجاب کے حصے میں ان جاگیرداروں کے علاوہ اگر کوئی عام حکمران آیا تو سب سے پہلا نام مرحوم غلام حیدر وائیں کا آتا ہے جو پنجاب کے پہلے درویش منش وزیر اعلیٰ تھے انھوں نے اپنی حکمرانی کے دور میں میرٹ کے فروغ کے لیے بہت کوشش کی وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے لیکن ان کی میرٹ کے فروغ کے لیے کوششوں کو اشرافیہ سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ پنجاب کے چوہدریوں کی اگر بات کی جائے تو ان میں نمایاں نام چوہدری ظہور الٰہی کے گھرانے کا آتا ہے جنھوں نے یونین کونسل سے سیاست کا آغاز کیا اوروزیر اعلیٰ کے منصب سے ہوتے ہوئے ڈپٹی وزیر اعظم اور پھر وزیر اعظم کے عہدے ان کا مقدر ٹھہرے ۔

پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی بات کی جائے تو گزشتہ عام انتخابات کے بعد سب کے لیے یہ پہیلی تھی کہ پنجاب کا ہما کس کے سر بیٹھتا ہے ۔ روایتی طور پر پنجاب میں یہ بات عوام کے ذہنوں میں بیٹھ چکی ہے کہ پنجاب کے حکمران کا تعلق کسی اشرافی طبقے سے ہونا ضروری ہے لیکن عوام اور میڈیا کی قیاس آرائیوں کے بالکل برعکس وزیر اعظم عمران خان نے جنوبی پنجاب کے عثمان بزدار کے حق میں فیصلہ کیا اور ان کو پنجاب کی حکمرانی سونپ دی گئی ۔

عثمان بزدار کے بطور وزیر اعلیٰ انتخاب کے بعد ان کی انتظامی صلاحیتوں کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں کبھی ان کے اپنے آبائی گھر میں بجلی نہ ہونے کا طعنہ دیا گیا تو کبھی ان کی شریف النفسی پر بحث کی گئی۔ دراصل ہم پنجابی گزشتہ دس برس سے شہباز شریف کے نام سے اس قدر مانوس ہو گئے تھے کہ ان کی جگہ ہمیں کوئی دوسرا نام وزیر اعلیٰ پنجاب کی جگہ پر جچتا ہی نہیں تھا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سابقہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں پنجاب کی تعمیر و ترقی کے لیے دن رات ایک کیے رکھا لیکن ان کے پیشرو کو بھی ان کی ترقی کی رفتار کا مقابلہ کرنے کے لیے انھی جیسی شخصیت کا حامل ہونا چاہیے لیکن ہر شخص ایک دوسرے سے الگ اور مختلف صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ۔ پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ کو اقتدار سنبھالے ابھی ایک برس بھی نہیں گزرا لیکن ان کی کارکردگی پر تنقید شروع ہو گئی اور یہاں تک کہ ان کی تبدیلی کی باتیں شروع ہو گئیں جن کی تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے سختی سے تردید کر دی گئی اور وزیراعلیٰ کو ان کی پارلیمانی پارٹی نے بھی اعتماد کا ووٹ دے کر ان پر اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔

عثمان بزدار پنجاب کی سیاست میں نئے نہیں ان کے والد ان سے پہلے پنجاب اسمبلی کے رکن رہے ہیں لہٰذا ان کو سیاست میں نووارد نہیں کہا جا سکتا البتہ ایک بات ضرور ہے کہ ان کو پنجاب کی ترقی کے لیے وہیں سے کام شروع کرنا چاہیے جہاں سے ان کے پیشرو چھوڑ کر گئے ہیں ۔ میاں شہباز شریف نے پنجاب کے بڑے شہروں میں ترقیاتی منصوبے مکمل کیے عثمان بزدار کو چاہیے کہ وہ پنجاب کے ان اضلاع میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھائیں جو گزشتہ دس برسوں میں بڑے شہروں سے پیچھے رہ گئے، درحقیقت چھوٹے اضلاع کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے آج پنجاب کے دوردراز کے اضلاع کا یہ حال ہے کہ سڑکیں بنانے کے دعویدار تو حکومت سے دس برس کے بعد رخصت ہو گئے مگرپنجاب کے چھوٹے اضلاع کی سڑکیں سفر کے قابل نہیں ہیں۔

میں اپنے ضلع خوشاب کی بات کروں تو میرے ضلع کی تما م سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں ۔ہمارے موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار وادیٔ سون کا ایک چکر لگا چکے ہیں لیکن ضلع خوشاب کے باشندوں کی بدقسمتی کہ ان کو ہماری افسر شاہی نے سڑک سے سفر کے بجائے ہیلی کاپٹر سے سفر کرایا اگر وہ بذریعہ سڑک سفر کرتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ لاہور سے دور رہنے والے کس کرب میں مبتلاء ہیں ۔

ہماری گھٹی میں غلامی کا انداز اس قدر سرائیت کر چکا ہے کہ ہم کسی عام آدمی کو اشرافیہ پر ترجیح نہیں دیتے اور ہماری اشرافیہ بھی اس کو قبول نہیں کرتی کہ ایک عام آدمی ان پر حکمرانی کرے کیونکہ وہ حکمرانی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس حق پر اس وقت عثمان بزدار قابض ہیں ان کو ایک عام آدمی کی حکمرانی کے تصور کو کامیاب ثابت کرنا ہو گا ۔ پنجابیوں کی دعائیں اپنے شریف النفس اور درویش وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔