وہ جلتے ہیں ہم سے…

شیریں حیدر  اتوار 2 جون 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اتنی قریبی عزاء داری… اور اس دکھ کے موقع پر ان کے ہاں سے کسی کو نہ دیکھ کر میں رہ نہ سکی اور میت والے گھر سے فارغ ہو کر میں ان کے ہاں جا پہنچی۔ ان سے سوال کیا کہ انھیں اس کی اطلاع ہوئی تھی؟ ’’ ہاں… مسجد کے اسپیکر میں اعلان ہوا تھا کئی بار… ظاہر ہے کہ ہم نے سنا تھا، لیکن گئے اس لیے نہیں کہ انھوں نے کون سا ہمیں بندہ بھیج کر یا فون کر کے اطلاع کی تھی!! واقعی؟ میں تقریبا چیخی تھی، کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ آپ کے اتنے قریبی عزیز اور آپ کو بالخصوص بندہ بھیج کر یا کال کر کے اطلاع کریں تو آپ ان کے ہاں پرسے کے لیے جائیں گے؟ کوئی خوشی کا موقع ہو تو اس نوعیت کا اعتراض بنتا بھی ہے، ان کے دکھ میں شریک ہونے کے لیے تو آپ کو بہر حال چلے جانا چاہیے تھا چاہے آپ کو کوئی بھی بتا دیتا۔

بہر حال… ایک موقع تو ضایع ہو گیا تھا، اب وہ بعد ازاں مارے باندھے چلے بھی جاتے ہیں تو گھر والوں کو یہ کبھی نہیں بھولنے والا کہ چند گلیوں کے فاصلے پر رہنے والوں نے ان کے گھر کا ایک جنازہ مس کر دیا تھا۔ وقت اچھا ہو یا برا، اس کا کام تھمنا نہیں ، چلتے رہنا ہے چاہے کسی کو کوئی بھی مجبوری ہو۔ ہم میں سے جس سے بھی سوال کریں، ا س کے ضمیر پر کوئی نہ کوئی ایسا بوجھ ہو گا کہ وہ گزرے ہوئے وقت میں سے کسی وقت میں دوبارہ جینا چاہے گا، ہر کوئی سوچتا ہے کہ کاش وہ وقت دوبارہ مل جائے تو اس کے بعد کی زندگی کا نقشہ ہی جدا ہو جائے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم سب اپنے دلوں میںحسد اور بد گمانیوں کی اتنی دھول چڑھائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کسی کے بارے میں مثبت گمان آتا ہی نہیں اور نتیجتا ان کے اور ہمارے مابین فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔

چاہ کر بھی ہم بات چیت میں پہل نہیں کرتے کیونکہ جوں جوں وقت گزرتا ہے جھجک بڑھتی جاتی ہے ، اسی لیے تو ہمارے مذہب میں واضع طورپر کہا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زائد ناراض رہے۔ تین دن تک تعلقات منقطع ہونے کے ساتھ ہی اتنی غیریت پیدا ہو جاتی ہے تو سوچیں جب ہفتے ، مہینے اور سال گزرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ۔ بسا اوقات ہم اپنے کسی پیارے سے برسوں ناراض رہتے ہیں، کبھی خود سے راضی ہو جائیں یا کوئی بیچ میں پڑ کر مصالحت کی کوشش کرے اور بات چل نکلے تو پہاڑ کے اندر چوہے کے حجم کی بات بھی نہیں نکلتی کہ جس کے باعث دو فریقین کے بیچ صدیوں کے فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں ۔

عمر کے کسی نہ کسی حصے میں انسان کی سوچ اس کی اس سوچ سے مختلف ضرور ہوتی ہے جس کے ساتھ اس نے اپنی پہلی عمر گزاری ہوتی ہے، جوں جوں ہم عمر کے آخری حصے کی طرف سفر پر گامزن ہوتے ہی تو ہر بات میں سے مثبت پہلو تلاشنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ دنیا کے مال متاع ہم نے یہیں چھوڑ کر چلے جانا ہے، اگر کچھ ساتھ جانا ہے تو وہ ہمارے اعمال ہیں اور جس چیز نے ہمیں اس دنیا میں زندہ رکھنا ہے وہ ہمارے اخلاق ہیں۔ کیا آپ کو اچھا لگے گا کہ اگر آپ کے جانے کے بعد کوئی یہ کہے کہ جانے والا بڑا بد مزاج، جھگڑالو، بد طنیت، حاسدیا فتنہ باز تھا۔ اگر چہ ہم اپنے جانے والے کے لیے کوئی بری بات نہیں کرتے، چاہے وہ جتنا بھی برا ہو مگر دل سے تو سب جانتے ہیں اور کہیںیا نہ کہیں، ان کی سوچ پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی کہ شکر ہے ایک برے آدمی کا خاتمہ ہوا اور دنیا اس کے وجود سے پاک ہوئی۔

بدگمانی کا کیڑا ہمارے اندر ہی کہیں پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کی پرداخت باہر کے کسی ’’ جراثیم‘‘ سے ہوتی ہے۔ جب ہم اپنے کسی ایسے پیارے کی بات کسی دوسرے کے خلاف سن کر متاثر ہوتے ہیں کہ واقعی ایسا ہی ہے۔ فلاں موقع پر وہ ہمارے ہاں آئے تو وہ بجھے بجھے سے لگ رہے تھے، انھیں ہم سے حسد ہے، ہماری خوشی میں وہ ناخوش لگ رہے تھے۔ میں نے تو یہاں تک لوگوں کو باتیں کرتے ہوئے سنا ہے کہ فلاں نے میرے بیٹے کی کامیابی کی خوشی میں مٹھائی بھجوائی تو وہ باسی تھی، فلاں نے میرے بیٹے کی فیس بک پر اس پوسٹ کو like نہیں کیا جو اس نے اپنی ملازمت شروع ہونے پر لگائی ہے، ظاہر ہے کہ حسد کی وجہ سے ہے۔

اور تو اور لوگ یہ تک کہتے ہیں، فلاں میرے ابا کی وفات پر آئی تو اس نے چمکدار کپڑے پہنے ہوئے تھے اور وہ سب کو مسکرا مسکرا کر مل رہی تھی، مصنوعی طور پر بھی نہیں روئی۔ جانے لوگوں کو اس طرح کے حالات میں کس طرح یاد رہتا ہے کہ ایسی باتیں نوٹ کرنا ہیں اور انھیں یاد بھی رکھنا ہے۔ میں نے تو خود اس مرحلے سے گزر کر جانا کہ ایسے وقت میں آپ کو علم بھی نہیں ہوتا کہ کون آیا اور کون نہیں، کس نے مسکرا کر باتیں کیں اور کون نہیں رویا، اپنے غم میںمبتلا انسان ہر جذبے سے عاری ہو جاتا ہے کجا یہ کہ وہ لوگوں کی حرکتوں کو نوٹ کرتا پھرے کہ بعد ازاں لڑائی کے دوران طعنے دینے کے کام آئے گا۔ یقینا اس کام میں آپ کے وہ ’’ مخلص‘‘ سرگرم ہوتے ہیں جو آپ کو اپنے باقی خاندان کے ساتھ خوش دیکھ کر حسد میں مبتلا ہوتے ہیں اور حسد کی آگ ایسی آگ ہے کہ وہ نہ صرف اسے جلاتی ہے جس کے خلاف حسد کیا جائے بلکہ خود حاسد کو بھی جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

ہم بد گمان ہوتے ہیں تو زید سے بکر کی، بکر سے عمر کی اور عمر سے زید کی بابت بات کرتے ہیں۔ ہماری کی گئی بات کو جب زید، بکر یا عمر آپس میں مل بیٹھ کر یا علیحدہ علیحدہ دہراتے ہیں تو اس میں کسی ایک لفظ کا اضافہ بھی اس کے معانی و مطالب تبدیل کر دیتا ہے، کچھ کہنے والے زیب داستان کے لیے بھی بڑھا لیتے ہیں۔ ایک اچھے مسلمان ہونے کا تقاضہ یہ ہے کہ جب تمہیں علم ہو کہ دو لوگوں کے مابین کسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے تو انھیں آمنے سامنے بٹھا کر وہ غلط فہمی دور کروا دو۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو اس بات سے بچو کہ ایک فریق کی کی گئی کوئی بھی منفی بات دوسرے فریق کے سامنے دہراؤ۔

اگر ایک شخص دوسرے سے بدگمان ہو کر کچھ کہے تو اسے کہو کہ ممکن ہے اس کا وہ مطلب نہ ہو جو آپ سمجھ رہے ہیں، میں اس کے بارے میں چیک کر کے آپ کو بتا دیتا ہوں یا یہ کہ چلو اس کے روبرو بات کر کے غلط فہمی کو دور کر لیتے ہیں۔ اگر دو ناراض فریق، غصے کی حالت میں ، آ پ کے ساتھ کچھ شئیر کریں کہ دوسرے کے خلاف کوئی بات کریں تو آپ کا کردار اس میں اہم ہو جاتا ہے کہ آپ اس بات کو کس طور توڑ موڑ کر اس کے سامنے پیش کریں، خاموش رہیں اور اسے کچھ بھی نہ بتائیں ، وہ استفسار کرے تو اسے کوئی منفی بات نہ بتائیں، اگر بتانے کو کچھ بھی مثبت نہ ہو تو یہ کہہ دیں کہ اس نے کچھ نہیں کہا یا یہ کہ آپ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ میںنے ابھی کہا تھا کہ بدگمانی کا کیڑا ہمارے وجود کے اندر نہیں ہوتا، سو ہمارے ارد گرد کے لوگ ہیں جو اس بیج کے کیرئیر ہیں اور بدگمانی کے جراثیم کا ٹیکہ ہمارے اندر لگاتے ہیں ۔

کچھ نہ کہنے کی ایک مصلحت… جھگڑے کو بڑھنے سے روکنے کے لیے آپ کا ایک مصلحت بھرا جھوٹ… سن کر ان سنی کردینا اور کسی ’’ متاثر‘‘ تک اس کا نہ پہنچانا ، یہ چھوٹے سے اعمال ہیں جو بڑے بڑے جھگڑوں اور عمروں کی ناراضیوں کو روک سکتے ہیں ، جس کے نتیجے میں سگے اور خون کے رشتے بھی آپس میں جینا مرنا ختم کر دیتے ہیں۔ نہ کسی کا غم بانٹنے سے اس کا غم کم ہوتا ہے اور نہ خوشی میں شامل ہونے سے خوشی میں اضافہ ہوتا ہے، یہ سب ہمارے اندر کی کیفیات ہیں، ہم اپنے ارد گرد اپنے پیاروں کو دیکھتے ہیں تو اور بھی خوش ہو جاتے ہیں اور غم میں یہ جان کر ڈھارس ہوتی ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ غم میں شامل ہے۔

کوئی ہماری خوشی میں منہ بسور کر شامل ہو، ترلے منتیں کروا کر آئے یا غم میں وہ غمگین نظر نہ آئے تو یہی غم اور بڑھ جاتا ہے اور خوشی ماند پڑ جاتی ہے کیونکہ ہم منفی سوچوں کواپنے اندر پنپنے کا موقع دیتے ہیں۔ کبھی یہ سوچا کہ ممکن ہے ہماری خوشی میں غمگین نظر آنے والا کسی ایسے غم یا تکلیف میں مبتلا ہو کہ جس کا ہمیں علم نہ ہو اور وہ غمگین نظر آ رہا ہو… غم میں غمگین نظر نہ آنے والابھی کس کیفیت میں ہے، ہمیں کیا معلوم ۔

اپنی زندگی کو سہل بنانا ہے تو بدگمانیوں سے بچیں ، بدگمانی کا جال مکڑی کے جال کی طرح ہے جو اپنی گرفت میں آنے والی کسی چیز کو بچ کر نکلنے نہیں دیتا، اسی کے تار و بنت میں الجھتا ہوا، وہ اسی میں دم توڑ دیتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔