اسلام، جمہوریت اور ہم

شہاب احمد خان  جمعرات 27 جون 2019
جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں، جہاں محدود جمہوریت کا تجربہ کئی مرتبہ کیا جاچکا ہے۔ لیکن ہر بار یہ تجربہ ناکام ہوا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ تجربہ کرنے والوں کی نیت کی خرابی اور اس سے بڑھ کر ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی اور کرپشن ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کا فیصلہ کرلینا چاہیے کہ ہم واقعی اسلام کو بطور نظام حیات اپنانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ اگر ہم اسلام کو نظام حیات کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ ہرگز جمہوریت سے ہوکر نہیں گزرتا۔ جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

اسلام نے ایک ضابطہ حیات صدیوں پہلے اپنے ماننے والوں کےلیے تشکیل دے دیا ہے۔ جس میں کسی قسم کی کوئی ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ جو چیز صدیوں پہلے حلال تھی وہ آج بھی حلال ہے، جو چیز صدیوں پہلے حرام تھی وہ آج بھی حرام ہے۔

ہم آج تک اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ جمہوریت بذات خود ایک مذہب ہے۔ اس میں مزید کسی اور مذہب کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی ہے۔ جمہوریت کے مذہب کا ایک ہی اصول ہے۔ پہلے ہر برائی کی مزاحمت کی جائے۔ لیکن اگر وہ برائی اتنی پھیل جائے کہ عوام اور خواص کی اکثریت اس میں مبتلا ہوجائے تو اسے فخر سے اپنے کلچر اور انسانی آزادی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمارے ملک میں جمہوریت آتی ہے تو ہمارا میڈیا مادر پدر آزاد ہوجاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب اگر ٹی وی میزبان کے سر سے دوپٹہ کھسک جائے تو ہماری مذہبی جماعتیں آسمان سر پر اٹھا لیا کرتی تھیں۔ آج یہ حال ہے کہ سر اور سینے سب ننگے ہوچکے ہیں، لیکن مذہبی جماعتوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ہے۔ مخلوط رقص ہر مارننگ شو کا حصہ ہیں۔ آپ کسی بھی جمہوری ملک کو دیکھ لیں، جہاں جمہوریت صدیوں سے نافذ ہے، وہاں مذہب ایک ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا کوئی عمل دخل مملکت کے امور میں نہیں ہوتا۔

ہماری سب سے بڑی بیوقوفی یہی ہے کہ ہم جمہوریت کے مزے بھی لوٹنا چاہتے ہیں اور الله کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے ہمیں نہ خدا ملتا ہے نہ وصال صنم سے مستفید ہوپاتے ہیں۔

اگر ہم واقعی جمہوریت کے اتنے دلدادہ ہیں تو ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ ہم دو کشتیوں میں بیک وقت سوار نہیں ہوسکتے۔ جمہوریت بدترین شرک ہے، اس کا کوئی تعلق اسلام کے فلسفے سے نہیں۔

اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ اقتدار اعلیٰ صرف الله کا ہے۔ ہماری پوری زندگی الله کے احکام کے تابع ہے۔ ہم کوئی ایسا کام نہیں کرسکتے جو الله نے منع کیا ہو، جبکہ جمہوریت کے مذہب میں اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اگر عوام چاہتے ہیں کہ مرد مرد کی شادی جائز قرار دے دی جائے تو وہ جائز ہوجاتی ہے، اگر مرد اور عورت بغیر شادی کے ساتھ رہنا چاہیں تو یہ حق انہیں شخصی آزادی کا اصول دیتا ہے۔

آج ہمارے ملک میں رہنے والے اکثر لوگ دہری زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ ایک طرف ہم انتہائی مذہبی، نماز روزے کے پابند ہیں، تو دوسری طرف جمہوریت کے حق میں زوروشور سے حلق پھاڑنے والے بھی ہیں۔ ایسا اس وجہ سے بھی ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت نہ اسلام کے فلسفے سے پوری طرح آشنا ہے، نہ ہی انہیں جمہوریت کی اتنی سمجھ ہے۔

انہیں یہ بات معلوم ہی نہیں کہ جمہوریت نہ صرف ہمارے معاشرے کی اقدار کو بدل دے گی بلکہ مغربی مادر پدر آزادی کا دروازہ بھی کھول دے گی۔

انسانی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی میں کامیابی جمہوریت سے نہیں، بلکہ انصاف، محنت، میرٹ اور تعلیم سے ہی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے بھی ترقی کی ہے جہاں مغربی جمہوریت آج بھی نہیں پائی جاتی۔

آج ہر شخص یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ مذہبی جماعتیں کبھی بھی اس ملک میں حکومت میں نہیں آسکتیں، کیونکہ پاکستانی بحیثیت قوم بنیاد پرست نہیں ہیں، جبکہ ان مذہبی جماعتوں نے جس طرح اسلام کا تصور دنیا بھر میں برباد کیا ہے، وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آج اسلام دنیا بھرمیں دہشت گردوں کا مذہب سمجھا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا ہماری جمہوریت پر بھی اعتبار کیوں نہیں کرتی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی محدود جمہوریت کے تجربات ہیں۔ پاکستان سے باہر ہر قوم یہی سمجھتی ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی عوام کے حقیقی نمائندے اقتدار میں نہیں آئے۔

یہاں کچھ ایسی مقتدر قوتیں موجود ہیں جو کسی کو بھی اقتدار میں لاسکتی ہیں۔ اگر ان کا مفاد مذہبی جماعتوں کو اقتدار میں لاکر پورا ہوتا ہو تو وہ ان جماعتوں کو بھی اقتدار میں لاسکتی ہیں۔ دنیا اس تصور سے ہی کانپ جاتی ہے جب ایک نیم خواندہ، متعصب اور جنونی ملا پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہاتھوں میں لے کر کھڑا ہوگا۔ اسی لیے اکثر دنیا ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کی سب سے بڑی مخالف ہے۔

گزشتہ انتخابات میں جس طرح اس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی نمائندہ جماعت کا صفایا کیا گیا ہے، وہ بھی ایک مذاق سے کم نہیں۔ کیا اس صفائی کے نتیجے میں کراچی میں بسنے والے عوام کے دکھ درد میں کمی آگئی؟ کیا ان کے دیرینہ مطالبات اور ان کے مسائل کے حل کی کوئی صورت نظر آئی ہے؟ ہمارے موجودہ وزیراعظم کراچی سے کامیاب ہوکر یہاں کی نشست سے دستبردار ہوگئے۔ یعنی انہیں بھی کراچی کے مسائل سے دلچسپی نہیں۔ اب جو ان کی جگہ کامیاب ہوا ہے وہ کراچی میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ویسے انتخابات میں کامیاب ہونے سے پہلے وہ گٹر کے ڈھکن لگاتا پھرتا تھا، اب کامیاب ہوکر آرام کررہا ہے۔

آج بھی کراچی کا پانی کراچی کے عوام کو ہی بیچ کر اربوں روپے مختلف ادارے اور ان کے کارندے کما رہے ہیں۔ آج بھی کراچی کی سڑکیں انتہائی خستہ حالت میں ہیں، جبکہ اس شہر سے سو گنا کم ریونیو دینے والے شہر آج کہیں بہتر حالت میں ہیں۔ آج بھی تجاوزات اس شہر کی پہچان ہیں، آج بھی اس شہر کے نوجوان سرکاری نوکریوں سے دور ہیں۔

کیا عوام سے لیا جانے والا ووٹ صرف اسمبلی میں پہنچنے کی ایک سیڑھی سے زیادہ کچھ نہیں؟ کراچی کے عوام نے اگر واقعی عمران خان کو ووٹ دیا تھا تو کیا صرف اس لیے کہ وہ یہاں کی سیٹ چھوڑ کر عوام کے بھروسے کی توہین کرے۔

اس حکومت کو لانے میں مقتدر قوتوں کی کارستانی جس طرح کارفرما رہی ہے وہ آج ایک حقیقت کے روپ میں سب پر عیاں ہوچکی ہے۔ اس حکومت کو لانے کا مقصد اگر عوام کی بہتری اور بھلائی تھا، تو وہ مقصد ہرگز پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اس حکومت کی نااہلی اور حماقتوں نے پاکستانی عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ جس طرح معیشت کا بیڑا غرق کیا گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ ہر طرف ابتری اور خرابی نظر آرہی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس بھی یہ بات فرما چکے ہیں کہ سوائے عدلیہ کے ہر طرف خرابی بڑھ گئی ہے۔ گو کہ میں اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتا کہ عدلیہ میں کوئی بہتری آئی ہے۔ عدلیہ کا حال بھی اس سے زیادہ برا ہے جتنا پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔ آج بھی کسی قانونی مسئلے میں پھنسے ہوئے شخص کےلیے یہی صائب مشوره ہے کہ وکیل کرنے کے بجائے جج کرنے سے فیصلہ آپ کے حق میں ہوسکتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ جہاں جہاں جمہوریت صدیوں سے رائج ہے وہاں صرف دو پارٹی نظام ہی ہے۔ امریکا سے لے کر برطانیہ تک صرف دو پارٹی نظام رائج ہے۔ وہاں کسی سیاسی پارٹی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

ہمارے یہاں ہی کیوں حد سے زیادہ مذہبی پارٹیاں سیاست میں سرگرم ہیں؟ ہمارے یہاں ایسی پارٹیاں بھی موجود ہیں جو اکثر ایک آدھ سیٹ سے زیادہ نہیں لے پاتیں، لیکن ان کو سیاست میں ہمیشہ ایک خاص مقام دیا جاتا ہے۔ یہاں نام لینا ضروری نہیں پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں۔ ان پارٹیوں کے پاس کبھی فنڈز کی کمی بھی نہیں ہوتی، انھیں صدقات، عطیات اور زکوٰۃ سب کچھ جمع کرنے کی پوری آزادی حاصل رہی ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام ان پارٹیوں پر اپنے ووٹ کےلیے بھروسہ نہیں کرتے، لیکن اپنے پیسے کےلیے ان پر کیسے بھروسہ کرلیتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان پارٹیوں کو فنڈز بھی وہی مقتدر قوتیں فراہم کرتی ہوں جن کے یہ آلہ کار کے طور پر پاکستانی سیاست میں ان کی مرضی کی حکومت بنوانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ انتخابات کے زمانے میں ان پارٹیوں کے بینرز جس طرح کراچی جیسے بڑے شہر میں ہر طرف لگا دئیے جاتے ہیں، وہی ان کی مالی حیثیت کا پول کھول دیتے ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت جس طرح ان مذہبی جماعتوں نے اس ملک کے قیام کی مخالفت کی تھی وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس وقت بھی یہ ہندو اور انگریز کے آلہ کار بنے ہوئے تھے، آج بھی ان کے سربراہ سرعام یہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ کیا وجہ ہے کہ ان کی ان تمام لن ترانیوں کے باوجود انہیں پاکستان کی سیاست میں شامل رہنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ نہ ان پر غداری کا مقدمہ بنتا ہے، نہ ہی ان سے کوئی باز پرس کی جاتی ہے۔ اگر واقعی یہ مذہبی جماعتیں اسلام کو نافذ کرنے میں مخلص ہیں تو آج تک پاکستان میں اسلام ایک ذاتی معامله کیوں ہے؟ ایسا نہیں کہ یہ کبھی اقتدار میں نہیں رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹولہ ہر حکومت کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹتا رہا ہے۔ آج اس حکومت کے آنے کے بعد ایک مُلا تقریباً تیس سال کے بعد منسٹر کالونی سے نکلا ہے۔

کئی مذہبی پارٹیاں ایسی ہیں جو کوئی سیٹ حاصل نہیں کرپاتیں، پھر بھی انھیں سینیٹ میں جگہ دلوا دی جاتی ہے۔ کئی مذہبی جماعتیں ایسی ہیں جو اس ملک کے دور دراز علاقوں سے کامیاب ہوکر آتی ہیں، جہاں ایک حلقے میں ووٹرز کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان چند ہزار میں سے بھی آدھے ووٹ لے کر کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس کامیابی میں ان کی ان تقاریر کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے جس میں وہ عوام کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ اگر انہیں ووٹ نہ دئیے گئے تو اسلام کو ووٹ نہ دئیے گئے اور اگر اسلام کو ووٹ نہ دیا تو تمہاری بیوی تم پر حرام ہوجائے گی، تمھارے بچے حرامی کہلائیں گے۔

دوسری طرف پاکستان کی تیسری بڑی پارٹی کو جس طرح تحلیل کردیا گیا ہے، وہ بھی کسی سانحہ کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔ کیا یہ مقتدر قوتیں ایسا سمجھتی ہیں کہ اگر کراچی، حیدرآباد اور اس پارٹی کے اکثریتی علاقوں کے بسنے والے عوام کو ان کے حقوق نہ دیے گئے تو وہ یہاں سے نقل مکانی کرکے کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے اور یہ شہر ان کےلیے خالی ہوجائیں گے؟ ان علاقوں میں بسنے والے عوام بھی اس ملک کے مسائل سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں، کیوں کہ یہ ملک ان کے مسائل سے لاتعلق ہوگیا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ لاتعلقی علیحدگی کی طرف لے کر جائے گی۔

ایسا نہیں کہ دنیا ہم سے لاتعلق ہوگئی ہے یا انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اب پاکستان میں جمہوریت آگئی ہے، لہٰذا سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے، اب پاکستان کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ایسا نہیں! پاکستان ابھی بھی بڑی طاقتوں کے ایجنڈے میں ٹاپ پر ہے۔ مغربی ممالک ہوں یا امریکا، سب ہماری مقننہ کی کارکردگی کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ارد گرد جس طرح جنگ کا ماحول بنایا جارہا ہے، جس طرح ہر طرف جنگ کی آگ بھڑکائی جارہی ہے، کسی بھی وقت ہماری آپس کی لڑائی اس جنگ کو ہمارے ملک کے اندر لے آئے گی۔ ایسے ماحول میں یہ مصنوعی حکومتیں عوام کو متحد رکھنے میں ناکام ہوجائیں گی۔

آج کہا جاتا ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں سے اس ملک میں امن واپس آیا ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ انہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ڈھیل سے ہی یہاں دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے۔ کراچی کی شناخت رکھنے والی پارٹی کو جب تک استمعال کرنا تھا اس وقت تک اس کے قاتلوں اور دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔

اگر اسی وقت قانون حرکت میں آتا جس وقت جرائم ہورہے تھے، تو نہ کوئی صولت مرزا پیدا ہوتا نہ کوئی جاوید لنگڑا بنتا۔ سیاسی مفاد کےلیے ان تمام جرائم سے آنکھیں بند کرلینے سے ہی حالات یہاں تک پہنچے تھے۔ طالبان کی پیدائش بھی اسی سرزمین پر ہی ہوئی تھی۔

اس وقت تو ہر سیاسی رہنما وار لارڈ بنا ہوا تھا، ہر ایک نے اپنی آرمی بنائی ہوئی تھی۔ کہیں عزیر بلوچ پالے جارہے تھے تو کہیں چھوٹو گینگ کی سرپرستی کی جارہی تھی۔ کہیں پوری پارٹی ہی آرمی تھی۔ مذہبی جماعتیں ان سب میں سب سے آگے تھیں۔ وہ تو بین الاقوامی وار لارڈ بن گئے تھے۔

کافی دیر کے بعد ہمارے مقتدر اداروں کو یہ بات سمجھ آئی کہ قانون کا نفاذ پوری قوت سے کرنے میں ہی اس مملکت کی سلامتی چھپی ہے۔ اگر یہ بات وہ پہلے ہی سمجھ لیتے تو اس ملک کا اتنا نقصان نہ ہوتا۔

آج بھی اس ملک کی سلامتی اور ترقی صرف اور صرف قانون اور انصاف کی بلاتعطل اور فوری فراہمی میں ہی مضمر ہے۔ محرومیوں کا ازالہ اور حقوق کی فراہمی اس ملک کی مضبوطی کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے ایٹمی ہتھیار ہماری سلامتی کی ضمانت ہیں، تو وہ تاریخ سے نہ صرف نابلد ہے بلکہ اس نے سوویت یونین کی تباہی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی روس کے پاس سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں اور یہ ہتھیار امریکا سے زیادہ تباہ کن بھی ہیں۔

دوسرا خوفناک کھیل جو سوشل میڈیا پر کھیلا جارہا ہے وہ پاکستانی عوام کو یہ باور کرا رہا ہے کہ غزوہ ہند قریب ہے۔ پاکستان کی فتح یقینی ہے۔ انڈیا کا وجود اب چند دنوں کا مہمان ہے۔ یہ وہی تکنیک ہے جو ہمارے دشمن ہر کھیل کے بڑے ایونٹ سے پہلے ہماری ٹیم کے متعلق بیانات دے کر کھیلتے ہیں۔ کرکٹ ورلڈ کپ سے پہلے پاکستانی ٹیم کو جس طرح آسمان پر پہنچا دیا جاتا ہے، ہمارے کھلاڑی جس طرح خوابوں میں خود کو ورلڈ کپ اپنے ہاتھوں میں لے کر تصویریں کھنچواتے ہوئے دیکھنے لگتے ہیں، ان کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیمیں بھی انھیں ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیتی ہیں اور وہ پاکستان کو اچھی طرح ذلیل کروا کر منہ لٹکا کر واپس آجاتے ہیں۔

کہیں خدانخواستہ جنگ کی صورت میں یہی نتیجہ نہ نکلے۔ انڈیا پاکستان کے مقابلے میں ایک بہت بڑی طاقت بن چکا ہے، اس کے وسائل غیر معمولی ہیں، اس کی سفارت کاری ہمارے مقابلے میں کہیں زیادہ کامیاب ہے۔ جنگ کی صورت میں نتیجہ ہمارے حق میں نکلنے کا ایک فیصد بھی چانس نظر نہیں آتا۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری جنگ چین لڑے گا تو ہم سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہوگا۔ سوشل میڈیا پر کھیلے جانے والے اس کھیل کو فوری طور پر بند کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

اگر ہم اس ملک کو سلامت رکھنا چاہتے ہیں اور اسے دنیا میں ایک باوقار ملک بنانا چاہتے ہیں تو اس ملک میں بسنے والوں کو یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ ہر ایک کو انصاف تک رسائی دینا ہوگی۔ ہر علاقے میں بسنے والوں کو ان کے حقوق دینا ہوں گے۔ تب ہی ہم ایک بہتر پاکستان کی تصویر مستقبل میں دیکھ سکتے ہیں، ورنہ دنیا تو ہمیں مٹانے کے درپے ہے۔ بین الاقوامی حالات کی ایک کروٹ ہمیں سلامتی کی سنگین صورت حال سے دوچار کرسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔