- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
برطانیہ میں میڈیکل کی 7 طالبات کو 150 سال بعد ڈگری تفویض
لندن: برطانوی یونیورسٹی ایڈنبرا میں 150 سال بعد میڈیکل کی 7 آنجہانی طالبات کو اسناد دینے کی تقریب منعقد کی گئی۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ایڈنبرا یونیورسٹی میں 1869ء میں روایت شکنی کرتے ہوئے 7 خواتین نے پہلی بار یونیورسٹی میں داخلہ لے کر قدامت پسند برطانیہ کی متنازع ثقافت اور روایات کے خلاف بغاوت کی تھی جنہیں بالآخر 150 سال بعد اسناد جاری کردی گئیں۔
’ایڈنبرا سیون‘ کے نام سے شہرت پانے والی ساتوں طالبات اپنی ڈگریاں لینے کے لیے اب دنیا میں موجود نہیں اس لیے یونیورسٹی انتظامیہ نے موجودہ طالبات میں سے سات خوش نصیبوں کو نمائندگی کے لیے چنا اور اعزازی میڈل اور اسناد پیش کیں۔
ایڈنبرا سیون نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا تو برطانیہ کے مردوں کی حاکمیت والے معاشرے میں ہلچل مچ گئی، قدامت پسندوں نے طالبات کی راہ میں روڑے اٹکائے یہاں تک کہ مرد طلبا نے طالبات کے خلاف باقاعدہ محاذ کھڑا کردیا تھا۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند برطانیہ کی ان اولین خواتین نے صنفی امتیاز کے خلاف مہم چلائی تھی جسے چارلس ڈارون جیسی ہستیوں کا مکمل تعاون حاصل تھا جس کے نتیجے میں 1877ء میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت دینے کے لیے قانون سازی کی گئی۔
قانون سازی کے باوجود ایڈنبرا سیون کی مشکلات کم نہ ہوسکیں اور آخری سال امتحانی ہال میں مرد طالب علموں نے ان طالبات پر گندگی پھینک دی اور آئندہ دو دہائی تک ایڈنبرا یونیورسٹی میں کسی خواتین کا داخلہ ممنوع رہا بعد ازاں داخلے تو مل گئے لیکن کوئی بھی مرد ٹیچر طالبات کو پڑھانے کے لیے راضی نہ ہوا۔
دھیرے دھیرے ان خواتین کی جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی اور خواتین کی تعلیم میں حائل سماجی رکاوٹیں ختم ہوگئیں اور معاشرے میں تعلیم یافتہ خواتین کو خاص اہمیت دی جانے لگی تاہم ایڈنبرا کی یہ 7 طالبات اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکی تھیں۔
قدامت پسند برطانوی معاشرے میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت دلانے والی ان ساتوں خواتین مری اینڈرسن، ایملی بوویل، میٹلڈا چپلن، ہیلن ایوانز، صوفیا جیکس بلیک، ایڈٹھ پیچی اور ایزابیل تھورن کو یونیورسٹی کے مک ایون ہال میں ہونے والی خصوصی تقریب میں میڈیسن کی اعزازی بیچلر ڈگری سے نوازا گیا۔
ان سات خواتین کی ڈگریوں کو ایڈنبرا کی موجودہ سب سے قابل اور لائق طالبات نے وصول کیا، یونیورسٹی میں ایڈنبرا سیون کے حوالے سے یادگار بھی قائم کی گئی ہیں جس میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے خواتین کو درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کو اجاگر کیا گیا تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔