سکھر بیراج میں لاشیں۔ درد انگیز منظر نامہ

ایڈیٹوریل  منگل 23 جولائی 2019
مسلسل لاشوں کی برآمدگی کے باعث نا صرف ضلع بلکہ صوبائی حکومت بھی خدشات کاشکار ہوگئی ہے۔ فوٹو: فائل

مسلسل لاشوں کی برآمدگی کے باعث نا صرف ضلع بلکہ صوبائی حکومت بھی خدشات کاشکار ہوگئی ہے۔ فوٹو: فائل

سکھر بیراج سے خاتون سمیت مزید تین افراد کی لاشیں برآمد ہونے کے بعد ایک ہفتے کے دوران برآمد شدہ لاشوں کی مجموعی تعداد13ہوگئی ہے ، جب کہ چھ نوجوانوں کی گمشدگی بھی معمہ بنی ہوئی ہے۔ یہ صورت حال انتہائی سنگین اور تشویش ناک ہے، جس سے علاقے میں خوف وہراس کی فضا پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی کارکردگی پرکئی سوال اٹھ گئے ہیں۔تعلقہ اسپتال کے میڈیکل آفیسرکے مطابق لاشیں ایک ماہ کے عرصے سے زائد پرانی لگتی ہیں ، جن کے جسم کے بیشتر حصہ ناقابل شناخت ہوچکے تھے۔

مسلسل لاشوں کی برآمدگی کے باعث نا صرف ضلع بلکہ صوبائی حکومت بھی خدشات کاشکار ہوگئی ہے کہ یہ لاشیں کن علاقوں سے پانی میں بہہ کر سکھر بیراج کے اطراف پہنچ رہی ہیں جب کہ اسی سلسلے میں یہ بھی خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے کہ تقریبا18روزقبل ہری پور تربیلا ڈیم کشتی حادثہ میں ڈوبنے والے 50 افراد میں سے ناملنے والوں کی لاشیں تو نہیں ہیں۔

ادھر صوبہ بلوچستان میں طوفانی بارش کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں، صحبت پورکے قریب 2 بچے نہر میں ڈوب کر جاں بحق تیسرے کو بے ہوشی کی حالت میں نکال کر بچا لیا گیا۔ دریائے سندھ میں سطح آب بلند ہونے عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے، ایسے علاقے جوکہ دریا و نہروں کے قریب واقع ہیں، خوف کے مارے والدین نے اپنے بچوں کوگھروں تک محدود کردیا ہے۔ان افسوسناک واقعات کی روک تھام کی ذمے داری  پولیس، ضلع و بلدیہ اور محکمہ آبپاشی پرعائد ہوتی ہے۔

دوسری جانب کراچی میں گزشتہ روز دو بڑے سیاسی جلسے منعقد ہوئے، ان جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی، جو اس بات کی غماز تھی کہ وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ باغ جناح کراچی  میں  ہونے والے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاک سرزمین پارٹی سید مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہوجائیں تو پھرکسی ترمیم کا کوئی فائدہ نہیں،اگر صوبائی حکومتیں وفاق سے ملنے والے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرتیں تو آج وہ 18ویں ترمیم کو بچانے کے لیے تنہا نہیں ہوتیں۔ عوام کے مسائل نہ وفاقی حکومت سن رہی ہے نہ صوبائی اور نہ شہری حکومت تو وہ ایسے میں کہا جائے؟ 92 ارب ڈالر کا نقصان کرکے حکومت آئی ایم ایف سے صرف 6 ارب ڈالر مانگ کر لائی ہے۔

مصطفیٰ کمال مشرف دور میں کراچی کے کامیاب ترین میئر رہے ہیں وہ شہرکے مسائل کو بہترطور پر نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ ان کو حل کرنے کے خواہاں ہیں،ان کی باتوں میں وزن بھی ہے اور وژن بھی۔ لہذا ان کے صائب خیالات اورجائزشکایات کا ازالہ کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔

کراچی کے مسائل کا اگر غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی نہ ہونے کے باعث شہرکے مسائل بڑھے ہیں،کیونکہ کچرا اٹھانے کا اختیار بھی صوبائی حکومت کے پاس ہے، حالانکہ یہ کام بلدیہ اور شہری حکومت کا ہوتا ہے۔شہر کو ہم مسائلستان کہیں تو بے بجا نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ شہر بنیادی طور پر عدم توجہی کا شکار ہے،کراچی سے پہلی بار قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں جیتنے والی پاکستان تحریک انصاف اور چھ نشستیں جیتنے والی متحدہ قومی موومنٹ وفاقی سطح پر اتحادی ہیں، لیکن شہرکراچی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ صوبائی اور شہری حکومتوں کے درمیان بھی تناؤکی فضا ہے۔

کراچی غریب پرور شہر ہے اور اس میں پاکستان کی ہرقوم ، رنگ ، نسل اور زبان کے لوگ آباد ہیں۔کراچی محنت کشوں اور مزدوروں کا شہر ہے اور اس میں سب سے زیادہ آباد تعداد پختونوں کی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے لانڈھی میں یہ مہنگائی کے خلاف احتجاجی جلسہ عام منعقد کیا۔اس موقعے پر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ حکومت مخالف ہر آواز دبانے کی کوشش بزدلانہ عمل ہے۔

شاہی سید نے کہا کہ ناقابل برداشت مہنگائی سے خونیں انقلاب کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ عوام ٹیکس نہیں دیتے، یہ غلط بات ہے،عوام ضروری اشیا پر ٹیکس دیتے ہیں، سرمایہ دار، صنعتکار ٹیکس نہیں دیتے، لگتا ہے نئے پاکستان میں مرنے پر بھی ٹیکس لگے گا۔ حرف آخر عوام کے جان ومال اور مسائل کے حل کی ذمے داری وفاقی، صوبائی، شہری حکومتوں کی ہے انھیں عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔