مر کے بھی چین نہ پایا۔۔۔شہر خموشاں کے بولتے مسائل

عبداللطیف ابو شامل  جمعرات 19 ستمبر 2013
قبرستانوں میں پیدا ہونے والے سنگین مسائل جن سے شہریوں کو اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے بھی مشکلات کا سامناہے۔ فوٹو : فائل

قبرستانوں میں پیدا ہونے والے سنگین مسائل جن سے شہریوں کو اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے بھی مشکلات کا سامناہے۔ فوٹو : فائل

 کراچی شہر نگاراں سے شہر دل فگاراں بن چکا ہے۔ بلدیاتی سہولتوں کا کیا رونا کہ وہ تو زندوں کے لیے ہوتی ہیں ، جو سرے سے ناپید ہیں۔

لیکن یہاں مُردوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق شہر کے بیش تر قبرستانوں میں مُردوں کو دفنانے کی جگہ ہی نہیں بچی اور انتظامیہ نے بعض قبرستانوں میں مزید مردے دفنانے پر پابندی بھی لگا دی ہے، لیکن گورکنوں کے لیے جگہ نکالنا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ اس پابندی کے باوجود اپنے کسی پیارے کی تدفین کے لیے رابطہ کرنے والوں کو مایوس نہیں لوٹنے دیتے۔ شہر کے بیش تر قبرستان گورکن اور ٹھیکے دار مافیا کے قبضے میں ہیں، جہاں قبر کی جگہ منہ مانگی قیمتوں پر بیچی جارہی ہے۔

جس طرح مختلف مارکیٹوں میں اشیا ء کے دام مختلف ہیں اسی طرح شہر کے مختلف قبرستانوں میں بھی قبروں کی قیمتیں مختلف ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہر کے قبرستانوں میں گورکن نئی قبر کے لیے من مانی فیس وصول کررہے ہیں۔ مختلف قبرستانوں میں 10 ہزار سے 20 ہزار روپے تک وصول کیے جارہے ہیں۔

جب کہ بلدیہ عظمی کراچی سے رجسٹرڈ قبرستانوں میں قبر کے لیے ڈھائی ہزار روپے فیس مقرر ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی کی جانب سے گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے بعض قبرستانوں میں تدفین پر پابندی بھی ہے، لیکن اس مال و زر کے پجاریوں نے اس پابندی کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ گورکن اور قبرستان کی انتظامیہ کی ملی بھگت سے شہریوں کو اپنے پیاروں کے لیے قبر کی جگہ دینے کے عوض منہ مانگی رقم وصول کی جارہی ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق بعض قبرستانوں میں ٹھیکے داری نظام قائم کر دیا گیا ہے، جس نے آخری آرام گاہ کا حصول بھی مشکل کردیا ہے۔

کراچی شہر میں بلدیہ عظمیٰ سے رجسٹرڈ قبرستانوں کی تعداد 200 کے قریب ہے، جن میں سے 28 قبرستانوں میں مزید تدفین کی گنجایش نہیں رہی اور انہیں بند کردیا گیا ہے۔ ان میں سخی حسن، پاپوش نگر، میوہ شاہ، شاہ فیصل کالونی، مہاجر کیمپ، سوسائٹی، طارق روڈ، یاسین آباد، النور فیڈرل بی ایریا، الیاس گوٹھ، لیاقت آباد، جہانگیرآباد،گولی مار، ماڈل کالونی ایک نمبر، جعفرطیار سوسائٹی، الفتح اور اورنگی کے قبرستان شامل ہیں۔

اس کے باوجود مختلف قبرستانوں میں 10 سے20 ہزار روپے فیس کے نام پر لے کر تدفین کے لیے جگہ فراہم کی جارہی ہے۔ ان میں سخی حسن، پاپوش نگر، شاہ فیصل کالونی اور ماڈل کالونی کے قبرستان شامل ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پرانی قبروں کو توڑ کر نئی قبریں بنائی جارہی ہیں اور انتظامیہ نے اس طرف سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ طارق روڈ کے قبرستان میں تدفین کے لیے سب سے زیادہ رشوت لی جاتی ہے، جسے فیس کا نام دیا گیا ہے۔ اس قبرستان میں فی قبر 50 ہزار روپے طلب کیے جاتے ہیں اور پیسے لینے کے بعد گورکن نہایت آسانی سے قبر تیار کر دیتے ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے عاید پابندی اور گنجایش نہ ہونے کا مسئلہ رقم ملتے ہی حل ہو جاتا ہے۔

شہر کے بعض قبرستان ٹھیکے پر دے دیے گئے ہیں، جس نے عام آدمی کو مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔ مقامی انتظامیہ کی غفلت اور کوتاہی کے نتیجے میں قبرستانوں میں غیرقانونی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔ کراچی کے شہری اپنے عزیزوں کو سپردِ خاک کرنے کے معاملے میں بھی نہایت بے بس اور مجبور نظر آرہے ہیں۔ انہیں قبرستانوں میں مردوں کی تدفین کے لیے ایک بڑی رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے، جب کہ انہی قبرستانوں میں دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ قبریں بے ترتیب اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

یہی نہیں بلکہ گورکن اور ٹھیکے دار پرانی قبروں کو مسمار کر کے نئے مُردوں کے لیے جگہ بنا دیتے ہیں، جو حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ تاہم اس کا حل نکالنے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ مسئلہ وقت کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ سانس کی ڈور کو برقرار رکھنا کا ر مشکل تھا ہی اب تو مرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ دوسری جانب قبرستانوں میں صفائی اور روشنی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ رات کے وقت کسی میت کو دفنانے کے لیے آنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنازے کے شرکاء قبروں کی بے ترتیبی کی وجہ سے مشکل میں پڑ جاتے ہیں جب کہ تدفین کے موقع پر انہیں ایمرجنسی لائٹ کا خود ہی انتظام کرنا پڑتا ہے۔ قبرستان میں نشہ کرنے والوں کی موجودگی نیا مسئلہ نہیں ہے۔

یہ لوگ نہ صرف رات کے وقت بلکہ دن میں بھی ناپسندیدہ سرگرمیاں کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ قبرستانوں میں ایسے افراد گندگی اور غلاظت پھیلاتے ہیں اور قبروں کی بے حرمتی کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں قبرستان کی انتظامیہ کوئی کارروائی کرتی نظر نہیں آتی۔ بعض قبرستانوں میں بارش کے پانی کی نکاسی کا معقول انتظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

موسلادھار بارشوں کی صورت میں جہاں شہر کے مختلف علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں، وہیں شہر خموشاں بھی متاثر ہوتا ہے۔ کئی روز تک کھڑا رہنے والے پانی کی وجہ سے قبریں دھنس جاتی ہیں، لیکن وہاں کا عملہ اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔ یہ افسوس ناک صورت حال چھوٹے قبرستانوں کی ہی نہیں بلکہ شہر کے بڑے اور پرانے قبرستان بھی اسی مسئلے سے دوچار ہیں۔ شہر کی مرکزی شاہراہ پر واقع مسیحیوں کے لیے مخصوص گورا قبرستان بھی ابتر حالت میں ہے جہاں بارش کے بعد کئی ہفتوں تک پانی کھڑا رہتا ہے ۔

کراچی کے شہریوں کا مقامی انتظامیہ سے کہنا ہے کہ وہ ایسے بے حس ، لالچی اور بد عنوان افراد کے خلاف فوری کارروائی کرے، جو انہیں اپنے پیاروں کے بچھڑنے کی تکلیف اور دکھ کے موقع پر بھی مشکلات سے دوچار کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کراچی کے قبرستانوں میں روشنی اور پانی کا معقول انتظام کیا جائے اور قبروں کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔