الٹی ہوگئی مودی کی تدبیر
نفرت کی سیاست سے معاشرہ پہلے ہی تقسیم ہے۔ مستقبل میں یہ تقسیم مزید بڑھے گی۔
لاہور:
بھارت کے عوام کا بنیادی مسئلہ غربت اور پسماندگی ہے، یہی مسئلہ پاکستان کے عوام کا ہے۔ لیکن دونوں ممالک میں اچھی حکمرانی کے فقدان کی وجہ سے صورتحال میں خاطر خواہ بہتری نہیں آتی۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بھی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔
برطانوی راج کے خاتمے کے بعد سے یہ کشیدگی چلی آرہی ہے۔ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے جسے دونوں ممالک اورکشمیر کے عوام ہی حل کرسکتے ہیں۔ اصل فیصلہ وہی کارگر ہوگا جو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہوگا، لیکن بھارت میں جب سے مودی حکومت قائم ہوئی ہے کشمیر میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ بھارت میں حکمران جماعت کی جانب سے کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے اور بھارتی کشمیرکو تین حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارتی صوبوں کا درجہ دینے کے فیصلے سے دونوں ممالک میں کشیدگی میں اور اضافہ ہوگیا۔رفتہ رفتہ یہ عالمی مسئلہ بن رہا ہے۔ تقریباً 9 لاکھ فوج کشمیر میں ہے۔
لوگ گھروں میں نظر بند کر دیے گئے ہیں، سیاسی رہنماؤں کوگرفتار کرلیا گیا ، دنیا بھر میں جو تصویریں کشمیر کے حوالے سے دیکھی جا رہی ہیں ان میں بھارتی فوجیوں کا نہتے کشمیریوں پر ظلم سب کے سامنے آ رہا ہے۔ ٹیلی ویژن، موبائل فون اور زمینی فون بندکردیے گئے ہیں۔انٹرنیٹ سروس تک بند ہے۔ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا بھارت کے سیکولر اور جمہوری تشخص پر دوسرا بڑا حملہ ہے۔
بھارتی کانگریس کے اہم ترین رہنما راہول گاندھی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جموں کشمیر کے یک طرفہ ٹکڑے کرنے سے، منتخب نمایندوں کو جیل میں بند کرنے سے اور آئین کی خلاف ورزی سے قومی یکجہتی کو فروغ نہیں ملے گا۔ طاقت کا بے جا استعمال ہماری قومی سلامتی کو بری طرح متاثر کرے گا۔ یہ تنگ نظری اور احمقانہ پن ہے۔ اس طرح جو خلا پیدا ہوگا اسے پر کرنے کے لیے تشدد پسندوں کو موقع ملے گا ۔ بھارت پہلے ہی بی جے پی کی انتہا پسند اور منفی رجحانات پر مشتمل سیاست کے گرداب میں پھنس گیا ہے جس انداز سے بی جے پی نے دو تہائی اکثریت سے انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے وہ بھی انتہائی مشکوک ہے۔
بی جے پی نے وقتی کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن انتخابی عمل متنازعہ بن گیا۔ قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کی گئی۔ بے شمار مقامات پر لوگوں کو ووٹ دینے سے روکا گیا۔کئی اقلیتی محلوں کو دھمکی دی گئی کہ اگر بی جے پی کو ووٹ نہ دیا تو انھیں برے نتائج بھگتنے ہوں گے پوری سیاسی مہم میں لوگوں کے مذہبی جذبات کے علاوہ قوم پرستی کے نام پر پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دی گئی۔ مخالفین کو ملک دشمن قرار دیا گیا اور بے شمار مقامات پر بی جے پی کے کارکنوں سے مخالفین کو گھیرکر مارا۔ پورے انتخابات میں غنڈہ گردی عروج پر تھی۔میڈیا پر جبر اور دولت سے قبضہ کرلیا گیا۔
یہاں تک کہ بعض بھارتی دانشوروں نے اپیل کی کہ لوگ ٹی وی دیکھنا بند کر دیں۔ مخالف جماعتوں میں توڑ پھوڑ کے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ مخالفین کو تتر بترکیا جا رہا ہے بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ آزمودہ نسخہ ہے کہ کوئی سانحہ کردو، لوگوں کے جذبات کو ہوا دو اور انھیں اپنے ساتھ ملاؤ۔ اس وقت ملک میں اقلیتیں غیر محفوظ ہوچکی ہیں۔ انھیں دوسرے درجے کا شہری تصورکیا جاتا ہے۔ سیکولر اور جمہوری بھارت کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ اونچی ذات کے ہندوؤں کی نئی ریاست کی تشکیل کی جانب پیش قدمی ہے۔ مخالفین کوکمزور اور تقسیم کردیا گیا ہے میڈیا کو گرفت میں لے لیا گیا ہے۔
لہٰذا فی الوقت بی جے پی کے سامنے طاقتور مخالف قوت موجود نہیں ہے آیندہ بی جے پی عدالتوں اور الیکشن کمیشن پر بھی غلبہ حاصل کرنے کے اقدامات کرسکتی ہے۔گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں کلیدی کردار ادا کرکے نریندر مودی نے شہرت حاصل کی اور اس منفی عمل کو بھی خود کو ہیرو بنانے کے لیے استعمال کیا۔ بابری مسجد کے سانحے سے بی جے پی نے ہندو انتہا پسندی کو فروغ دیا اور اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کیا اور وہ آہستہ آہستہ مختلف سانحوں اور غنڈہ گردی کے ذریعے آج پورے بھارت پر حاوی ہے۔ انتخابات کا عمل بھی ان کی گرفت میں آچکا ہے لیکن اس کا اصل نقصان بھارت کے عوام کو ہو رہا ہے۔ بی جے پی ہندو قوم پرستی کے جذبات بھڑکا کر عوام کے ایک حصے کو اپنے ساتھ ملا چکی ہے۔ لیکن یہ تسلط مصنوعی اور جبری ہے۔ بی جے پی نے پہلے مرحلے میں سیکولر اور جمہوری بھارت پر حملہ کردیا تھا لیکن دنیا اب تبدیل ہوچکی ہے۔
وقتی طور پر کچھ چیزوں پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے۔ لیکن حقائق زیادہ عرصے تک چھپ نہیں سکتے۔ دنیا کے بیشتر ممالک تک سب خبریں پہنچ جاتی ہیں۔آرٹیکل 370 ختم کرنے سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم نہیں ہوئی بلکہ جس انداز سے مودی حکومت نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس سے پوری دنیا میں کشمیر کا مسئلہ مزید اجاگر ہوکر سامنے آگیا ہے۔ اب ہر جگہ یہ سوال ہوگا کہ اگر یہ فیصلہ اچھا تھا تو اس میں کشمیر کے لوگوں پر فوج کا پہرہ کیوں لگایا گیا اور یہ پہرہ کب تک رہے گا اس پہرے کے ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب بھی یہ پہرہ ختم ہوگا۔کشمیر کے لوگ سڑکوں پر آجائیں گے۔ ایک مرتبہ پھر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔ نتائج بہت زیادہ خوفناک بھی ہوسکتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں بی جے پی نے حالیہ انتخابات میں بھارت کے سیکولر اور جمہوری تشخص کو نقصان پہنچایا اور اب بھارتی وزیراعظم مودی کی کشمیر کی تدبیر بھی الٹی ہوگئی ہے۔
بھارت میں اس سے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ نفرت کی سیاست سے معاشرہ پہلے ہی تقسیم ہے۔ مستقبل میں یہ تقسیم مزید بڑھے گی۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جنگ کا تصور بھی بھیانک ہے۔ جنگی جنون کو ہوا دینا اور اس سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی سے آگ بھڑک سکتی ہے۔ پوری دنیا میں ترقی اور خوشحالی کا راستہ امن و استحکام ہے۔ نفرت سے نفرت جنم لیتی ہے تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے۔ پاکستان کا ردعمل فطری اور دانش مندانہ تھا۔ پاکستان مذاکرات سے پیچھے نہیں جا رہا ہے بلکہ دنیا بھر کو بتا رہا ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی اپنی معاشی خوشحالی کے اقدامات کو بھرپور انداز میں جاری رکھنا چاہیے۔ پاکستان کے دفاع کے لیے بھی یہی ضروری ہے۔ بھارتی عوام میں بھی کشمیر کے بارے میں فیصلے کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔ امن و استحکام کے حامی افراد اپنا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔
بی جے پی ایسے افراد کی آواز دبانا چاہتی ہے، لیکن مستقبل میں اسے دبایا نہیں جاسکے گا۔ بھارت پہلے ہی بڑھتی ہوئی آبادی اور غربت کا شکار ہے۔ نفرت اور جنگی جنون پیدا کرنے کی فضا سے غربت میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کو عوام کے مسائل کے حل کے لیے اپنی توجہ کو مرکوز رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی اپنی سفارت کاری کو مزید موثر بناکر امن و استحکام کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ اندرونی اور علاقائی سلامتی پر بھی اپنے کام کو جاری رکھنا چاہیے۔
پاکستان کے عوام کی خوشحالی اور ترقی پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کرے گی۔ بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا جائزہ لینا مناسب ہے یہ پورے بھارت کی آواز نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارت کو غلط راہ پر لے جانے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے عوام میں مستقبل میں اس کے خلاف فضا بھی ہموار ہوسکتی ہے نفرت کی سیاست زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی ہے فی الحال ایک انتہا پسند گروہ بھارت پر غالب ہے جو بھارت کو ایسے راستے پر لے جا رہا ہے جس کا نقصان بھارت کے عوام کو ہوگا۔ انتہا پسندی اور ہندوتوا کا فلسفہ امن اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔