مطالعۂ سیرت

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 16 اگست 2019
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

سیرت یا سیرۃ، موجودہ دور میں سیرت نبویہ یا سیرت نبوی یا سیرت النبی کی اصطلاح مسلمانوں کے ہاں حضرت محمد ﷺ کی سوانح کے لیے خاص ہے۔

اردو اور فارسی سیرت، عربی سیرۃ کا لفظ عربی زبان کے جس مادے اور فعل سے بنا ہے اس کے لفظی معنی ہیں چلنا پھرنا، راستہ لینا، رویہ یا طریقہ اختیارکرنا، روانہ ہونا، عمل پیرا ہونا وغیرہ۔ اس طرح سیرت کے معنی حالت رویہ، طریقہ، چال، کردار، خصلت اور عادت کے ہیں۔ لفظ سیرت واحد کے طور پر اور بعض دفعہ اپنی جمع سیر کے ساتھ اہم شخصیات کی سوانح حیات اور اہم تاریخی واقعات کے بیان کے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مثلاً کتابوں کے نام سیرت عائشہ یا سیرت المتاخرین وغیرہ۔کتب فقہ میں السیر جنگ اور قتال سے متعلق احکام کے لیے مستعمل ہے۔

چونکہ آنحضرتؐ کی سیرت کے بیان میں غزوات کا ذکر خاص اہمیت رکھتا ہے اس لیے ابتدائی دور میں کتب سیرت کو عموماً مغازی و سیرکی کتابیں کہا جاتا تھا جب کہ لفظ مغازی، مغزی کی جمع ہے، جس کے معنی جنگ (غزوہ) کی جگہ یا وقت کے ہیں لیکن اب سیرت کی ترکیب ہی مستعمل ہے۔

لفظ سیرۃ قرآن میں:

قرآن کریم میں لفظ سیرۃ ایک جگہ آیا ہے۔

’’ہم اسے ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔‘‘ (عرفان القرآن)

اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا (لاٹھی) کے سانپ بن جانے کے بعد دوبارہ اصلی حالت میں آجانے کی طرف اشارہ ہے لہٰذا یہاں لفظ سیرۃ حالت اورکیفیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

سیرت کا اصطلاحی مفہوم:

لفظ سیرت اب بطور اصطلاح صرف آنحضرتؐ کی مبارک زندگی کے جملہ حالات کے بیان کے لیے مستعمل ہے جب کہ کسی اور منتخب شخصیت کے حالات کے لیے لفظ سیرت کا استعمال قریباً متروک ہو چکا ہے۔ اب اگر مطالعہ سیرت یا کتب سیرت جیسے الفاظ کے ساتھ رسول، نبی، پیغمبر یا مصطفی کے الفاظ نہ بھی استعمال کیے جائیں تو ہر قاری سمجھ جاتا ہے کہ اس سے مراد آنحضرتؐ کی سیرت ہی مراد لیے جاتے ہیں جیسے سیرت ابن ہشام کہ اس کا مطلب ابن ہشام کے حالات زندگی نہیں بلکہ آنحضرتؐ کے حالات ہیں جو کتاب کے مصنف ابن ہشام نے جمع کیے ہیں۔ اسی طرح موجودہ دور میں جلسہ سیرت، سیرت کانفرنس، مقالات سیرت، اخبارات و رسائل کے سیرت نمبر وغیرہ بکثرت الفاظ مستعمل ہیں۔ بعض دفعہ ادب و احترام کے اظہار کے لیے اس لفظ کے ساتھ کسی صفت کا اظہار کردیتے ہیں جیسے سیرت طیبہ، سیرت مطہرہ اور سیرت پاک وغیرہ۔

سیرت طیبہ کے ماخذ و مصادر:

کسی علم خصوصاً جس کا تعلق تاریخ سے ہو،اس کے ماخذ سے مراد وہ کتابیں، روایات اور آثار وغیرہ ہیں جن میں اس علم کے متعلق سب سے پہلے بات کی گئی ہو یا جن میں اس علم کے متعلق معلومات سب سے پہلے جمع کی گئی ہوں۔ کسی تاریخی شخصیت کے بارے میں معلومات کا اہم ماخذ وہ کتاب یا کتابیں ہوں گی جو اس کی زندگی میں لکھی گئی ہوں یا اس کے بعد قریب ترین زمانے میں لکھی گئی ہوں اور جن میں زیادہ سے زیادہ مواد یکجا جمع کیا گیا ہو یا اس مواد کے جمع کرنے میں علمی تگ و دو اور تحقیقی چھان بین سے کام لیا گیا ہو۔ اس لحاظ سے سیرت طیبہ کے اہم بنیادی ماخذ حسب ذیل بنتے ہیں۔

قرآن مجید:

سیرت طیبہ کا اصل اور سب سے زیادہ صحیح اور مستند ماخذ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید دو طرح سے سیرت کے ماخذ کا کام دیتا ہے الف۔ اس میں آنحضرتؐ کی مبارک زندگی کے متعدد واقعات، غزوات اور بعض دیگر پیش آمدہ حالات کا ذکر ہے۔کہیں تفصیل اورکہیں اجمالی اشارات موجود ہیں۔ بعض لوگوں نے صرف قرآن کریم میں صراحنۃً یا کنایتہ بیان کردہ واقعات سیرت کی ترتیب و جمع سے سیرت پرکتابیں تالیف کی ہیں۔ مثلاً محمد عزت دروازہ کی کتاب ’’سیرۃ الرسول ‘‘(صورۃ مقتبہ من القرآن) جو دو جلدوں میں ہے۔

ب۔ قرآن کریم میں وہ تمام تعلیمات ہیں جن کو آنحضرتؐ نے عملاً نافذ کیا۔ اسی طرح معاصرکفار کے بعض اعتراضات اور ان کے جوابات مذکور ہیں۔ قرآن کریم کی اس قسم کی آیات کی تفصیل اور زمانہ یا موضع نزول کے بارے میں سیرت طیبہ کے واقعات کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔گویا قرآن کریم سیرت طیبہ کے بارے میں کچھ تفصیلی معلومات بھی دیتا ہے اور اجمالی اشارات کے ذریعے سے واقعات سیرت کی اصل کی نشاندہی کرکے اس کی تفصیلات جاننے پر آمادہ بھی کرتا ہے۔

کتب حدیث:

قرآن کریم کو رسول اللہ نے کس طرح سمجھا اور اسے کس طرح نافذ کیا، اس کی تفصیلات ہی کتب حدیث کا اصل موضوع ہے لیکن قرآن کریم میں آنحضرتؐ کے احکام، تعلیمات، خطبات، مواعظ اور قضایا یعنی قانونی فیصلے وغیرہ ہی بیان نہیں ہوئے بلکہ بعض نہایت اہم واقعات سیرت بھی بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ حدیث کی روایت و نقل میں عام کتب تاریخ کی نسبت زیادہ تحقیق و چھان بین سے کام لیا جاتا ہے، اس لیے کتب حدیث میں بیان کردہ واقعات سیرت قرآن کے بعد باقی تمام ماخذ سیرت سے زیادہ مستند اور زیادہ قابل اعتماد ہیں۔

تواریخ حرمین:

حرمین سے مراد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔ بعض علما نے خاص ان شہروں کی تاریخ اور ان کے اہم تاریخی مقامات سے متعلق معلومات کو مستقل تالیفات کا موضوع بنایا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تواریخ حرمین پر لکھی گئی کتابوں میں سیرت نبوی سے متعلق ایسی معلومات بھی مل جاتی ہیں جو عام کتب تاریخ وسیرت میں مذکور نہیں ہوتیں۔ اس فن کی اہم بنیادی کتابیں حسب ذیل ہیں۔

٭اخبار مکۃ المشرفۃ۔ مولف ابن الارزق٭مدینہ منورہ کی تاریخ پر سب سے پہلی کتاب ابن زبالہ 199ھ میں لکھی گئی۔٭وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ۔ سمبودی٭ تاریخ الحرمین (سفرنامہ)۔ ابراہیم رفعت پاشا٭فی منزل الوحی (سفرنامہ)۔ محمد حسین ہیکل٭ آثار المدینۃ المنورہ۔ عبدالقدوس انصاری٭تاریخ مدینہ منورہ۔ مولانا عبدالمعبود کی اردو کتاب٭ تاریخ مکہ مکرمہ۔ مولانا عبدالمعبود کی اردوکتاب٭ تاریخ اسلام یا تاریخ عالم پرکتابیں مسلمانوں نے فن تاریخ نویسی کو بڑی ترقی دی اور عالمی تاریخ کو عموماً اور تاریخ اسلام کو خصوصاً بڑی بڑی ضخیم کتابوں میں جمع کیا۔ اس قسم کی کتابوں میں سیرت طیبہ کا مذکور ہونا لازمی تھا۔ اس قسم کی چند نمایاں اور بنیادی کتابیں، جو سیرت طیبہ کے لیے بھی اہم ماخذ ومصدر ہیں، درج ذیل ہیں۔

٭تاریخ الرسل والملوک۔ امام ابن جریر طبری۔ اس کتاب کا معروف نام تاریخ طبری ہے۔ مکمل کتاب آٹھ جلدوں میں ہے جن میں سے دوسری جلد سیرت کے متعلق ہے۔

٭الکامل فی التاریخ۔ ابن الاثری۔ یہ کتاب 9 جلدوں میں ہے اور اس کی دوسری جلد سیرت سے متعلق ہے۔

٭البدایہ والنہایہ۔ حافظ ابن کثیر۔ یہ کتاب 9 جلدوں میں ہے اس کتاب کی دوسری سے چھٹی تک کی پانچ جلدیں سیرت سے متعلق ہیں۔ اس کتاب کا یہ مخصوص حصہ سیرت ابن کثیر کے نام سے الگ سے 4 جلدوں میں بھی شایع ہوچکا ہے۔

٭تاریخ الخمیس۔ دیار بکرمی۔ یہ کتاب 5 جلدوں میں ہے۔ اس کی جلد اول اور دوم کا بڑا حصہ سیرت طیبہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا سال تالیف 946ھ ہے۔

طبقات مشاہیر:

عام اور مسلسل تاریخ اسلام (سن وار) لکھنے کے علاوہ بعض مسلمان اہل علم نے مشہور شخصیتوں کی اقسام الگ الگ کرکے ہر گروہ یا طبقے کے مشاہیر کے حالات الگ الگ کتابوں میں جمع کیے مثلاً صحابہ، حفاظ و قراء، شعراء، علمائے لغت و نحو، اطبا وغیرہ۔ اس قسم کی کتابیں عموماً طبقات کے نام سے لکھی گئی ہیں مثلاً طبقات ابن سعد، طبقات القرا، طبقات الاطبا وغیرہ۔ اس قسم کی کتابوں، جن کا تعلق بالخصوص صحابہ کرام سے ہے، ان میں سیرت طیبہ پر بھی بہت کچھ مواد ملتا ہے۔

٭انساب الاشراف۔ ابوالحسن احمد بن یحییٰ بن جابر بن داؤد البلازری متوفی 279ھ۔ 892ء کی تصنیف جو عربوں کی ایک ضخیم تاریخ اور جامع تاریخ ہے۔ اس کی ترتیب ان کے نامور خاندانوں کے اعتبار سے رکھی گئی ہے۔ سب سے پہلے بنو ہاشم کا ذکر ہے جس کے ضمن میں پوری سیرت آگئی ہے۔

٭الطبقات الکبیر المعروف طبقات ابن سعد۔ محمد ابن سعد کی تصنیف جو صحابہ کرام اور تابعین کے حالات پر ہے۔ اس کتاب کے ابتدائی حصے میں سیرت طیبہ کا بیان ہے۔ مکمل کتاب کے آٹھ حصوں میں سے پہلے دو حصے سیرت پر مشتمل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سیرت نبوی کے نہایت قدیم اور قیمتی مصادر و ماخذ میں شمار ہوتی ہے۔

٭تاریخ الاسلام و الطبقات المشاہیر و الاعلام۔ ذہبی۔ اس کتاب کی متعدد جلدوں میں سے پہلی جلد سیرت سے متعلق ہے۔

اولین کتب سیرت:

اولین کتب سیرت جو یا تو آنحضرتؐ کے قریب ترین دور میں لکھی گئیں اور آنے والوں کے لیے ماخذ و مصادر بنیں یا ان اولین کتب سیرت کی بنیاد پر تالیف کی جانے والی اولین ضخیم اور جامع کتب سیرت جن میں شامل مواد متعدد کتب سے جمع کیا گیا۔ ان میں سے بہت سی کتب سیرت ناپید ہوچکی ہیں تاہم ان کا ذکر اور ان سے اخذ کردہ مواد کے حوالے بعد کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ اسی طرح بہت سی ایسی کتب سیرت ہیں کہ جن کے قلمی نسخے بعض بڑے کتب خانوں میں ملتے ہیں لیکن تاحال وہ شایع نہیں ہوسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔