سکون اور بے سکونی کے اصول

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 8 ستمبر 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

ہمارے حکمرانوں ، صاحب اختیار سیاست دانوں، وڈیروں، جاگیرداروں، بیوروکریٹس، سرداروں ، چودھریوں ، ملائوں کو یہ جملہ لکھ کر اپنے چاروں طرف چسپاں کر دینا چاہیے تاکہ ان کی نظراس پر ہر وقت پڑتی رہے کہ ’’دوسروں کے ساتھ بالکل ویسا ہی برتائوکرو جیسا کہ تم چاہتے ہو تمہارے ساتھ کیا جائے‘‘ یہ اس لیے کہ ان کی زندگی سکون سے گذرے اور ان کے سکون کی وجہ سے دوسروں کی زندگی سکون سے گذر سکے کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ان کی بے سکونی کی بنا پر لاکھوں زندگیاں بے سکونی سے گذر رہی ہیں۔

سینٹ آگسٹائن نے آج سے تقریباً سولہ سو سال پہلے اپنی آپ بیتی ’’ اعترافات ‘‘ میں لکھا تھاکہ اس نے دھوکہ دہی اور لوگوں کا حق مارکر سماجی ومعاشرتی اعتبار سے ترقی کی۔ایک دن اس نے تقریرکے دوران ایک فقیرکو دیکھا اس نے اس تقریرکے دوران کئی جھوٹ بولے تھے۔ اس نے دیکھا کہ فقیر نہایت مطمئن اور مسرور دکھائی دے رہاہے جب کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔

اس کے برعکس اس نے سب کچھ حاصل کر لیا ہے لیکن سخت بے اطمینان اور اضطراب زدہ ہے اس نے غورکیا تو اسے اس حقیقت کا علم ہوا کہ وہ فقیر ایک مصدقہ شخص ہے اپنے ساتھ سچا ہے جب کہ وہ اپنے متعلق ایسا نہیں کہہ سکتا تھا۔

ہمارے صاحب اقتدار ، اختیار وحیثیتوں کے مالکوں کے ’’ اعترافات ‘‘ بھی یقینا سینٹ آگسٹائن کے ’’ اعترافات ‘‘ سے ہرگز مختلف نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ انھوں نے ہر چیز دھوکہ دہی لوگوں کا حق مارکر لوٹ مارکرکے حاصل کی ہے ، لیکن اگر وہ اپنی سابقہ زندگی سے تنگ اور اکتا چکے ہوں اور اپنے غلطیوں اور زیادتیوں کا مداوا کرنا چاہتے ہوں تو ہمارے پاس ان کے لیے انمول نسخہ موجود ہے، ان سے گذارش ہے کہ وہ مندرجہ ذیل اس انمول نسخے کا بغور مطالعہ کریں تاکہ ان کی بقیہ زندگی چین وسکون کی حالت میں گذرے دنیا میں ایک عظیم آدمی گذرا ہے جس نے تین عظیم ترین الفاظ لکھے تھے اس کا نا م ایلبرٹ شوائٹزر تھا اور وہ تین الفاظ تھے ’’زندگی کا احترام ‘‘ کرو۔

شوائٹزرکو یقین تھا کہ بے شمار لوگ زندگی کے معنی اور اس کی قدروقیمت کے متعلق سوچے سمجھے بغیر زندگی گذار دیتے ہیں وہ زندگی کو ایک عظیم تحفہ تصورکرتا ہے جس کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔ احترام اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ خود زندگی پرانی ہے۔ دنیا کے آغاز سے ہی سب سے زیادہ کامیاب ہونے والے لوگ چار طریقوں سے اپنے احترام کا اظہارکرتے آئے ہیں یہ’’زندگی کے احترام‘‘ کے ستون ہیں۔

(1) اچھے اطوار :۔ جارج برنارڈ شا نے کہا ہے ’’ اچھے اطوار نہ ہوں تو انسانی معاشرہ نا قابل برداشت اور ناممکن ہو جاتا ہے۔’’جو ہم ہوتے ہیں وہ ہی ہمارے اطوار ہوتے ہیں ہم جس طرح دوسروں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں اسی طرح پہچانے جاتے ہیں۔ ٹوم پیٹر اور روبرٹ واٹر مین اپنی مشہور کتاب In Search of Excellence میں لکھتے ہیں۔

’’ لوگوں کے ساتھ بچوں جیسا نہیں بلکہ بالغوں جیسا سلوک کرو ،انہیں اپنا دوست تصورکرو ، ان کا احترام کرو، ان کے وقار کا خیال کرو‘‘۔

اٹھارہویں صدی کی پہلی دہائی میں برطانوی سیاسی مد برایڈ منڈ برک نے کہا تھا ’’اچھے اطوار قوانین سے زیادہ اہم ہوتے ہیں‘‘ دوسرے لفظوں میں اگر ہم سب دوسروں کا احترام اور خیال کریں تو ہمیں اپنے رویے کو متوازن رکھنے کے لیے قوانین کی ضرورت نہیں رہے گی۔

(2) زبان :۔ انسان کے الفاظ ہمیشہ اس چیزکا اظہار کرتے ہیں جوکہ اس کے دل میں ہوتی ہے یہ چھپانا سب سے مشکل کام ہے کہ ہم کون ہیں ؟ ہم کیا ہیں ؟ ہمارے الفاظ ہر اس چیزکو عیاں کر دیتے ہیں جو کہ ہمارے دل اور ہمارے دماغ میں چھپی ہوتی ہے۔ حضرت سلیمان نے ہزاروں سال پہلے کہا تھا کہ ’’ عقل مند لوگوں کے منہ سے صرف شکرگذاری کے الفاظ نکلتے ہیں اور یہ کہ بے وقوف لوگ اپنے ہی ہونٹو ں سے مارے جاتے ہیں ۔

(3) قوانین کا احترام :۔ ارسطوکہتا ہے ’’جب ہم فرد کی حیثیت سے ان قوانین کی پابندی کرتے ہیں جو ہمیں کمیونٹی کی بھلائی اور بہبود کے لیے کام کرنے کی سمت لے جاتے ہیں تو ہم بالواسطہ طور پر اپنے جیسے انسانوں کی خوشی کے مقصد کو فروغ دینے میں مدد کررہے ہوتے ہیں‘‘ معاشرے میں قوانین وضوابط اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ انصاف کا احساس مستحکم ہو اگر قوانین وضوابط نہ ہوں تو معاشرہ انتشار زدہ ہوجائے گا قوانین کی موجودگی کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ دوسروں کا زیادہ خیال رکھنے والا انسان ہمیں بننے میں ہمیں مدد دیتے ہیں۔ معاشرے کے قوانین کی پابندی صرف دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کے اورکچھ بھی نہیں ہے۔ یہ دیانت داری کی ایک صورت ہے قانون یہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کا کتنا خیال کرتے ہیں اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ زندگی زیادہ سادہ اور زیادہ پرسکون ہو جو لوگ زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں وہ قوانین کا ہر صورت میں احترام کرتے ہیں۔

(4)اختلافات کو قبول کرو :۔ تھامسن مرٹن کہا کرتا تھا ’’سچ اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہم میں سے ہر فرد خود کوکائنات کا مرکز نہیں سمجھتا ‘‘ہم سب اپنی ذات کو ترجیح دیتے ہیں ہم ہر چیزکو اپنے تناظر سے دیکھتے ہیں اور اکثر یہ غلطی کرتے ہیں کہ حقیقت کے بجائے اس کے لیے اپنے محدود تناظرکو ہی حقیقت قرار دے دیتے ہیں۔ ہم اکثر اوقات اس وجہ سے دوسرے لوگوں پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ ایسا کام کرتے ہیں جوکہ ہمارے کاموں سے مختلف ہوتے ہیں ہم حقیقتاً یہ کہہ رہے ہوتے ہیں تم ٹھیک نہیں ہو کیونکہ تم مجھ جیسے نہیں ہو دوسرے لفظوں میں ان کی ساری گفتگوکا نچوڑ یہ ہوتا ہے ’’صرف وہ ہی اچھا ہے جسے میں پسند کرتا ہوں۔ ارل نائٹ انگیل نے کہا تھا ’’ زندگی میں ہمیں اتنے ہی انعامات ملتے ہیں جتنا کہ ہم دوسروں کا خیال کرتے ہیں‘‘ کیونکہ ہم جوکچھ دیتے ہیں وہ ہی کچھ پاتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ انمول نسخہ ان کی بے سکونی کو ختم کر نے میں بہت مدد گار ثابت ہوگا، اگر وہ اس نسخہ پرعمل کرتے ہیں تو۔ ورنہ بے سکونی ان کا مقدر رہے گی اور ان کی بے سکونی کی وجہ سے ہم بے سکون رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔