وزیراعظم کی کال کا انتظار کریں

ایڈیٹوریل  اتوار 15 ستمبر 2019
وزیراعظم نے کہاکہ کشمیر میں مظالم کا نقصان خود ہندوستان کو ہو گا، آج کا ہندوستان گاندھی اور نہروکا ہندوستان نہیں رہا۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم نے کہاکہ کشمیر میں مظالم کا نقصان خود ہندوستان کو ہو گا، آج کا ہندوستان گاندھی اور نہروکا ہندوستان نہیں رہا۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کشمیریوں پر مظالم سے انتہا پسندی بڑھے گی۔ ساری دنیا میں کشمیریوں کا سفیر بن کر جاؤں گا اور ان کا مقدمہ لڑوں گا، نریندر مودی جتنا مرضی ظلم کر لے کامیاب نہیں ہوگا، کشمیری عوام میں موت کا خوف ختم ہو چکا ہے، بھارت انھیں شکست نہیں دے سکتا، بھارت نے مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردی کے نام پر کوئی ڈھونگ رچایا تو اینٹ کا جواب پتھر سے آئے گا، نوجوان کنٹرول لائن جانے کے لیے میری کال کا انتظار کریں، سوا ارب مسلمان کشمیر کی طرف دیکھ رہے ہیں، کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے انتہاپسندی پھیلے گی۔

وزیراعظم جمعہ کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظفرآباد میں منعقدہ تاریخی جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ میں نے دنیا میں کشمیر کا سفیر بننے کا فیصلہ کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک پاکستانی، مسلمان اور انسان ہوں،کشمیرکا مسئلہ انسانیت کا مسئلہ ہے، 40 دنوں سے ہمارے کشمیری بھائی، بہنیں، بزرگ اور بچے کرفیو میں بند ہیں، عمران خان نے نریندر مودی کو پیغام دیا کہ تم بزدل ہو، صرف ایک بزدل انسان ہی دوسرے انسانوں پر اس طرح ظلم کرتا ہے جو آج کشمیر میں ہندوستان کی 9 لاکھ فوج کر رہی ہے۔نریندر مودی جتنا مرضی ظلم کرلیں لیکن آپ کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ کشمیری عوام میں موت کا خوف ختم ہو گیا ہے، اب انھیںکوئی شکست نہیں دے سکتا۔

انھوں نے کہاکہ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ نریندر مودی آر ایس ایس کا بچپن سے ہی ممبر ہے۔ اس جماعت کا نظریہ ہندو بالادستی کا ہے اور یہ مسلمانوںکے خلاف نفرت پرمبنی ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ کشمیر میں مظالم کا نقصان خود ہندوستان کو ہو گا، آج کا ہندوستان گاندھی اور نہروکا ہندوستان نہیں رہا۔ انھوں نے کہا آج کشمیرکا مسئلہ عالمی سطح پراجاگر ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 50 سال بعد اس مسئلہ پربات ہوئی ہے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی صورت حال پر 58 ممالک نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے ۔

انھوں نے کہا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک جا رہا ہوں اور یقین دلاتا ہوںکہ اپنے کشمیری بھائیوںکو مایوس نہیں کروںگا، 80 لاکھ کشمیریوںکو ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے کشمیر میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں مقیم 20کروڑ مسلمانوں کو بھی پیغام دیا جا رہا ہے کہ یہاں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

وزیراعظم نے کہاکہ جس طرح کشمیر میں مسلمان اکثریت کو فوج کی طاقت سے اقلیت میں تبدیل کریںگے اوران کے بچوں کو قتل کریںگے، انھیں پیلٹ گنزسے اندھا کریںگے، بوڑھوں پرظلم ڈھائیں گے، 20 کروڑہندوستانی مسلمانوں کو یہ پیغام دیںگے کہ ہندوستان تو صرف ہندوؤں کے لیے ہے، توآپ ان کوانتہاء پسندی کی طرف دھکیلیں گے۔ یہ پیغام صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ دنیاکے سوا ارب مسلمان کو جا رہا ہے۔

انھوں نے کہاکچھ مسلمان ممالک کی حکومتیں اپنی تجارت کی وجہ سے آج خاموش ہیں لیکن سوا ارب مسلمان کشمیرکی طرف دیکھ رہے ہیں، ان میں سے بھی لوگ انتہاکی طرف جائیںگے، یہ لوگ بھی بندوق اٹھائیںگے۔ انھوں نے کہا ہمارے دین اسلام کا مطلب امن ہے، ہم امن پسند قوم ہیںلیکن جب لوگ یہ ظلم دیکھتے ہیںتوانتہا اورانتشارکی طرف جاتے ہیں۔نریندر مودی یہ بھی سن لے اور یاد رکھے کہ اگر تم نے پھر ایسا سوچا تو اینٹ کا جواب پتھر سے آئے گا۔ ایک مرتبہ جنگ ہوگئی تو آخری دم تک تمہارا مقابلہ کریںگے۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سفیر کشمیر عمران خان کشمیریوںکی آوازاقوام متحدہ لے کر جا رہے ہیں، پوری کشمیری قوم عمران خان کواپنا سفیر سمجھتی ہے، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی میں ہمت ہے تو وہ وزیراعظم عمران خان کی طرح کشمیری عوام سے خطاب کرکے دکھائیں، مودی میں ہمت ہے تو وہ کرفیو اٹھائے اور پھر اپنا تماشا دیکھے۔ جلسے سے وفاقی وزیرعلی امین گنڈاپور اوروزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدرخان نے بھی خطاب کیا۔

وزیراعظم نے ایک چارجزڈ اور پر جوش مجمع کو صبر کی صائب تلقین کی کہ وہ کنٹرول لائن پر ان کی کال کا انتظار کریں، پاک بھارت تعلقات اور کشیدگی میں کنٹرول لائن پار کرنے کی جذباتی باتیں عموماً کشمیری مجاہدین اور نوجوان نسل کی طرف سے ہوتی رہی ہیںمگر اس ممکنہ اقدام پر ہوش مندی سے سوچنا چاہیے، جنگجو عناصر مناسب موقع کے تحت کنٹرول لائن کراس کرنے کا لائحہ عمل پیش کرتے ہیں، مگر اس کے مضمرات کو ذہن میںرکھنا خطے کی ڈائنامکس کے ادراک کے لیے ضروری ہے، ہر چیز کا وقت مقرر ہے اور سیاست و عسکریات میںٹائمنگ اور اس کا سنس ناگزیر ہے، بھٹو صاحب کا مشہور مقولہ تھا   Nothing succeeds like success and Nothing fails like failure وہ اسی تناظر میں میڈٖیا، سیاسی تاریخ کی کتابوں اوراس کے عالمی اور علاقائی اور داخلی  تناظر میں سامنے رکھا جاتا ہے۔

جنگ یا سیاسی وسفارتی پیش قدمی میں دشمن کی چالوں پر نظر رکھنا پڑتی ہے، ڈپلومیسی کے کئی چہرے اورکئی گرگٹی رنگ ہوتے ہیں،کامیابی وناکامی کے مدارج مختلف ہوتے ہیں،ایک لمحے کی خطا صدیوں کی سزا میں ایسے ہی نہیں بدلتی ،اس میں انسانی لغزش اور سیاسی حماقت و لغزش کے دریا عبور کرنے سے بچنا عقل مندی ہے، اس وقت صورت حال بے حد درد ناک ہے۔ 4 ہزار سے زاید کشمیری گرفتار،بڑی تعداد نظربند، کرفیو،انٹرنیٹ اور موبائل بند،اشیائے خوراک تک رسائی نہیں،کالے قانون سیفٹی ایکٹ کے نام پر ہورہی ہیں،ادھر کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں ریلیاںاور جلسے ہورہے ہیں، ضروری ہے کہ ہر محاذ پر قوم کو کامیابی اور مودی حکومت کو شکست کا سامنا ہو۔

صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کا کہنا ہے کہ یورپ بھارت سے تجارت کشمریوں کے حق خود ارادیت سے مشروط کرے، انھوں نے مسئلہ پر بحث کرانے پر یورپی یونین پارلیمنٹ کا خیر مقدم کیا، دنیاکو ادراک کرنا چاہیے کہ تاخیر سے کام لیا گیا تو کشمیر میںبڑا المیہ جنم لے سکتا ہے،بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کشمیر کی صورت حال کے معاشی،تجارتی اور کاروباری منفی اثرات مقبوضہ وادی کے مارکیٹ میکنزم پر بھی پڑ رہے ہیں، بیروزگاری ،بھوک، خوراک اور غذاؤں و دواؤں کی قلت بھی کشمیری بچوں کی صحت کے لیے سخت تشویش کا باعث بن رہی ہے۔امریکی رکن کانگریس ایرک سالویل کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے عالمی فوجی ،معاشی اثرات مرتب ہوںگے، امریکا کو چاہیے کہ کہ وہ ایٹمی پاکستان اور بھارت سے کشیدگی میں کمی یقینی بنائے۔

دریں اثنا روسی ٹی وی رشیا ٹوڈے کوانٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ کوئی بھی ذی شعورانسان ایٹمی جنگ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، بڑی طاقتیں روس، چین اورامریکا اپنے اثرورسووخ کو بروئے کارلاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا دیرینہ تنازعہ سمیت متعدد دیگر بین الاقوامی معاملات حل کرائیں۔ ان کاکہنا تھا کہ دو ایٹمی ممالک کے مابین تنازعہ ناقابل تصور ہے، اس سے پہلے کہ یہ خطہ فلیش پوائنٹ بن جائے دنیاکو مداخلت کرنی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ماسکو اور اسلام آبادکو ماضی بھلاکر نئے سرے سے تعلقات استوارکرنا ہوںگے۔حقیقت میں مسئلہ کشمیر پر سیاسی موسم کو سنجیدہ دائرہ میں رکھنا ضروری ہے، لاحاصل نعرہ بازی اور غیر ضروری بڑھکوںسے بھی گریز ناگزیر ہے، دو ایٹمی ملکوں کے مابین جنگ کے خطرات بڑھ رہے ہیں ، سیاستدانوں کو سوچ سمجھ کر حکومتی بیانیہ کے ساتھ ساتھا چلنا چاہیے، دنیا کو یہ غلط تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ کشمیر پر جنگ کے المناک مضمرات کا ادراک خطے کی ذمے دار قوتیںنہیں کر رہیں۔

بھارتی میڈیا جنگجویانہ شعلہ نوائی کو تیلی دکھا رہا ہے، بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے پھر ایک انٹرویو میں دھمکی دی ہے کہ آزاد کشمیر پر حملے کے لیے وہ صرف گرین سگنل کا انتظار کررہے ہیں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر حکومت اور اپوزیشن کو ہر قیمت پر متحد ہونا چاہیے۔ کشمیر کی آزادی پوری قوم کا عزم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔