پارکنسونزم: جب ہاتھ لرزتے ہیں اور حرکات کم ہو جاتی ہیں

مریض بہت جلد مایوسی، پژمردگی و پریشانی کا شکار ہوکرکبھی کبھار اپنی جان لینے کے درپے ہو جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

مریض بہت جلد مایوسی، پژمردگی و پریشانی کا شکار ہوکرکبھی کبھار اپنی جان لینے کے درپے ہو جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

عظیم باکسر محمد علی نے لرزتے ہاتھوں سے 1996ء اولمپکس کی مشعل روشن کی۔ وہ  اپنی تیز رفتاری، برق کی سی تیزی سے دشمن پر جھپٹنے، پلٹنے اور مکوں کی تابڑ توڑ بوچھاڑ کے لیے مشہور تھے۔

کوئی دشمن تو اس عظیم باکسر کی تیز رفتاری کو زیر نہ کر سکا لیکن پارکنسونزم کی جان لیوا بیماری نے محمد علی کی ساری تیزی و طراری ختم کر دی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ  مکوں کی بات چھوڑیں، ان کے ہاتھ ہر وقت لرزتے کانپتے رہتے تھے۔ اور ایک روز وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

اس بیماری میں پٹھوں میں سختی آ جاتی ہے۔ ارادی طور پر ہونے والی حرکات کم ہو جاتی ہیں اور ہاتھ پاؤں کیا پورے جسم پر رعشہ طاری رہتا ہے۔ اس بیماری کو سب سے پہلے جیمز پارکنسن نے دریافت کیا، اس لیے اس کے نام سے بیماری کا نام پارکنسونزم (Parkinsonism) ہے۔

 پارکنسونزم کی وجوہات:

اس بیماری کی بڑی وجہ دماغ کے خلیوں میں ڈوپامین کی کمی ہے۔ یہ زیادہ تر بڑی عمر کے لوگوں میں ہوتی ہے۔ بیماری کی بالکل صحیح وجہ کا پتہ چلانا بہت مشکل ہے۔ یہ موروثی طور پر بھی ہو سکتی ہے اور دماغ کے انفیکشن وغیرہ کی وجہ سے بھی، دماغ کے کینسر میں اس کا امکان ہو سکتا ہے۔

بعض دواؤں مثلاً Alkaloids, Phenothiazines وغیرہ کے غلط استعمال سے بھی اس کا امکان ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض گیسوں مثلاً کاربن مونو آکسائیڈ کی وجہ سے بھی اس کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ بعض عناصر مثلاً مینگانیز اور کاپر کی وجہ سے بھی بیماری کا امکان ہو سکتا ہے۔

 پارکنسونزم کی علامات:

اس بیماری کی تین بنیادی علامات ہیں۔

-1 رعشہ:

اس بیماری میں ہاتھ پاؤں اور جسم ہر وقت رعشہ میں رہتے ہیں۔ خاص طور پر انگلیوں، انگوٹھے اور بازوؤں کی حرکات میں لرزہ بڑے ردھم سے ہوتا ہے۔

-2 سختی:

پٹھوں میں کافی سختی آ جاتی ہے، انھیں پھیلانا یا ڈھیلا چھوڑنا مشکل ہوتا ہے۔

-3 حرکات میں کمی:

مریض کی حرکات و سکنات میں بہت زیادہ کمی آ جاتی ہے۔ آنکھیں خواہ مخواہ جھپکتی رہتی ہیں۔ ہاتھوں اور بازوؤں کو موڑنا مشکل ہوتا ہے۔ سستی و کمزوری طاری رہتی ہے۔ مریض کو اگر لکھنے کو کہا جائے تو وہ بڑی مشکل سے کٹی پھٹی، شکستہ سی تحریر لکھتا ہے اور اکثر قلم کی نب کاغذ میں گھسا دیتا ہے۔ مریض کی چال میں بھی لڑکھڑاہٹ نمایاں ہوتی ہے۔

ان بڑی علامات کے علاوہ مریض بہت پریشان اور بیمار لگتا ہے۔ سستی و پژمردگی چھائی رہتی ہے۔ مریض کے منہ سے لعاب دہن خارج ہوتا رہتا ہے۔ اسے قبض ہو جاتی ہے۔ اگر صحیح علاج نہ کیا جائے تو بیماری خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

علاج اور بچاؤ:

دماغی بیماریوں میں سب سے زیادہ احتیاطی تدابیر اہم ہوتی ہیں۔ جب کسی میں پارکنسونزم کی علامات ظاہر ہوں تو ضروری ہے کہ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرے۔ آج کل دواؤں کے صحیح اور مکمل استعمال سے بیماری کا علاج ممکن ہے مگر دواؤں کی صحیح خوراک کے متعلق مشورہ آپ کا ڈاکٹر ہی دے سکتا ہے۔ دواؤں کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھیں:

-1 غذا:

اس بیماری کے مریضوں میں حرکات میں کمی کی وجہ سے قبض کا خطرہ بہت رہتا ہے اس لیے زیادہ ثقیل غذا سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مریض کو ہلکی غذا دیں جن میں زیادہ تر پینے والی چیزیں ہوں۔ اس کے علاوہ تازہ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بھی مفید ہے۔

 -2 وٹامن ای:

وٹامن ای کا استعمال پازکنسونزم کے مریضوں میں فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

-3 ورزش:

مریض کو ہلکی پھلکی ورزش اور مساج سے بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔

-4 نفسیاتی سہارا:

اس طرح کی پرانی بیماریوں میں مریض بہت جلد مایوسی، پژمردگی و پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور زیادہ پریشان ہو کر کبھی کبھار اپنی جان لینے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے اس بیماری میں مبتلا مریضوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ انھیں ہر قسم کی سہولت بہم پہنچائی جائے، ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھا جائے اور اردگرد کے ماحول کو ان کے موافق بنایا جائے۔

مضر اثرات:

ژ          جسم میں خشکی، ہونٹ خشک ہونا

ژ          بار بار پیاس لگنا، جسم کی غیر ارادی حرکات

ژ          ڈیپریشن، پژمردگی، پیشاب کی تکلیف

ژ          پٹھوں میں سختی نیند کی خرابی

احتیاط:

ژ          دواؤں کو ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورہ سے استعمال کریں اور اس کی مقدار کو کبھی خود سے کم یا زیادہ نہ کریں۔

ژ          دوران حمل احتیاط سے استعمال کریں۔

ژ          پیٹ اور آنتوں کے السر کی صورت میں استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر کو اپنی دوری تکالیف کا ضرور بتائیں۔

ژ          دوا کھانے کے بعد اگر کوئی تکلیف ہو تو فوراً ڈ اکٹر سے رجوع کریں۔

دوا کی نوعیت اور ضرورت کی اہمیت:

پارکنسونزم کی بیماری میں دواؤں کو ڈاکٹر کے مشورہ سے استعمال کیا جائے تو بیماری پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس بیماری میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ بیماری کی صحیح تشخیص ہو اور اس کے بعد علاج کے لیے کسی ماہر نیورولوجسٹ ماہر دماغی امراض سے مشورہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں میوہسپتال لاہور میں ایک مکمل نیورولوجی وارڈ ہے جہاں مختلف دماغی امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔

متبادل علاج:

ژ          پارکنسونزم کے مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ بات ذہن نشین کرے کہ اس بیماری کو ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق دواؤں کے صحیح استعمال سے کسی حد تک کنٹرول تو ضرور کیا جا سکتا ہے مگر اس کا مکمل اور شافی علاج تھوڑا مشکل ہے۔ کچھ ہومیو پیتھک دوائیں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔

ژ          مریض کا نفسیاتی طور پر خیال رکھا جانا چاہیے اور اسے ذہنی و نفسیاتی طور پر سہارا دینا ضروری ہے تاکہ وہ بیماری کے دوران کسی قسم کی ڈیپریشن کا شکار نہ ہو کیونکہ اس طرح کی بیماریوں میں ڈیپریشن بہت خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ جس سے علاج زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔

ژ          مریض دواؤں کے ساتھ ساتھ اپنی خوراک کا خاص خیال رکھے۔ زیادہ تر نرم اور سادہ غذا استعمال کی جائے۔ سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ ا ستعمال کیا جائے۔ مرغن ا ور زیادہ نشاستہ والی غذاؤں سے پرہیز کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔