سلامتی کونسل اور دنیا کی سلامتی

شاہد سردار  اتوار 13 اکتوبر 2019

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ (سلامتی کونسل) کا ادارہ بنیادی طور پر دنیا کو جنگوں سے بچانے ہی کے لیے وجود میں لایا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے یہ عملاً چند بڑی طاقتوں کے مفادات کا آلہ کار بن گیا، جس کی وجہ سے یہ تنظیم نہ صرف یہ کہ فلسطین اورکشمیرکے لوگوں کو ان کا حق خود ارادی دلانے کے لیے کوئی نتیجہ خیز اقدام نہیں کرسکی بلکہ افغانستان ، عراق، شام اور یمن میں خوں ریزی روکنے کی بھی کوئی کامیاب کارروائی اس کے ہاتھوں ممکن نہ ہوئی۔ دنیا کے محفوظ مستقبل کے لیے کم ازکم اب اقوام متحدہ کو اپنا کردار موثر طور پر ادا کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے لیکن اس کے سابقہ کردار یا طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔

اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں موجود حکمرانوں اور سفارتی نمائندوں کی اکثریت کے دل ودماغ احساسات اور جذبات سے یکسر عاری ثابت ہوئے ہیں اور یہی نہیں بلکہ عالمی برادری کا دہرا معیار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ یہ اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل ہی ہے جو 72 سالوں سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے سے قاصر رہی ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے حال ہی میں دنیا کے سب سے بڑے بین الاقوامی فورم پرکشمیرکا مقدمہ جس قدر مدلل ، پرجوش اور متاثر کن طور پر پیش کیا گیا، اس کو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے ساتھ اہل کشمیر کے لیے بہار کا ایک جھونکا اور امید کی ایک کرن ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن کڑوی سچائی یہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ احتجاجوں، مذمتوں یا تقریروں سے ہرگز حل ہونے کا نہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بیانی کا ایک زمانہ معترف ہے مگر وہ بھی اقوام متحدہ کے سر دیوان میں اپنی شعلہ بیانی سے آگ نہ لگا سکے۔ 15 دسمبر 1971 کو بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمیں ہزار سال بھی لڑنا پڑا تو لڑیں گے اگر تم لے سکتے ہو تو پانچ یا دس سال کے لیے مشرقی پاکستان لے لو، لیکن ہم یہ واپس لے کر رہیں گے کیونکہ یہ تاریخ کا سبق ہے۔ آج میں اس اجلاس سے واک آؤٹ نہیں کر رہا لیکن میں آپ کی سیکیورٹی کونسل سے جا رہا ہوں، میں یہاں اب ایک پل کو بھی رکنے کو اپنی ذات اور اپنے ملک کی توہین سمجھتا ہوں، کوئی بھی فیصلہ کردو چاہے قبضے کو قانونی حیثیت دے دو، ہر وہ چیز قانونی قرار دے دو جو 15 دسمبر 1971تک غیر قانونی تھی، آپ اپنی سیکیورٹی کونسل اپنے پاس رکھیں میں واپس جاکر لڑوں گا۔‘‘

یہ کہتے ہوئے بھٹو نے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے کو پھاڑ کر پھینک دیا اور وہاں سے چلے آئے۔ واپس جاکر لڑنے کی بات محض لفظوں کی جادوگری تھی کیونکہ جب بھٹو سلامتی کونسل میں یہ تقریر کر رہے تھے تو پاکستان میں 16 دسمبر 1971 کا سورج طلوع ہو چکا تھا اور ہمارے ملک کے دو ٹکڑے ہوچکے تھے، سانحہ مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ ہوچکا تھا۔

بڑے افسوس کے ساتھ یہ تحریرکرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار برسوں سے صرف تقریروں کو ہی اپنا مطمع نظر بنائے ہوئے ہیں اور عملی اقدامات ان سے کوسوں دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ہماری قوم میں شعورکی لہر بیدار نہ ہوسکی اور یوں ہم اپنے تقریروں کے دھنی رہنماؤں کی تقریریں سن سن کر دھمال ڈالنے میں مصروف چلے آرہے ہیں، اور صرف واہ واہ اور زندہ باد کی سیاست کے ہی اسیر رہنے کو ترجیح دیتے آرہے ہیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کوئی تقریر انقلاب برپا نہیں کرسکتی لیکن اس بات پر بھی ہمیں یقین ہے کہ کبھی کبھی ایک تقریر تاریخ بدلنے کی بنیاد بن جاتی ہے۔

زندان میں ملنے والی کوئی بھی سہولت آزادی کا نعم البدل ہوسکتی تو کشمیری عوام کی تیسری نسل بھارتی فوج سے برسر پیکار نہ ہوتی۔ دنیا بھر کی پراسرار خاموشی (سوائے پاکستان کے) جسے مجرمانہ خاموشی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کشمیری اب اس سطح پر آچکے ہیں کہ بھارتی غلامی پر موت کو ترجیح دے رہے ہیں اور جب حالات اس نہج پر آجائیں تو تحریکوں کی راہ روکنا ممکن نہیں رہتا۔

سلامتی کونسل میں پاکستان کی طرف سے جنیوا میں 16 ممالک کی حمایت یا تائید کو قرارداد کی شکل میں پیش کرنا پاکستان کے پروگرام میں تھا اور اس کا اشارہ ہمارے میڈیا خصوصاً صحافیوں کو دے دیا گیا تھا لیکن نہ جانے کیوں قرارداد پیش کرنے کے معاملے میں پاکستانی قوم کو مایوس کیا گیا۔ اس تناظر میں ظاہر ہے کہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم کشمیر کے معاملے پر اپنوں سے سچ نہیں بولیں گے تو دنیا کو حقائق کیا بتائیں گے؟

ہماری دانست میں اب ہمارے ارباب اختیار کو مصلحت کوشی سے کام لینے کے بجائے کشمیر ایشو پر دو ٹوک رائے اور فیصلہ اقوام عالم کے سامنے رکھ دینا چاہیے۔ تکلیف دہ سچائی یہی ہے کہ ہمارے گزشتہ حکمرانوں نے کشمیرکاز کے حوالے سے صرف اور صرف اپنی سیاست چمکائی ہے، انھیں اپنے ملک سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جبھی وہ اسے بری طرح لوٹ کر کھوکھلا کرتے رہے تو انھیں کشمیر اور کشمیریوں سے کیا ہمدردی ہوتی؟ لہٰذا اب بہت وقت گزر گیا، کشمیر میں ہلاکتیں بڑھتی جا رہی ہیں، خواتین کی عصمتیں پامال ہو رہی ہیں، ظلم و جبر آخری حدوں پر پہنچ گیا ہے ایسے میں کشمیر کے نام پر مصلحت کوشی یا دھوکہ دہی اب بند ہوجانی چاہیے۔ ہمارے ارباب اختیار کی طرف سے سیاسی و معاشی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کشمیر کے نام پر صرف شور ہی نہ مچایا جائے کیونکہ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر کوئی بھی کبھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا لہٰذا کشمیر کے حوالے سے کوئی فیصلہ کن کام ہم کو ہی ضرورکرنا ہوگا۔

اقوام عالم کے ساتھ ساتھ ہم سبھی کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر کشمیر کے حوالے سے بھارت اور پاکستان میں روایتی جنگ شروع ہوئی تو ایک ملک جو اپنے ہمسائے سے سات گنا چھوٹا ہے تو اس کے پاس کیا موقع ہے، یا تو آپ ہتھیار ڈال دیں یا آخری سانس تک اپنی آزادی کے لیے لڑتے رہیں اور جب جوہری ہتھیاروں کا حامل ملک آخر تک لڑتا ہے تو اس کے تباہ کن نتائج پوری دنیا تک پھیل سکتے ہیں۔ عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ کشمیریوں کو بہر صورت حق خود ارادیت دلوائے کیونکہ اس کے سوا مسئلے کا کوئی اور منصفانہ حل نہیں۔ پوری دنیا کو اب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا ورنہ دنیا کا امن داؤ پر لگ جائے گا۔

سلامتی کونسل (اقوام متحدہ) کو دنیا کے محفوظ مستقبل کے لیے محض زبانی جمع خرچ اور بحث مباحثے کے کلب تک محدود رہنے کے بجائے اس ادارے کو دنیا میں امن و انصاف کے قیام کے لیے بلاتاخیر فیصلہ کن اقدامات عمل میں لانے چاہئیں اور اجتماعی دانش سے کام لے کر جنگ کے خطرات کا ازالہ اور دنیا کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرکے اسے نافذ کرنا چاہیے ورنہ یہ تنظیم بھی پہلی جنگ عظیم کے بعد بننے والی ’’لیگ آف نیشنز‘‘ جیسے انجام سے دوچار ہوکر رہے گی۔ کیونکہ تاریخ کی ایک بہت بڑی اور تکلیف دہ عادت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دہراتی ضرور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔