اندر کی کہانی باہر کیسے آگئی
یہ بات بھی سامنے آگئی کہ ایک ماہ پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جیل سے جے یو آئی کے سربراہ کو خط لکھا تھا۔
اسلام آباد لاک ڈاؤن کے آزادی مارچ کے بارے میڈیا پر مسلسل گفتگو کے نتیجے میں اب یہ سیاست کا اہم موضوع ہے۔ اس سلسلے میں خبروں کی تلاش جاری ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں آزادی مارچ میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں اختلافات اور تقسیم کی خبر بھی باہر آگئی۔
یہ بات بھی سامنے آگئی کہ ایک ماہ پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جیل سے جے یو آئی کے سربراہ کو خط لکھا تھا۔ نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف نے ایک اور خط حسین نواز کو بھی لکھا ہے۔ جس میں آزادی مارچ شریک ہونے کا ہدایت نامہ بھی موجود ہے۔ حسین نواز لندن میں ہیں۔ لندن میں الطاف حسین پر مقدمہ قائم ہونے کا عمل جاری ہے جس میں تقریروں کے ذریعے تشدد پر اکسانے کا الزام ہے۔
اس خبر کے بعد حسین نوازکو مزید محتاط رہنا ہوگا۔ اندرکی کہانی کیا تھی پہلے کسی کو نہیں معلوم تھا مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما میڈیا کے نمایندوں کو اطلاع دے چکے تھے کہ جے یو آئی کے سربراہ آزادی مارچ کی حکمت عملی اور اس کے ممکنہ نتائج اور آیندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں کچھ بتانے کو تیار نہیں ہیں۔
ایک جملہ یہ بھی منسوب کیا گیا کہ وہ مٹھی کھولنے کو آمادہ نہیں ہیں۔ بعض رہنما یہ بھی سوال اٹھا رہے تھے کہ اگر کوئی سانحہ پیش آگیا تو آگے کیا ہوگا۔ بڑے اجتماع میں چند شرپسندوں کا داخل ہونا کوئی مشکل نہیں ہے اگر کسی نے باہر سے کوئی کارروائی کر دی تو فسادات کا ذمے دار کون ہوگا۔ کیا پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ ، اہم سرکاری عمارتوں کا تحفظ یقینی ہوگا؟
یہ خدشات ایک طرف تھے جے یو آئی کے سربراہ، اپوزیشن اور مقتدر رہنماؤں کے غصیلے بیانات نے فضا میں مزید کشیدگی پیدا کردی۔ اب اندر کی اصل کہانی بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ایک بیان سے کھل کر سامنے آگئی جو انھوں نے اپنی پیشی کے موقع پر میڈیا کے نمایندوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا کہ انتخابات کے بعد جے یو آئی کے سربراہ نے اسمبلیوں میں نہ جانے کا مطالبہ کیا تھا اسے تسلیم نہ کرنا ہماری بڑی غلطی تھی۔
اس طرح یہ واضح ہو رہا ہے کہ اس غلطی کے ازالے کی منصوبہ بندی ہے۔ فوری طور پر اسمبلیوں سے استعفے آسان نہیں ہیں لہٰذا جلد ازجلد ایسی فضا اور حالات پیدا کردیے جائیں کہ اراکین اسمبلی دباؤ میں آکر آسانی سے مستعفی ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی دونوں کے لیے اقتدار کی راہ ہموار ہوگی، جوکہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ اقتدار میں آسکیں گی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی۔ حکومت اور خود اپنے اراکین پر دباؤ کے لیے اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ہنگامہ آرائی کا راستہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے جس کا اشارہ جے یو آئی کے سربراہ دے چکے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ ملک بھر میں پھیلایا جائے گا۔ ظاہر ہے لاک ڈاؤن پرامن طریقے سے نہیں ہوسکتا ہے۔ جو لاک ڈاؤن نہیں چاہتے انھیں مجبور کیا جائے گا جس سے تشدد کی فضا پیدا ہوگی۔ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا۔
جے یو آئی اور حکومت میں بھی کچھ راز و نیاز کا معاملہ ضرور ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیا کہ 27 اکتوبر کو کشمیری یوم سیاہ مناتے ہیں لہٰذا آزادی مارچ کی تاریخ تبدیل کر دی جائے۔ جے یو آئی کے سربراہ نے اسلام آباد پہنچنے کی تاریخ 31 اکتوبر کر دی، یہ سب کچھ بالا بالا نہیں ہوا ہوگا۔ جے یو آئی کے سربراہ کو امید ہے کہ صدر پاکستان کے انتخابات میں انھیں کامیابی نہیں ہوئی تھی لیکن اس مرتبہ وہ اپنے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جب مذاکرات شروع ہوں گے جس کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تو وہ بغیر کچھ طے کیے ختم نہیں ہوں گے۔
فوری طور پر اس کا اعلان نہ بھی ہوا تو کچھ عرصے بعد سب کچھ سامنے آجائے گا۔ کیا جے یو آئی ایک مرتبہ پھر اقتدار کے ایوان کی طرف سفر کر رہی ہے؟ کم ازکم جے یو آئی کے سربراہ کو اس بات کی پوری امید نظر آرہی ہوگی وہ اس سلسلے کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں ، وہ میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ مدرسوں کے طلبا کے بل پر دباؤ بھی ڈال رہے ہیں۔ نواز شریف کا بیان ان کی حمایت میں آچکا ہے۔
سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیاست بے رحم ہوتی ہے اس میں اصول و ضابطے ہوا میں چلے جاتے ہیں۔ جس کے آثار واضح ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہرکام اسی منصوبہ بندی سے اسی نتیجے پر اختتام پذیر ہو جس کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ ملک بھر میں ہنگامے کرانے کے بعد بھی اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کا منصوبہ ناکام ہوسکتا ہے اور ایسا کوئی نتیجہ بھی برآمد ہوسکتا ہے جس سے اپوزیشن کو بہت زیادہ نقصان ہو جائے اس طرح کے حالات میں بیرونی قوتیں فائدہ حاصل کرتی ہیں۔
اس ساری کہانی میں جے یو آئی کے سربراہ نے نواز شریف کے جس خط کا ذکر کیا تھا، اس خط کے مندرجات سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو مکمل آگہی دے دی جاتی تو اس بات کا امکان تھا کہ پیپلز پارٹی کسی اور لائحہ عمل کا اعلان کرتی، غالب امکان یہی ہے کہ خط کے مکمل مندرجات سے بلاول بھٹو کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
میڈیا میں کچھ باتیں مریم نواز کے موبائل فون کے پیغامات سے متعلق بھی ہیں ، ان پیغامات کا آزادی مارچ کے لائحہ عمل سے کس حد تک تعلق ہے یہ واضح نہیں ہے۔ امکان یہی ہے کہ اس میں بھی اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کے لیے فضا ہموار کرنے کے سلسلے میں کوئی بات ضرور ہوگی۔ جے یو آئی کے سربراہ تجربہ کار سیاستدان ہونے کی وجہ سے پہلے ہی دن یہ سمجھ گئے تھے کہ اسمبلیوں کو فارغ کیے بغیر ان کے لیے اقتدار کی راہ ہموار نہیں ہوگی۔
اب بھی جو راہ اختیار کی گئی ہے اس کا اگلا مرحلہ اسمبلیوں سے استعفے کا ہے پاکستان کی سیاست میں عجب تماشا شروع ہوچکا ہے۔ نواز شریف کے ایک بیان سے اندر کی کہانی باہر آگئی ہے۔ وہ جو اس کہانی کو خفیہ رکھنا چاہتے تھے اس بات سے پریشان ہیں کہ اندر کی کہانی کیسے باہر آگئی۔ جب اندر کی کہانی باہر آجاتی ہے تو نیا انتشار سامنے آتا ہے پھر نت نئی ترکیبیں شروع کردی جاتی ہیں تاکہ اس پر پردہ ڈالا جائے۔
پاکستان کے عوام کی خوشحالی اور انھیں بااختیار بنانے کا یہ راستہ نہیں ہے اس طرح افراتفری اور انتشار کو فروغ مل سکتا ہے۔ کشمیر اور خطے کے حالات کی وجہ اس وقت بھرپور قومی یکجہتی کی ضرورت ہے پاکستان میں کسی بھی بد امنی اور افراتفری سے معیشت پر مزید دباؤ آئے گا۔ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سیاستدانوں اور تمام مقتدر حلقوں کو احتیاط، تدبر اور برداشت سے کام لینا ہوگا۔ دنیا بھر میں حالات تبدیل ہو رہے ہیں ہر جگہ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے موثر اقدامات اختیار کیے جا رہے ہیں۔ یہ رسہ کشی جاری رہی تو ہم بہت زیادہ پیچھے جاسکتے ہیں۔ اس خطرے کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔